اس ملک کے سیاسی حقائق یہ ہیں کہ جمہوریت کے لیے سچی، حقیقی اور عوامی جدوجہد انہی دو بڑی جماعتوں کی مصلحت کی وجہ سے دفن ہوچکی ہے
نوساختہ و نوزائیدہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد اس کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن کی جھولی میں ڈال دی گئی ہے۔ اتحاد کی سربراہی کے لیے نام مسلم لیگ(ن) نے تجویز کیا، دیگر جماعتوں نے تحفظات کے سائے میں فیصلے کی تائید تو کردی مگر قبول نہیں کیا، بلکہ یہ تجویز دی کہ اتحاد کی سربراہی کے لیے مدت کا تعین ہونا چاہیے۔ اپوزیشن اتحاد کے پہلے جلسے کے لیے کوئٹہ کا انتخاب کیا گیا تھا، مگر پیپلزپارٹی کے اعتراض کے بعد اب یہ جلسہ کراچی میں ہوگا، کوئٹہ میں25 اکتوبر کو جلسہ رکھا گیا ہے، 13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ ہوگا۔ پشاور، ملتان اور گوجرانوالہ میں بھی جلسے کیے جائیں گے۔ پہلے جلسے کے لیے کوئٹہ کا اعلان کرکے اسے واپس لیے جانے پر بہت سے سوالات کھڑے ہوئے ہیں، مگر جو کچھ ہوا ہے یہی کچھ ہونا تھا، کیونکہ پیپلزپارٹی دل کی گہرائیوں سے اتحاد کی قیادت قبول کرنے سے گریز کررہی ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعت پختون خوا ملّی عوامی پارٹی نے بلوچستان کو نقطہ آغاز بنانے کی تجویز دی تھی، یہ تجویز دراصل ہوا کا رخ معلوم کرنے کے لیے تھی کہ اپوزیشن کے خلاف ’’سرکار‘‘ کا ردعمل کیا ہوگا؟ افغانستان میں طالبان امریکہ اور بین الافغان مذاکرات کے عمل کے باعث ایک خاص سیاسی صورتِ حال جگہ بنا رہی ہے اور انہی معروضی حالات کے باعث کوئٹہ کئی لحاظ سے بیرومیٹر طے کرنے والا شہر ہے، اور یہیں سے فیصلہ ہونا تھا کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ آگے بڑھے گا، یا اپوزیشن اتحاد کے باہمی اختلاف کے ملبے تلے دب کر دم توڑ جائے گا۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کی خواہش پر کراچی میں جلسہ طے کرلیا گیا ہے، تاہم اتحاد کی جماعتوں نے باہمی عہدِ وفا کا ’دیا‘ ابھی تک نہیں جلایا ہے، اور انہیں اندازہ ہے کہ سفر سے جسم ٹوٹ جائے گا۔ اپوزیشن اتحاد دو راستوں پر چل رہا ہے، پہلا راستہ یہ ہے کہ تحریک آگے بڑھائی جائے اور ’’سرکار‘‘ کاردعمل دیکھا جائے، مثبت اشارہ مل جائے تو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک اگلے سال جنوری تک عروج تک پہنچا دی جائے، مگر پیپلزپارٹی اپنی ترجیحات کا مسلسل جائزہ لیتی رہے گی اور اس کوشش میں رہے گی کہ اتحاد کی حکمت عملی کی آبیاری لاڑکانہ کے پانی سے کی جائے۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی اپنی حکمت عملی بنائی ہے اور ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری اطلاعات کے باوجود سندھ کے سابق گورنر، وفاقی وزیر اسد عمر کے بھائی محمد زبیر کو نوازشریف اور مریم نواز کا ترجمان مقرر کردیا ہے۔ محمد زبیر ہی نے گزشتہ ماہ آرمی چیف سے دو اہم ملاقاتیں کی تھیں، یوں اب نوازشریف اور مریم نواز کی سیاست سمجھنے کے لیے محمد زبیر پر نظر رکھنا ہوگی۔ اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں کی اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی دیکھنے کے بعد اب فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کس حد تک اور کہاں تک ایک بوری میں تین ٹانگوں کی دوڑ کا حصہ بنی رہیں گی، کیونکہ دوریاں اور رنجشیں دلوں میں بہرحال برقرار ہیں، خواجہ آصف کا حالیہ بیان اس کا مظہر ہے۔ پارلیمنٹ سے استعفوں کے معاملے پر بھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی نے تو یہ مطالبہ سامنے آنے پر گیند مسلم لیگ کے کورٹ میں پھینک دی کہ نوازشریف واپس آئیں تو استعفے انہیں تھما دیے جائیں گے۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مسلسل دو سال سے سیاسی کشمکش کا شکار ہیں مگر ان کے فیصلوں میں کبھی بھی یکسوئی نہیں دیکھی گئی۔ ماضیِ قریب میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا ایک بڑا فیصلہ ہوا تھا، مگر اس محاذ پر دونوں جماعتوں کی صفوں سے ان کے 14 سینیٹر ایسے غائب ہوئے تھے کہ اس معاملے کی تحقیقات بھی ابھی تک لاپتا ہیں۔ اب دوسری بار بلوچستان کا انتخاب کیا گیا، مگر طے شدہ جلسہ ملتوی کردیا گیا۔ چودہ سینیٹرز کے نام جب تک سامنے نہیں لائے جائیں گے اُس وقت تک ووٹ کو عزت دو والی بات محض نعروں، ترانوں تک ہی محدود سمجھی جائے گی۔
ملکی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن اتحاد بنتے رہے ہیں، حقائق یہی ہیں کہ اتحادوں میں شامل ہر جماعت اپنے اپنے مدار میں گھومتی رہی ہے۔ اب بھی صورتِ حال ماضی سے مختلف نہیں ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پیپلز پارٹی نپی تلی اور محتاط پالیسی اپناکر تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو جیسی چال چل رہی ہے۔ جس قدر تلخ، انقلابی، نظریاتی مؤقف اور بیانیہ نوازشریف نے اپنایا، ساتھ ہی آرمی چیف سے ملاقاتیں کرنے والے ’’ہم خیال سیاسی دوست‘‘ محمد زبیر کو اپنا ترجمان بھی مقرر کردیا ہے، یوں انہوں نے اپنا بیانیہ اپنے ترجمان کے حوالے کردیا ہے۔ اب لگام ترجمان کے ہاتھ میں ہے، وہی بتائیں گے کہ نوازشریف کی قبا میں کس وقت مصلحت کی پیوند کاری ہوگی۔ اس ملک کے سیاسی حقائق یہ ہیں کہ جمہوریت کے لیے سچی، حقیقی اور عوامی جدوجہد انہی دو بڑی جماعتوں کی مصلحت کی وجہ سے دفن ہوچکی ہے، اب کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست ہے۔ اسے جو مرضی نام دے لیں، ووٹ کو عزت دو والی بات نظر نہیں آتی۔
اپوزیشن اتحاد کی حکمت عملی کی کمزوریاں اپنی جگہ… اپوزیشن کے مدمقابل حکومت بھی کچھ کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ’’عقل مند‘‘ ثابت ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے پہلے مرحلے میں ہی حکومت کو مشتعل کردیا ہے، حکومت کا مشتعل ہونا اس سے غلطیاں کراتا جائے گا۔ وزیراعظم کے انٹرویوز اور ترجمانوں کا ہلہ گلا پوری طرح اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ حکومت بہت زیادہ مشتعل ہے، اور اپوزیشن بھی یہی چاہتی تھی کہ حکومت مشتعل ہو تاکہ اس کے اندر کا درجہ حرارت معلوم ہوسکے۔ جواب در جواب کے باعث حکومت پوری طرح اپوزیشن کی وکٹ پر کھیل رہی ہے اور یہی اس کی ناتجربہ کاری کا مظہر ہے۔ حکومت کی ناتجربہ کاری کے باعث ہی ایک تیسری قوت میدان میں اتری۔ علماء اور سیاسی شخصیات نے علامہ طاہر اشرفی کی کمانڈ میں آگے بڑھ کر یہ نعرہ لگایا ہے کہ فوج پر تنقید کرنے والوں کی زبانیں نکال لی جائیں گی۔ علامہ طاہر اشرفی دراصل مولانا فضل الرحمٰن پر کام کریں گے اور انہیں ’’سرکار‘‘ کے خلاف بڑھ چڑھ کر بات کرنے سے روکیں گے۔ علامہ طاہر اشرفی کا میدان میں اترنا اور انہیں وزیراعظم کا نمائندہ برائے مذہبی ہم آہنگی مقرر کرنا حکومت کا فیصلہ معلوم نہیں ہوتا، یہ انہی کا فیصلہ ہے جو فی الحال حکومت کو تحفظ دینا چاہتے ہیں، لیکن صورتِ حال بدل رہی ہے اور اب تحریک انصاف کی حکومت کو تحفظ دیے رکھنا مشکل بنتا چلا جارہا ہے۔ مستقبل میں ہونے والے اصل فیصلوں کا دارو مدار بڑی سیاسی جماعتوں کی پُرامن اور پُراثر سیاسی جدوجہد پر ہوگا، کیونکہ سرکار بھی چاہتی ہے کہ تندو تیز بیانات اور بیانیے اپنی جگہ… اداروں کونشانہ بنانا درست نہیں۔ جہاں تک سیاسی آکسیجن کا تعلق ہے، فی الحال یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ساری کھڑکیاں بند نہیں کی جائیں گی، نوازشریف کے لیے ابھی بھی آپشن موجود ہے کہ انہیں ریلیف کے لیے عدلیہ اور پارلیمنٹ سے مدد لینا ہوگی۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی جائزہ لے رہی ہے اور حکمران جماعت تین واضح گروپوں میں تقسیم ہے۔ پہلے گروپ میں تحریک انصاف کے اوّلین لوگ شامل ہیں، دوسرا گروپ الیکٹ ایبل اور فصلی بٹیروں پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ طوطا چشم ہے، اس کی نظر سیاسی بیرومیٹر پر ہے، ہوا کا رخ دیکھ کر یہ کسی بھی وقت تحریک انصاف کی شاخ سے اڑ سکتا ہے۔ اور تیسرا گروپ غیر منتخب مشیروں اور معاونین کا ہے۔ وزیراعظم اپنے مشیروں اور معاونین پر زیادہ بھروسا کررہے ہیں، یہی بات تحریک انصاف کے اوّلین گروپ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ یہ گروپ چاہتا ہے کہ حکومت انتخابی عمل میں جانے سے قبل کچھ کرکے جائے۔ مگر اب حکومت کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے، سیاسی منڈی میں تیزی آچکی ہے، اپوزیشن متحرک ہوچکی ہے، شریف فیملی اور مولانا فضل الرحمٰن بہت جلدی میں ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی بدستور ایک مناسب فاصلے پر کھڑی ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ نوازشریف ہر صورت میں مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنانا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی میں ہی انہیں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ اب میدان میں اترے ہیں۔ پہلے وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے مذاکرات کرتے رہے، اور خود مریم نواز بھی بعض مواقع پر براہِ راست مذاکرات میں شریک رہیں۔ شریف فیملی کے نیب آرڈیننس میں ترمیم کے مطالبات محض تین تھے، جن کے پورا ہونے کے نتیجے میں مریم نواز کی سزا اور سیاسی نااہلی عارضی طور پر ختم ہوجاتی اور شہباز فیملی کو گرفتاری سے محفوظ رکھنا بھی ایک مطالبہ تھا۔ پیپلز پارٹی الگ سے معاملات طے کرنے میں مصروف تھی اور اب بھی ہے، لیکن آصف علی زرداری بہت کم پیکیج مانگ رہے ہیں، جبکہ شریف فیملی کے مطالبات زیادہ ہیں۔ اگر بات نہ بنی تو شریف خاندان ایک نئی حکمت عملی پر کام کرے گا۔ اس نے ارشد ملک کی گفتگو کی ریکارڈنگ کی کاپی کرکے برطانیہ میں مختلف غیر ملکی سفارت کاروں کو بھجوائی ہے، اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جائے گی کہ نوازشریف اور مریم نواز کو دی جانے والی سزائیں شفاف نہیں تھیں۔ شریف فیملی کے پاس ارشد ملک سے متعلق جو مواد تھا وہ غیر ملکیوں کے حوالے کیا جا چکا ہے، یہ کب منظرعام پر آتا ہے اس کا انتظار ہے۔ نوازشریف سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ہر صورت میں اپنے لیے رعایت چاہتے ہیں، انہیں خوف ہے کہ اگر موجودہ سیاسی سیٹ اَپ جاری رہتا ہے تو نون لیگ کا سائز کم اور پیپلز پارٹی کی جگہ میں اضافہ ہوگا۔ بیرونی عناصر اس کوشش میں ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین مستقبل کے لیے پاور شیئرنگ فارمولا طے کروا دیں، اور آصف علی زرداری اور شریف فیملی کے درمیان بداعتمادی کو ختم کروا کر گارنٹر بن جائیں۔ بیرونی عناصر کی اس کھیل میں شمولیت ایک تیسرا محاذ ہے، ان کے اسکرپٹ میں پاکستان کی بدلتی ہوئی لبرل خارجہ پالیسی اور خطے میں پاکستان، ترکی، چین، روس اور ایران پر مشتمل بنتے ہوئے نئے اتحاد پر مزاحمت بھی ایجنڈے کا اہم جزو ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور اس کے ادارے اور لبرل سیاسی جماعتیں اس منڈی سے اپنے لیے کیا حاصل کرتی ہیں۔ نوازشریف جنہوں نے سیاسی کیریئر مقامی مقتدرہ سے شروع کیا تھا، لگتا ہے ان کا آئندہ سفر بین الاقوامی مقتدرہ کے رحم و کرم پر ہوگا۔ یہ ایک چومکھی لڑائی ہے، اعصاب شکن جنگ ہے، اس میں جیتے گا وہی جو اپنے آپ پر، اپنے فیصلوں کی ٹائمنگ پر کنٹرول رکھے گا۔ لیکن آخر میں ایک بات کہ ایک بار پھر وہی پرانی کہانی سامنے آرہی ہے، وہی پرانا کھیل، غدار غدار کا نعرہ! اگرچہ وزیراعظم نے ایسے مقدمات پر اظہارِ ناراضی کیا ہے، تاہم اس سے کچھ آگے بڑھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے اگر سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی دلائل کی بنیاد پر کیا تو انہیں بہت سیاسی فائدہ ہوگا، دوسری صورت میں تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجیے، کس کس پر غداری کا لیبل نہیں لگا؟ اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔