عالم اسلام کے اہم ملک مصر میں اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے مزید 13 رہنمائوں اور کارکنان کو موت کی سزا دے دی گئی ہے۔ مصر کے ٹی وی نے سزائے موت پر عمل درآمد کی تصدیق کردی ہے۔ حسبِ روایت حکومت کی طرف سے سزائے موت پانے والے رہنمائوں اور کارکنوں پر فوجی حکومت کے خلاف بغاوت اور متشددانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف جبر و استبداد کی کارروائیوں کا سلسلہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والی فوجی حکومت نے شروع کیا ہے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نے جبرو استبداد اور ریاستی دہشت گردی کی انتہا کردی ہے۔ جنرل السیسی کی فوجی حکومت نے اپنے شہریوں کے احتجاج کو کچلنے کے لیے صرف ایک دن میں ایک ہزار سے زیادہ مظاہرین کو گولیوں سے بھون دیا تھا۔ یہ عالمِ اسلام کا المیہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور عرب و افریقی ممالک میں عالمی قوتوں کی سرپرستی میں جابرانہ استبدادی نظام حکومت رائج ہے، اور ان حکومتوں کو امریکہ اور یورپی ممالک کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس کی ایک شہادت یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ایک دھمکی آمیز بیان دیا کہ خلیجی ممالک کی بادشاہتیں ہماری مرہونِ منت ہیں، وہ ہماری مرضی کے بغیر ایک دن قائم نہیں رہ سکتیں۔ اس دھمکی آمیز بیان کے بعد مشرق وسطیٰ اور خلیج کے حکمرانوں کی سرپرستی جاری رکھی گئی۔ یہ تماشا تہذیبِ مغرب کے تضاد کی سب سے بڑی علامت ہے۔ مغرب پوری دنیا کو آزادی، جمہوریت اور نمائندہ حکومتوں کا سبق پڑھاتا ہے، لیکن مسلم ممالک میں فوجی آمروں، جابر بادشاہوں اور ضمیر فروش بدعنوان سیاست دانوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ ایک زمانے میں مضبوط اور طاقتور مردِ آہن کو قومی تحفظ کا ذریعہ قرار دے کر عالمِ اسلام میں جبرو استبداد کو مسلط کیا گیا۔ جبر و استبداد کا بدترین مظاہرہ جن ممالک میں کیا گیا اُن میں مصر بھی شامل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصر میں فرعونیت نے’’دوبارہ‘‘ نئے نام سے جنم لے لیا ہے۔ عالمِ عرب میں تیونس سے جبرو استبداد کے نظام سے آزادی کی تحریک شروع ہوئی، جو مصر تک پہنچ گئی، اور جمال عبدالناصر اور انور سادات کے جانشین حسنی مبارک کو عبرت ناک انجام سے دوچار کردیا۔ عالمِ اسلام میں سیاسی انقلاب کا سفر عالمی سامراجی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا تو سازشیں شروع ہوگئیں۔ جبر و استبداد کے خلاف عوامی سیاسی تحریک کی پیش قدمی اور رہنمائی اسلامی تحریکوں کو حاصل ہوگئی۔ جدید اور سیکولر نظامِ تعلیم کے گہرے اثرات کے باوجود ہر مسلمان ملک میں عوامی سطح پر اسلامی رجحان ہی مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک تو خاص طور پر امریکی اور یورپی سازشوں کا مرکز ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ نے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہی عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کا خنجر پیوست کیا ہے۔ عام مسلمانوں نے تمام سازشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جب بھی ان کو موقع ملا ہے انہوں نے ملّی جذبے کا اظہار کیا ہے۔ عرب بہار اس کا اظہار تھی جس کے نتیجے میں مرسی کی سربراہی میں اخوان المسلمون کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی پہلی حکومت تھی۔ حکومت سازی کے وقت بھی سازشیں جاری رہیں لیکن اخوان کی قیادت حکمت و تدبر سے ان کا ازالہ کرتی رہی۔ مصر میں سیاسی انقلاب کامیاب ہوجاتا تو عالمِ اسلام کی تقدیر بدل جاتی، اور عالمِ اسلام میں سیاسی انقلاب مغربی سامراجی نظام کے خاتمے کا سبب بن سکتا تھا۔ لیکن مشیتِ الٰہی کو ابھی بھی اخوان المسلمون مصر کی قیادت، کارکنوں اور عوام کی آزمائش مقصود ہے۔ اخوان کی قیادت صبر اور عزیمت سے ہر قسم کے جبر و استبداد، قید اور سزائے موت کا مقابلہ کررہی ہے۔ سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ جبر و استبداد کے نتیجے میں بے صبری سے کیسے بچا جائے۔ فوجی آمروں کے جبر و استبداد اور ظلم و تشدد کے مقابلے میں اخوان کی قیادت پُرامن سیاسی جدوجہد کے راستے پر قائم ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ 70/50 برسوں سے قائم ہے۔ ویسے تو ہر ملک میں اسلامی تحریکیں آزمائش کا شکار ہیں، لیکن مصر اور بنگلہ دیش دو ایسے مسلمان ممالک ہیں جہاں اسلامی تحریکوں کے لیے سیاسی جدوجہد بھی ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔ جبر و استبداد کے باوجود اسلامی تحریکیں اور ان کی قیادت مغرب کی اس چال میں نہیں آئیں کہ دستوری، آئینی اور پُرامن سیاسی جدوجہد کے راستے کو چھوڑ دیا جائے۔ یہاں پر ہمیں عالمِ اسلام کے نام نہاد ’’ڈیمو کریٹس‘‘ کا رویہ نظر آتا ہے کہ وہ سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کی پھانسی اور قید و بند پر احتجاج کرتے ہوئے ایک جملہ کہنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ مصر کا منظرنامہ جمہوریت، انسانی حقوق، رواداری اور سیاسی آزادی کے علَم برداروں کے لیے بھی امتحان ہے۔