ہر دلعزیز… عبدالغفار عزیز

ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا

انسانی پت جھڑکا عجب موسم ہے۔ عزیز، رشتے دار، دوست، احباب، علماء، اساتذہ، ساتھی، اپنے پرائے سبھی اس تیز رفتاری سے زندگی کی بازی ہارکر اگلے جہاں سدھار رہے ہیں کہ خزاں میں درختوں کے پتّے بھی اس رفتار سے کہاں جھڑتے ہوں گے…! 5 اکتوبر کی صبح نماز فجر کے لیے بیدار ہوا تو موبائل پر اس پیغام نے دل دہلا دیا کہ ’’ہم سب کے عزیز محترم عبدالغفار عزیز دنیائے فانی کی سرحد عبور کرکے اپنے خالق کو عزیز ہوگئے ہیں…‘‘ بوجھل دل کے ساتھ نماز ادا کی جو پکار پکار کر التجا کر رہا تھا ؎۔

کوئی روکے دستِ قضا کو
ہمارے لوگ اٹھتے جا رہے ہیں

نمازِ ظہر کے بعد جنازے کا اعلان کیا گیا تھا۔ منصورہ پہنچا تو ملتان روڈ پر ہی ٹریفک بلاک تھی کہ ایک ہجوم تھا جو جنازے میں شرکت کے لیے امڈا چلا آیا تھا۔ منصورہ گیٹ پر اندر مزید پارکنگ کی جگہ نہ ہونے کا اعلان کیا جارہا تھا۔ گاڑی کھڑی کرکے مسجد پہنچا تو وہاں بھی مسجد کے ہال کے بعد وسیع و عریض صحن بھی مکمل بھر چکا تھا۔ چنانچہ سڑک پر بھی صفیں بنانا پڑیں۔ صرف شہر ہی نہیں، پورے ملک سے عبدالغفار عزیز کو عزیز رکھنے والے امڈے چلے آئے تھے، جب کہ بیرونِ ملک خصوصاً اسلامی دنیا سے تعزیت کے پیغامات کا تانتا مرکزِ جماعت اسلامی میں بندھا ہوا تھا۔ جنازے میں شریک ہر شخص اس طرح غم زدہ اور ملول تھا کہ جیسے اس کا عزیز ترین رشتے دار رخصت ہوگیا ہو ؎
نماز جنازہ سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے شرکاء کو کچھ ہدایات دیں اور یہ شہادت بھی کہ مسکراتے چہرے والے مرحوم بھائی نے تمام عمر کسی کی دل آزاری نہیں کی، بلکہ دل آویز مسکراہٹ سے دوسرے کے دل جیتتے رہے۔ پھر امیر جماعت سینیٹر سراج الحق نے عبدالغفار عزیز کے نظم و ضبط کا پابند، اطاعت شعار اور فرض شناس ہونے کی گواہی دی۔ نماز جنازہ ممتاز عالمِ دین، اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد کے استاد اور مرحوم کے بڑے بھائی پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن عاصم نے پڑھائی جو خود بھی علیل اور جنازہ کے لیے ہسپتال سے اٹھ کر آئے تھے۔
مرحوم عبدالغفار عزیز وفات کے وقت جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر، جماعت کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ تھے، جب کہ انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔ انہوں نے 1962ء میں لاہور کے قریب پتوکی شہر کے ایک دینی اور تحریکی گھرانے میں آنکھ کھولی، ان کے والد حکیم عبدالرحمٰن عزیز علاقے میں جماعت اسلامی کے رہنما کی حیثیت سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد عبدالغفار عزیز مزید تعلیم کے لیے قطر چلے گئے جہاں انہوں نے المہدالدینی جیسے باوقار تعلیمی ادارے سے اسلامک اینڈ عربک اسٹڈیز میں چھے سالہ ڈپلوما حاصل کیا اور پوری جماعت میں اوّل حیثیت سے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پھر قطر یونیورسٹی سے عربی و صحافت کے مضامین میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی، اس دوران انہوں نے الشیخ عبدالعزیز عبدالستار اور الشیخ یوسف القرضاوی جیسے بلند مرتبہ اساتذہ سے ذاتی دلچسپی سے بے پناہ استفادہ کیا۔ پاکستان واپس آ کر بھی انہوں نے حصولِ علم کا سلسلہ جاری رکھا اور ’’وفاق المدارس‘‘ کے ایم اے عربی و ایم اے اسلامیات کے مروجہ علوم کے مساوی ’’شہادت العالمیہ‘‘ کا امتحان پاس کیا۔
قطر سے پاکستان آنے پر وہ جماعت اسلامی کے شعبہ بین الاقوامی امور سے وابستہ ہوگئے۔ اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کی بدولت 2000ء میں اس شعبے کے ڈائریکٹر (سربراہ) بنا دیئے گئے۔ ان کی قیادت میں اس شعبے کو جدید خطوط پر منظم کیا گیا اور دنیا کے مختلف خطوں سے سرکاری اور عوامی سطح پر روابط کے لیے خصوصی ڈیسک تشکیل دیئے گئے۔ یوں یہ شعبہ گزشتہ بیس برس کے دوران مسلم دنیا اور جنوبی ایشیا کی اسلامی تحریکوں میں ممتاز اور منفرد مقام حاصل کرگیا، جس نے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، امریکہ، یورپی یونین، چین، جاپان ، ترکی اور جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا میں ریاستی اور تنظیموں کی سطح پر روابط کو فروغ دینے میں نہایت مؤثر اورفعال کردار ادا کیا۔ شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے مرحوم عبدالغفار عزیز کے اہم سیاسی، سفارتی اور ریاستی شخصیات اور حکومتی عہدیداران سے روابط اور ملاقاتیں ہوتیں جن میں وہ باوقار اور سلیقہ شعار انداز اور مدلل گفتگو سے سامنے والے کو اپنے مؤقف کا قائل کرلیتے۔ ان کا تدبر اور حکمت دو طرفہ تعلقات کی استواری و مضبوطی کا سبب ہوتے۔ انہوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ بیرونِ ملک کے سفروں میں گزارا، جن کے دوران بے شمار عالمی کانفرنسوں، سیمیناروں اور سمپوزیم میں شرکت بھی کی اور لیکچر بھی دیئے۔
ذرائع ابلاغ سے بھی ان کا رابطہ بہت مضبوط اور گہرا تھا۔ وہ دنیا بھر کے حالات سے متعلق خود بھی اخبارات و جرائد میں مضامین تحریر کرتے، خاص طور پر ماہنامہ ترجمان القرآن، ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، روزنامہ جسارت اور عربی جریدے المجتمع میں ان کے سیر حاصل اور جامع مضامین شائع ہوتے۔ پاکستان ہی نہیں عرب اور مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ بھی حالاتِ حاضرہ خصوصاً بین الاقوامی تنازعات پر اُن کی رائے حاصل کرنے کے لیے اُن سے رابطے میں رہتے تھے جن میں بی بی سی، الجزیرہ اور فرانس 24 جیسے ممتاز ادارے بھی شامل تھے۔ ان کی گفتگو میں عموماً گہرائی اور سلاست ہوتی، اور وہ معاملے کے منفی اور مثبت پہلوئوں کو سادہ زبان میں اس طرح واضح کرتے کہ قارئین، سامعین اور ناظرین معاملے کی تہ تک پہنچ جاتے۔ راقم الحروف کو بھی بارہا بین الاقوامی امور سے متعلق آگاہی کے لیے اُن سے ملاقاتوں اور انٹرویو کا موقع ملا، وہ ہمیشہ محبت اور شفقت سے پیش آتے اور معاملے سے متعلق تفصیلی آگاہی فراہم کرتے۔ کبھی کسی سوال پر اُن کے چہرے پر شکن دیکھنے میں نہیں آئی۔
عبدالغفار عزیز کا تعلق ایک دینی اور تحریکی خاندان سے تھا، ان کے والد حکیم عبدالرحمٰن عزیز کا شمار مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کے قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ وہ خود، ان کے بھائی اور خاندان کے کم و بیش تمام افراد اس راستے پر گامزن رہے، جب کہ ان کے بچے بھی دین کی خدمت کے اسی مشن کو اختیار کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے۔ اپنے ساتھیوں کی پسندیدہ باتوں کی ستائش اور حوصلہ افزائی میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ کچھ عرصے تک مسلسل بعض جنازوں یا مریضوں کی عیادت کے موقع پر ہم دونوں اتفاقاً اکٹھے ہوتے رہے، اس کے بعد وہ جس محفل میں بھی ملتے اس بات کا تذکرہ احباب کے سامنے ضرور کرتے کہ میں جنازوں میں شرکت اور مریضوں کی عیادت کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ حالانکہ یہ محض اتفاق تھا کہ ایسی بعض محافل میں اُن سے تسلسل سے چند ملاقاتیں ہوگئیں۔ اُن کے پیش نظر بہرحال ساتھیوں میں اچھی عادات کو پروان چڑھانا اور ان کی حوصلہ افزائی ہوتا تھا۔ طویل عرصے کی رفاقت کے دوران کوئی ایسا موقع مجھے یاد نہیں کہ کوئی حرفِ شکایت، چغلی یا غیبت وغیرہ اُن کی زبان سے سنی ہو، یا کوئی تکلیف دہ جملہ اُن کی جانب سے سماعت سے ٹکرایا ہو۔ وہ ہمیشہ مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے ملتے اور اُن سے ملنے والا ہر فرد یہی سمجھتا کہ میں ان کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ خدا مغفرت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مغفرت ِابراہیم ؑکے حوالے سے وہ جو فرمایا ہے کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے، عبدالغفار عزیز مرحوم کی زندگی اس کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھی۔ اپنے وقت کے ایک بڑے اخبار نویس، شاعر، دانشور اور عبدالغفار عزیز کے تحریکی پیش رو نصر اللہ خاں عزیز مرحوم نے اس آیت ِقرآنی کے مفہوم کو اس خوبصورت شعر میں یوں سمویا ہے ؎۔

مری زندگی کا مقصد، ترے دیں کی سرفرازی

میں اس لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی