ترجمہ:اسامہ تنولی
چھوٹے صوبوں کے وسائل پر وفاق کی جانب سے قبضے کے خلاف تواتر کے ساتھ شکایات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ آج کل سندھ کے دو جزائر پر وفاقی حکومت کی جانب سے بذریعہ صدارتی آرڈیننس اپنے قبضے میں لے کر ان جزائر ’’ڈنگی‘‘ اور ’’بھنڈار‘‘ پر جدید شہر اور صنعتی زون اور سیاحتی مقامات تعمیر کرنے کے حوالے سے جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں، اس پر سندھ بھر میں مختلف سطحوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ معروف کالم نگار رشید میمن نے بروز اتوار 4 اکتوبر 2020ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر مذکورہ بالاعنوان سے اسی حوالے سے خامہ فرسائی کی ہے، جس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’چھوٹے صوبوں کے وسائل پر قبضے کے خلاف احتجاج اور فریاد کا سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، اور پھر ان ایشوز پر سیاست بھی ہوتی رہی ہے۔ کبھی کبھار پارلیمانی کمیٹی، یا پھر کبھی کوئی اور کمیٹی بناکر بات چیت کرنے کا راگ بھی الاپا جاتا ہے۔ جس طرح سے بلوچستان کی شکایات سننے کے لیے بارہا کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، لیکن وہ ہر بار ناکام ثابت ہوئیں، اور ان کا نتیجہ ’’صفر‘‘ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی سب سے بڑی شکایات دھرتی اور وسائل غصب کرنے سے متعلق ہوا کرتی ہیں، اور ان میں سو فیصد حقیقت بھی ہوتی ہے، کیوں کہ دونوں صوبوں میں جو بھی قدرتی وسائل ملتے ہیں اُن پر کبھی بھی ان صوبوں کو مکمل اختیارات نہیں دیے گئے ہیں۔ بلوچستان جو ملک میں سب سے بڑی سوئی گیس فیلڈ رکھتا ہے، اور جہاں پر 1952ء سے گیس کی پیداوار کا سلسلہ جاری و ساری ہے، اس بلوچستان کی 93 فیصد آبادی آج بھی گیس اور 88 فیصد آبادی بجلی سے محروم ہے۔ اس کی تصدیق بلوچستان کے بارے میں کمیٹی کے ممبر سینیٹر میر کبیر شاہی اپنی ایک تقریر میں بھی کرچکے ہیں۔ بعینہٖ صورتِ حال صوبہ سندھ کو بھی درپیش ہے۔ صوبہ سندھ جو گیس پیدا کرتا ہے وہ پنجاب کو دی جاتی ہے، اور پھر سندھ کے عوام گیس کی قلت اور عدم دستیابی کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح سے سندھ کی زمینوں، تیل اور دیگر قدرتی وسائل کے حوالے سے بھی مسلسل ناانصافی ہوتی رہتی ہے جو تاحال جاری ہے۔ اس کی حالیہ اور تازہ مثال سندھ کی ملکیت کے حامل جزائر کو وفاق کے کنٹرول میں دینا ہے۔ اہم حلقوں کا کہنا ہے کہ جزائر کا یہ منصوبہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور اہم وفاقی اربابِ اختیار کے مابین ہونے والے ’’گٹھ جوڑ‘‘ کا نتیجہ ہے۔
جیسا کہ سمندر صرف سندھ اور بلوچستان کے پاس ہی ہے، اس لیے جزائر جو سمندر کے اندر ہوتے ہیں، وہ بھی ظاہری بات ہے کہ انہی دو صوبوں کے پاس ہی ہیں، جن کے اختیارات پر وفاقی حکومت نے برس ہا برس سے کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کے بعد بالآخر کنٹرول، بہ الفاظِ دیگر قبضہ کرلیا ہے۔ یہاں پر اہم اور لائقِ تشویش بات یہ ہے کہ حکومتِ سندھ نے اس معاملے پر کامل سکوت اختیار کررکھا ہے اور بڑی خاموشی کے ساتھ اس نے جزائر کے حقِ ملکیت سے دست برداری اختیار کرلی ہے۔ وہ پیپلزپارٹی جسے سندھ کے عوام نے مسلسل مینڈیٹ دے کر تیسری مرتبہ سندھ میں اقتدار عطا کیا ہے، جو پی پی دورِ پرویزمشرف میں ان جزائر کو فروخت کرنے کے خلاف تحریک چلاتی دکھائی دی وہ اس معاملے پر سخت ردعمل دینے کے بجائے خالی خولی بیانات دینے سے بھی لاتعلق بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح سے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت سندھ کے ان جزائر کو بیچنے کے حامل اس منصوبے میں اِس مرتبہ وفاق کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے، جس پر اہلِ سندھ میں سخت غصہ اور اشتعال پھیل گیا ہے۔ یہاں پر جزائر کے معاملے پر کچھ تفصیلات پیش کی جارہی ہیں، جس سے واضح ہوجائے گا کہ وفاقی حکومت آخر چاہتی کیا ہے؟
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 2 ستمبر کو ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کا نام ’’اتھارٹی فار دی ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ آف آئی لینڈ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت سندھ کے جزائر سمیت بلوچستان کے جزائر کے اختیارات وفاقی حکومت نے خود حاصل کرلیے ہیں۔ آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ اتھارٹی کو ’’انٹرنل اور ٹیریٹوریل واٹرس‘‘ کے جزائر پر کسی بھی قسم کا منصوبہ بنانے، ٹائون پلاننگ کرنے کے اہم اختیارات حاصل ہوں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اس طرح کی اتھارٹی قائم کرنے اور آرڈیننس جاری کرنے کے بعد جزائر پر صوبائی حکومتوں کا کنٹرول اب ختم ہوگیا ہے۔ اب وفاقی اربابِ اختیار اس اتھارٹی کے توسط سے کوئی بھی منصوبہ شروع کرسکیں گے اور ان کی زمینیں لیز پر دے سکیں گے۔ یہ آرڈیننس سندھ کے بھنڈار اور ڈنگی جزائر پر کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کے منصوبے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس میں بتایا (واضح کیا) گیا ہے کہ جزائر پر کوئی بھی منصوبہ شروع کرنے، جزائر کی زمین فروخت کرنے، لیز پر دینے، منصوبوں کی پلاننگ کرنے اور ٹائون پلاننگ کرنے کے سارے اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس طرح سے اتھارٹی کو یہ بھی اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ جزائر کے منصوبوں میں حائل یا آنے والی زمین کو خالی کرا سکے گی، قائم کردہ کسی بھی نوع کی تجاوزات کو مسمار کرا سکے گی۔ اتھارٹی کے معاملات میں مداخلت کرنے یا اتھارٹی آرڈیننس کے خلاف عمل کرنے کے جرم میں 3 سے 7 برس قید کی سزا ہوگی۔ آرڈیننس کے مطابق جزائر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ٹیکس ادا کرنے سے بری الذمہ ہوگی۔ یعنی اس سے صوبائی یا وفاقی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ اتھارٹی کے معاملات چلانے کے لیے بورڈ قائم کیا جائے گا، جب کہ اتھارٹی کا فنڈ بھی قائم کیا جائے گا جس سے اتھارٹی کو ملنے والی آمدنی، قرض، گرانٹس کے پیسوں سمیت دیگر آمدنی وغیرہ جمع کی جائے گی۔ اس آرڈیننس کے جائزے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جزائر کا یہ منصوبہ سندھ کے لیے ایک نیا ون یونٹ ثابت ہوگا۔ اس آرڈیننس کے ذریعے وفاق صوبہ سندھ کی ملکیت کے جزائر پر براہِ راست قابض ہوچکا ہے اور اب وفاقی حکومت کی مرضی ہے کہ جو بھی منصوبے شروع کرے، جس بھی بیرونی کمپنی کو یہ جزائر حوالے کردے، نئے شہر تعمیر کرے، مقامی افراد کو ان علاقوں سے منتقل کروائے یا پھر کوئی بھی نیا قدم اٹھائے۔
آرڈیننس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ جزائر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو مکمل طور پر اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ منصوبوں میں آنے والی کوئی بھی تجاوزات گرا سکتی ہے، اور اس آپریشن میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرے گا، سندھ پولیس بھی اتھارٹی ہذا کی مدد کرنے کی پابند ہوگی۔ اتھارٹی کے منصوبوں یا معاملات میں کہیں بھی صوبوں کی ملکیت یا اختیارات کی کوئی بھی بات نہیں کی گئی ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس اتھارٹی کے ذریعے صوبائی حکومت کو مکمل طور پر بائی پاس کرتے ہوئے جزائر براہِ راست وفاقی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیے ہیں اور اتھارٹی صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کرسکے گی۔ حیرت ہوتی ہے کہ حکومت ِسندھ جو ہمیشہ یہ کہتی رہی کہ سمندر میں موجود جزائر پورٹ قاسم اتھارٹی کے نہیں، بلکہ حکومتِ سندھ کی ملکیت ہیں۔ یہ حکومت ِسندھ اب اس بارے میں کسی نوع کا کوئی بیان جاری کرنے سے بھی قاصر، لاچار اور بے بس دکھائی دیتی ہے! حکومتِ سندھ کے اہم حلقوں سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ حکومت نے تحریری طور پر جزائر منصوبے کی حمایت کی ہے اور یہ آرڈیننس بھی حکومتِ سندھ اور وفاقی حکومت کے مابین اتفاقِ رائے سے جاری ہوا ہے۔ یہ معاملات پیپلزپارٹی کی قیادت اور وفاق کی اہم شخصیات کے درمیان طے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جزائر چھن جانے کے باوجود پیپلزپارٹی کے کسی رہنما، نہ وزیراعلیٰ، نہ کسی وزیر یا مشیر ہی نے اس بارے میں کوئی بات کی ہے۔ سب خاموش اور چپ سادھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری عمل داروں یعنی بیوروکریٹس اور افسران وغیرہ کو بھی ان معاملات کے بارے میں یا وفاق سے کیے گئے تحریری امور کی تفصیلات شیئر نہ کرنے کی سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صوبائی حکومت کی ملکیت کے حامل وسائل کی آمدنی براہِ راست وفاق ازخود ہی لے لیا کرے گا اور حکومتِ سندھ کو کچھ بھی نہیں مل پائے گا۔ آرڈیننس میں اس کا ذکر اس طرح سے کیا گیا ہے کہ جزائر منصوبے کی سرمایہ کاری اور آمدنی وفاقی حکومت کو ملے گی۔ اس اتھارٹی پر صوبائی یا وفاقی ٹیکس بھی لاگو نہیں ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومتِ سندھ اس اتھارٹی سے کوئی بھی ٹیکس وصول نہیں کر پائے گی۔ ہر طرح سے صوبہ سندھ کو اس منصوبے سے بے اختیار کردیا گیا ہے، اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا یا غلط نہیں ہوگا کہ اس جزائر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے آرڈیننس کے ذریعے وفاقی حکومت نے سندھ کے وسائل اور اختیارات پر دراصل ایک طرح سے ڈاکا ڈالا ہے، کیوں کہ آئین میں بھی صوبائی وسائل کے حقوق کو تحفظ ملا ہوا ہے۔ آئین کے آرٹیکل (2) 172 میں صراحت کی گئی ہے کہ ’’ٹیریٹوریل واٹرس‘‘ یعنی سمندر میں وفاقی حدود سے پہلے واقع سمندری علاقوں کے سارے وسائل پرصوبوں کو حق حاصل ہوگا۔ اور سندھ کے جزائر ان صوبائی سمندری حدود کے اندر ہی آتے ہیں۔ لیکن صدر مملکت کے جاری کردہ آرڈیننس میں صوبائی حدود کو بھی بلڈوز کرکے ان کے اختیارات بھی جزائر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دیے گئے ہیں۔ اس لیے اس صدارتی آرڈیننس کو غیر آئینی آرڈیننس کہنا غلط نہ ہوگا۔
جس طرح سے اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ چھوٹے صوبوں سے ہر معاملے میں ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں، خواہ وہ معاملہ کسی بھی نوعیت کا ہو۔ سندھ میں زمینوں کے معاملے پر بھی بڑی زیادتی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس میں پیپلزپارٹی کی حکومتِ سندھ کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ سندھ کی بیش قیمت زمینیں فروخت کی جارہی ہیں اور سندھ میں میگا سٹی قائم کیے جارہے ہیں، پہلے یہ سلسلہ محض کراچی کی حد تک ہی تھا لیکن اب یہ کراچی سے باہر نکل چکا ہے۔ قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ نئے شہروں کی تعمیر کی اجازت دینے سے پیشتر سندھ کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے اہلِ سندھ جو پہلے ہی سے دیگر صوبوں کے افراد اور غیر قانونی مقیم بیرونی افراد کی وجہ سے خوف میں مبتلا تھے، نئے بڑے شہروں پر مبنی منصوبوں سے حد درجہ تشویش اور پریشانی سے دوچار ہوچکے ہیں۔ ورنہ ہونا تویہ چاہیے کہ حکومتِ سندھ نئے شہروں کی اجازت دینے سے قبل وہاں پر جائداد، ملکیت لینے سے متعلق ایک مکمل حکمت عملی اور پالیسی تیار کرتی اور سندھ کے ڈومیسائل کا حامل ہونے کی شرط رکھتی، تا کہ اہلِ سندھ کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا، اور سندھ کو ایک نیا ’’فلسطین‘‘ بنانے سے روکا جا سکتا، لیکن معلوم نہیں کیوں سندھ کے حکمرانوں کو اس نوع کی کوئی پالیسی تشکیل دینے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ سندھ کے وسائل اور زمینیں یوں فروخت کی جارہی ہیں گویا ان کا کوئی مالک ہی نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کراچی تا حیدرآباد موٹروے کے دونوں طرف قائم کردہ اور جاری شدہ نئی اسکیمیں ہیں۔ پی پی کی قیادت اور سندھ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ سندھ کے عوام نے انہیں حکومت کرنے کا مینڈیٹ سندھ کے اختیارات، وسائل، پانی اور جزائر کا تحفظ کرنے کے لیے دیا ہے، نہ کہ انہیں فروخت کرنے کے لیے۔ حکومتِ سندھ جو اس وقت جزائر کے معاملے پر مکمل طور پر سودے بازی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، اس سے کسی مزاحمت یا سخت مخالفت کرنے کی زیادہ امید نظر نہیں آتی۔ اس موقع پر عوام اور سیاسی جماعتیں میدان میں آئی ہیں۔ کل کراچی میں فشرفوک فورم کی میزبانی میں منعقدہ بیٹھک (پروگرام) میں سندھ کے جزائر پر قبضے کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے، اور ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی واضح امکان ہے کہ عوام کا اس معاملے پر سخت ردعمل سامنے آئے گا اور حکمرانوں کو بہرصورت اس منصوبے سے دست بردار ہونا پڑے گا۔‘‘
نوٹ: اس کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔