راجگل وادی تیراہ متاثرین کی بحالی و باعزت واپسی

کوکی خیل کا98 روزہ دھرنے کے خاتمے کا اعلان

راجگل وادی تیراہ قبائلی ضلع خیبر کے متاثرین کوکی خیل قوم، عسکری حکام اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد 98 دن سے جاری دھرنا و احتجاجی کیمپ کے خاتمے کا اعلان کردیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز جمرود جرگہ ہال میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں جمرود سیاسی اتحاد و قومی مشران کے علاوہ ڈپٹی کمشنر خیبر محمود اسلم وزیر، اسسٹنٹ کمشنر جمرود جواد علی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے راہنما اور جمرود سیاسی اتحاد کے صدر زرغون شاہ آفریدی اور دیگر مقررین نے کہا کہ تیراہ راجگل کوکی خیل متاثرین کی بحالی و باعزت واپسی کے لیے سیاسی و قومی اتحاد، عسکری حکام، ضلعی انتظامیہ اور دھرنا شرکا کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ تیراہ راجگل کوکی خیل کی باعزت واپسی کے لیے علاقے کو مائنز سے صاف کرنے کے علاوہ نقصانات کے ازالے کے لیے سی ایل سی پی سروے کا باقاعدہ آغاز مشران و سیاسی اتحاد کے رہنماؤں کی موجودگی میں کرایا جائے گا۔ احتجاجی کیمپ کے خاتمے پر سیاسی اتحاد کے جنرل سیکرٹری مولانا غفران اللہ خیبری نے کہاکہ اگر عسکری حکام یا ضلعی انتظامیہ نے ہمارے مطالبات کو عملی جامہ نہیں پہنایا تو پھر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ڈی سی خیبر محمود اسلم وزیر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں علاقے سے مائنز کے خاتمے اور نقصانات کے ازالے کے لیے سروے شروع کیا گیا ہے، جس کے بعد مرحلہ وار واپسی کی جائے گی، جبکہ وزیرستان کی طرز پر امدادی پیکیج بھی دیا جائے گا۔ قومی مشر ملک فیض اللہ جان کوکی خیل اور سیاسی اتحاد کے صدر زرغون شاہ آفریدی نے کہا کہ دھرنے کے خاتمے کا اعلان اس لیے خوش آئند ہے کہ سروے و مائنز کی صفائی مہم شروع کرنے کے بعد مرحلہ وار واپسی کی جائے گی اور یہ سیاسی اتحاد مشران اور متاثرین کی 98 دن کی جدوجہد اور دھرنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دھرنا شرکا کے مطالبات اور وعدے پورے نہ ہوئے تو دوبارہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ سیاسی و قومی اتحاد کا مطالبہ تھا کہ تیراہ راجگل کوکی خیل متاثرین کی بحالی و باعزت واپسی کا اعلان کیا جائے،کوکی خیل قبیلے کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور مالاکنڈ اور وزیرستان کی طرز پر امدادی پیکیج دیا جائے۔
دھرنے کے خاتمے سے چند دن قبل سیاسی و قومی اتحاد کے زیرِ اہتمام تاریخی بابِ خیبر کے سائے میں پاک افغان شاہراہ پر ایک بڑا جلسہ عام منعقد کیا گیا تھا جس میں کثیر تعداد میں عوام و متاثرین نے شرکت کی تھی۔ جلسہ عام میں قومی و سیاسی مشران کے علاوہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد خان، جے یو آئی ف کے صوبائی امیر مولانا عطا الرحمان، معروف قانون دان اور اے این پی کے راہنما لطیف لالہ، ایم پی اے الحاج بلاول آفریدی، ایم پی اے نثار مومند، ملک دریا خان آفریدی، اے این پی کے عمران آفریدی، شاہ حسن شنواری، پی ٹی آئی جی کی عائشہ گلالئی، نیشنل پارٹی کے سردار خان، مسلم لیگ (ن) کے سید ولی شاہ آفریدی، جمرود سیاسی اتحاد کے صدر زرغون شاہ آفریدی، مولانا غفران اللہ خیبری، پاکستان پیپلز پارٹی کے حضرت ولی آفریدی، قومی مشران ملک فیض اللہ جان کوکی خیل، حاجی برکت خان، زوان کوکی خیل اتحاد کے صدر محمد صدیق آفریدی نے شرکت کی تھی۔ مقررین کاکہنا تھاکہ دس سال پہلے تیراہ راجگل کوکی خیل کے علاقے سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی باعزت واپسی کا اعلان کرکے بحالی کے لیے بڑے پیکیج کا اعلان کیا جائے۔ ان کاکہنا تھا کہ دس سال پہلے تیراہ راجگل کوکی خیل، عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرکے جمرود و پشاور میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے تھے، تاہم حکومت نے ان کے لیے ابھی تک کسی پیکیج کا اعلان کیا اور نہ ہی ان کی باعزت واپسی کے لیے کوئی اقدامات اٹھائے، جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاجی کیمپ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک متاثرینِ راجگل کی باعزت طریقے سے واپسی کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی۔ متاثرین گزشتہ دس سال سے بے سرو سامان اپنے ملک میں مہاجروں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین کے نام پر مختلف قسم کے پیکیج ہڑپ کرنے والوں کا احتساب کیا جائے، تیراہ راجگل متاثرین کا اب تک ہرقسم کی سہولت اور پیکیج سے محروم ہونا حکومت کی دوغلی پالیسی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت روزِ اوّل سے قبائلیوں کے ساتھ مخلص نہیں، ملک کی سالمیت کی خاطر اپنی جان اور مال قربان کرنے والوں کا معاشی قتل عام بند کیا جائے۔ احتجاجی جلسۂ عام میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ تیراہ راجگل کوکی خیل متاثرین کی بحالی و باعزت واپسی کا جلد سے جلد اعلان کیا جائے ورنہ تمام اقوام لاکھوں افراد کے ساتھ مل کر واپسی کا اعلان کریں گی۔
98 دن تک جاری رہنے والے اس دھرنے میں چند دن قبل سینیٹ کے چار ارکان جن میں سیفران قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر الحاج تاج محمد آفریدی، سینیٹر اورنگزیب اورکزئی، پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے راہنما سینیٹر انور لعل دین، مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سینیٹر راجا محمود الحسن نے بھی شرکت کی تھی، اور دھرنا شرکا کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔
یاد رہے کہ ضلع خیبر واحد قبائلی ضلع ہے جہاں 2014ء کے بعد سے 2017ء تک چار بڑے فوجی آپریشن کیے گئے تھے جن کے نتیجے میں وادی تیراہ سے کوکی خیل قبیلے کے ہزاروں خاندانوں نے نقل مکانی کی تھی، اور وہ جمرود اور پشاور میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ شورش کی وجہ سے چونکہ کوکی خیل متاثرین کے گھر، کھیت اور جنگلات تباہ ہوچکے ہیں اس لیے ان کا شروع دن سے یہ مطالبہ تھا کہ جو علاقے کلیئر قرار دئیے گئے ہیں ان علاقوں میں باعزت واپسی کا عمل بھی شروع کیا جانا چاہیے۔ لیکن ان کے اس مطالبے کی کسی بھی سطح پر شنوائی نہیں ہورہی تھی، حتیٰ کہ اس مطالبے کو شروع میں مقامی ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی جانب سے بھی کوئی اہمیت نہیں مل رہی تھی، جس پر مجبور ہوکر جمرود کے چند نوجوانوں نے جماعت اسلامی کے ایک مقامی راہنما زرغون شاہ آفریدی کی قیادت میں اپنی مدد آپ کے تحت پہلے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا، جس میں تمام جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی گئی، اور بعد میں تین ماہ پہلے تاریخی باب خیبر کے ساتھ ملحقہ سبزہ زار میں دھرنا کیمپ لگاکر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا شروع کردیا۔ حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ98دن تک جاری رہنے والے اس دھرنے کا گزشتہ تین ماہ کے دوران کسی بھی سرکاری اہلکار نے نہ تو کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی متعلقہ اداروں نے احتجاج کرنے والوں سے کوئی رابطہ کیا۔ البتہ جب متعلقہ اداروں کوکامل یقین ہوگیا کہ متاثرین اپنے مطالبات سے نہ تو دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی احتجاج کا ان کا زورماند پڑتا نظر آرہا ہے تو بہ امر مجبوری پہلے مقامی منتخب نمائندے حرکت میں آئے، اور بعدازاں حکومتی اداروں کو بھی چاروناچار مذاکرات کے لیے احتجاج کرنے والوں سے رابطہ کرنا پڑا۔
واضح رہے کہ قبائلی اضلاع کی تاریخ میں طویل ترین 98 دنوں کا دھرنا دینے والے ان مظاہرین کا تعلق آفریدی قوم کے کوکی خیل قبیلے سے ہے، اور یہ لوگ وادی تیراہ میں واقع اپنے علاقے راجگل واپس جانا چاہتے ہیں۔ کوکی خیل قبیلہ جمرود کے ساتھ ساتھ وادی تیراہ میں مہربان کلے سے لے کر کرم ضلع تک کے علاقے میں آباد ہے۔ کوکی خیل قوم کا مطالبہ ہے کہ جب حکومتی اعلان کے مطابق تمام قبائلی علاقے کلیئر ہوچکے ہیں اور باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک تمام قبائلی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں جا چکی ہیں تو ان کو کیوں ان کے آبائی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے؟ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر آٹھ سال کے بعد بھی حکومت انھیں واپس اپنے علاقوں میں نہیں بھیج سکتی تو پھر انھیں رجسٹرڈ کرکے آئی ڈی پیز کو ملنے والی مراعات ہی دے دی جائیں۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ راجگل کے نواحی علاقوں کے قبائل ان کی زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں اور ان کے اخروٹ کے درخت کاٹے جارہے ہیں، وہ اس مسئلے کا حل بھی چاہتے ہیں۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ ضلع خیبر اور بالخصوص کوکی خیل قبیلے کو پاک افغان تعلقات اور روابط کے تناظر میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہے، اس لیے اس قبیلے کو بحیثیتِ مجموعی نظرانداز کرنا، یا اسے کم اہمیت دینا کسی بھی لحاظ سے قرین مصلحت نہیں ہوگا۔ یہ قبیلہ جہاں اپنے اتحاد، قومی وحدت اور غیر متزلزل قیادت کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں شورش کے عروج کے دور میں بھی دہشت گردی کے اثرات سے من حیث القوم محفوظ رہا ہے، وہیں پاک افغان طورخم شاہراہ کی شہ رگ جمرود اور اس کے گرد ونواح سے تعلق، نیز وادی تیراہ میں بھی افغانستان کے ساتھ ملحقہ انتہائی اسٹرے ٹیجک اہمیت کے حامل علاقوں سے تعلق کے باعث بھی اس قبیلے کا کسی بھی سطح پر نظرانداز کیا جانا کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ لہٰذا توقع ہے کہ حکومتی ادارے کوکی خیل قبائل کے صبر کا مزید امتحان نہیں لیں گے اور طے شدہ مذاکرات کی روشنی میں علاقے سے مائنز کی صفائی، متاثرہ خاندانوں کو آئی ڈی پیز کا درجہ اور مراعات دینے کے ساتھ ساتھ علاقے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا کر متاثرہ خاندانوں کو جلد از جلد اپنے علاقوں میں آمد اور آبادکاری کی اجازت دی جائے گی۔