آئندہ بھی پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جائے گا
ڈاکٹر شاہد حسن کا خصوصی تجزیہ
ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اقتصادی صورت حال پر منفرد اور آسان زبان میں تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ آپ کی نظر صرف معاشی سرگرمیوں پر نہیں ہوتی، بلکہ آپ کے تجزیے میں ملک کے سماجی، سیاسی اور عالمی حالات کا گہرا عکس ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے ان کا بینکنگ کا تیس سالہ تجربہ ہے۔ وہ پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے مالیاتی اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ’’اسلامک بینکنگ‘‘ جیسی قابل قدر کتاب کی تصنیف کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں تین سو سے زائد مقالے و مضامین بھی تحریر کرچکے ہیں۔ فرائیڈے اسپیشل ان سے وقتاً فوقتاً ملکی اور بین الاقوامی معاشی صورت حال پر اپنے قارئین کے لیے تجزیہ لیتا رہتا ہے۔
گزشتہ شمارے میں ہم نے ان سے آئی سی جے کی رپورٹ اور دوائوں کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق بات کی تھی۔ کیونکہ آج پاکستان معاشی لحاظ سے نہایت مشکل دور سے گزر رہا ہے، اس لیے معیشت کی صورتِ حال کو مزید سمجھنے کے لیے ہم نے ان سے کچھ اور سوالات کیے ہیں جو نذرقارئین ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ پاکستان میں معاشی حالات سے ہر شخص فکرمند اور پریشان ہے، آپ پاکستانی معیشت کی موجودہ صورت حال کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس وقت کیا صورتِ حال ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اس بات کی تکرار کی تھی کہ پاکستان کی معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے اور دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ یہ تمام دعوے غلط اور حقائق کے خلاف تھے۔ اس کے لیے بنیاد بنایا گیا تھا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کو، اور ریزرو (محفوظ ذخائر) کو۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 6.2 فیصد انہیں ورثے میں ملا تھا جس کو یہ تاریخی بتاتے ہیں، لیکن اس سے قبل پرویزمشرف حکومت کے خاتمے پر یہ 8.2 دو فیصد تھا جو کہ تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔ اسی طرح ریزرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بالکل ختم ہوچکے تھے، تو جس دن عمران خان نے حلف اٹھایا تھا اُس دن اسٹیٹ بینک کے مطابق ریزرو 10.2ارب ڈالر تھے۔ نومبر 2019ء میں یہ کم ہوکر 9 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اور 12 جون 2020ء کو یہ 10.1ارب ڈالر تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج بھی اور کورونا سے پہلے فروری 2020ء میں بھی بیشتر معاشی اشاریے اس سے زیادہ خراب تھے، جو ان کو مالی سال 2018ء کے اختتام پر ورثے میں ملے تھے۔ مثلاً شرح نمو مالی سال 2018ء میں 5.5 فیصد تھی، مالی سال 2019ء میں یہ 1.9فیصد ہوگئی، اور 2020ء میں یہ صفر اعشایہ چار فیصد منفی ہوگئی، اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ مالی سال 2021ء میں یہ ایک فیصد رہ جائے گی۔ مجموعی بیرونی سرمایہ کاری جو مالی سال 2018ء میں 5ارب ڈالر تھی، تحریک انصاف کے دو سالہ دورِ حکومت میں یہ مجموعی طور پر صرف 2 ارب ڈالر رہ گئی۔ دو سال میں روپے کی قدر میں 44 روپے فی ڈالر کمی ہوئی، جبکہ اس سے قبل دس برسوں میں یہ کمی صرف ساڑھے پانچ روپے فی ڈالر سالانہ تھی۔ تحریک انصاف کے دو سالہ دورِ حکومت میں بیرونی قرضوں میں اضافہ ساڑھے آٹھ ارب ڈالر سالانہ رہا، یعنی ان برسوں میں ساڑھے سترہ ارب ڈالر کا قرضہ بڑھ گیا، جبکہ اس سے پہلے کے دس برسوں میں بیرونی قرضوں میں اضافہ پانچ ارب ڈالر سالانہ تھا۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ جاری حسابات کا خسارہ2018ء میں 20 ارب ڈالر تھا جو 2020ء میں کم ہوکر 3 ارب ڈالر رہ گیا۔ حکومت اس کو بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ یہ تو بڑی کمی ہے، پھر اس کو کامیابی کیوں نہ سمجھا جائے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: پہلی بات تو یہ کہ جو کمی ہوئی ہے وہ برآمدات میں اضافہ کرکے نہیں ہوئی، بلکہ 2018ء کے مقابلے میں ہماری برآمدات کم ہوئی ہیں۔ اصل میں دو سال میں 17ارب ڈالر کی درآمدات کم کی گئیں۔ اتنی زبردست کمی کی ضرورت نہیں تھی، نہ ہی اتنا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کی ضرورت تھی ۔ یہ کیوں کیا گیا یہ بہت بڑا راز ہے۔کیونکہ اس سے معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص اپنی دکان بند کردے اور کہے کہ میرے بجلی اور ٹیلی فون کے اخراجات کم ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں معیشت بند ہوگئی۔ یہ کیوں کی؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، اور جو پالیسیاں اس حکومت نے اپنائیں اس کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے اس کی نفی کرتا ہے، اور یہ کہ آئندہ بھی پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جائے گا۔ برآمدات میں اتنی کمی پر مجھے بھی تشویش ہے۔ جون 2020ء کی بجٹ تقریر میں یہ کہا گیا تھاکہ 7 ارب ڈالر کی درآمدات کی جائے گی، مگر انہوں نے کمی کی 10.7ارب ڈالر۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ اگر 3 ارب ڈالر کے بجائے 2020ء میں7 ارب ڈالر بھی ہوجاتا تو کوئی پریشانی کی بات نہ تھی بشرطیکہ معیشت کی شرح نمو برقرار رہتی، لوگوں کو روزگار ملتا اور افراطِ زر میں کمی آتی۔ یہ کوئی جاری حسابات کا بڑا خسارہ نہیں ہے، کیونکہ 2017ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ12.6ارب ڈالر تھا جبکہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے کسی بڑی پریشانی کا اظہار اس حجم پر بھی نہیں کیا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: ہماری معاشی پالیسیاں دانش مندانہ کیوں نہیں بنتیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: پاکستان میں معاشی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں طاقتور طبقات کے ناجائز مفاد میں… اور اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی اشرافیہ اور طاقتور طبقے جن میں شوگر مافیا، صنعت کار، تاجر، پراپرٹی مافیا، اسٹاک ایکسچینج مافیا اور بینکوں کا مافیا شامل ہے اور بیرونی اشرافیہ جن میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور استعماری طاقتیں شامل ہیں، میں ایک گٹھ جوڑ ہے۔ بیشتر پالیسیاں اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اور ان ہی طاقتور طبقات کے مفادات میں بنائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں1993ء سے اب تک تقریباً 14ٹیکس ایمنسٹی ہوئی ہیں، دنیا بھر میں شاید ہی ایسا ہوا ہو۔
فرائیڈے اسپیشل: معیشت کیوں تباہ ہوئی؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:نائن الیون کے بعد سے ہم مختصراً بات کرتے ہیں۔ پرویزمشرف نے دہشت گردی کی جنگ لڑی اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکہ سے ڈالرز کے حصول کے لیے، اور شوکت عزیز نے سٹے بازی کی معیشت بنائی جس کا ذکر میری کتاب ’’دہشت گرد سیاسی معیشت‘‘ میں ہے، کہ یہ ایک بلبلہ معیشت ہے اور این آر او کا دینا امریکہ کی ایک سازش تھی، گٹھ جوڑ تھا ،اور خود امر یکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ایک رات میں کوئی ایک درجن ٹیلی فون کیے پاکستان، تاکہ این آر او ہوجائے۔ تو یہ تو امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے تھا، پرویزمشرف کے اقتدار کے لیے تھا۔ اس سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی اور خود پرویزمشرف نے تسلیم کیا کہ ان کی غلطی تھی۔ اب امریکی این آر او سے مستفید ہوکر پیپلز پارٹی کی جو حکومت اقتدار میں آئی اس نے 26 ستمبر 2008ء کو فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ واشنگٹن میں ایک معاہدہ کیا، جس پر اُس وقت میں نے کہا تھا کہ یہ عظیم دھوکہ ہے پاکستان کے ساتھ، جس میں متعدد غلط بیانیاں کی گئیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے تحت ایک سودا کرکے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا۔ ان شراط میں سیاسی شرائط بھی پاکستان نے منظور کیں، جس میں شوکت ترین اور شاہ محمود قریشی کا بڑا اہم کردار تھا جو آج بھی وزیر خارجہ ہیں۔ اُس وقت تمام جماعتوں مسلم لیگ اور تحریک انصاف وغیرہ نے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی، حالانکہ میں اس بارے میں مستقل لکھتا رہا کہ یہ دھوکہ ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب اقتدار میں آئی تو انہوں نے 19 اگست 2013ء کو ایک خط لکھا آئی ایم ایف کو، جس میں یہ کہا گیا کہ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے جائیں گے اور ملکی اداروں کی نجکاری کی جائے گی، اور یہ کہا کہ اس فیصلے کو تمام جماعتیں جن میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بھی شامل تھیں، کی صوبائی قیادت اور مشترکہ مفادات کونسل کی تائید حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا اجلاس ہوا اور نہ کوئی ایسی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ یہ جھوٹ تھا۔ میں نے اُس وقت بھی متعدد بار لکھا کہ یہ آئی ایم ایف سے غلط بیانی کی گئی ہے، جس پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بھی خاموش رہیں، کیونکہ ان کے اپنے اپنے مفادات تھے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ آئی ایم ایف بھی اس سازش میں شریک تھا جس کا تذکرہ میں نے عالمی میڈیا پر بھی کیا تھا کہ 19اگست 2013ء کا جو خط ہے وہ مکمل دروغ گوئی پر مبنی ہے۔ اب مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی۔ ان کو یہ پتا تھا کہ آئی ایم ایف کے قرضے سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ معیشت میں بنیادی اصلاحات کی جائیں۔ لیکن انہوں نے اپنے منشور سے انحراف کرتے ہوئے یہ اصلاحات نہیں کیں بلکہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں غیر ضروری تاخیر کی، اور اس سے پہلا قرضہ لینے کی درخواست دی نو ماہ بعد، تو اپنی مذاکراتی ٹیم ہی تبدیل کردی، اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی بدل دیا، جو آئی ایم ایف سے لے کر آئے۔ اس مذاکراتی ٹیم نے جو شرائط منظور کیں وہ تباہ کن تھیں اور ناقابلِ عمل تھیں، جس کی تحقیقات کی جانی چاہئیں کہ یہ شرائط کیوں منظور کی گئی تھیں اور کابینہ نے کیوں ان کی منظوری دی؟ اب آپ دیکھیں کہ فروری 2020ء سے آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہے کیونکہ ہم ان شرائط پر عمل نہیں کرسکے۔ یہ تو ایک سنگین صورت حال ہے، اس گٹھ جوڑ کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ یہ ہوا کیوں؟
فرائیڈے اسپیشل:۔ بیرونی اشرافیہ آئی ایم ایف کے ساتھ کون ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: بڑی واضح بات ہے کہ اکتوبر 2016ء میں پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ رہا تھا اور میں اس پر پریشانی کا اظہار کررہا تھا تو آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کی تعریف کی ان تمام خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے۔ اس سے زیادہ پریشانی کی جو بات ہے اور جس کی تحقیقات ہونی چاہئیں وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نومبر 2016ء میں جو رپورٹ دی اُس میں کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسٹ پر کسی پریشانی کا اظہار نہیں کیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ہمارا مالی سال 2017ء کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا صفر اعشایہ پانچ فیصد سے زیادہ رہ سکتا ہے، حالانکہ مالی سال 2016ء میں یہ ایک اعشایہ دو فیصد تھا، اور یہ چار فیصد آخر میں رہا تو یہ جان بوجھ کر اتنا کم کیوں ظاہر کیا گیا؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔جاری حسابات کا خسارہ مالی سال 2016ء کے بعد 2017ء میں بھی ہوتا ہے، لیکن اسٹیٹ بینک نے کسی خدشے کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے 20 اکتوبر 2016ء کو لکھا تھا کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ بھی زبردست مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد مئی 2017ء میں بھی لکھا تھا کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ زبردست مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے، اور جولائی 2017ء میں لکھا تھا کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کی درآمدات بڑھنے سے سرمایہ باہر جائے گا جس سے پاکستان کا بیرونی شعبہ دبائو کا شکار ہوگا، مگر اسٹیٹ بینک اور حکومتِ پاکستان نے اس پر کسی پریشانی کا اظہار نہیں کیا اور تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بھی اس پر خاموش رہیں، حالانکہ وہ دونوں صوبوں میں حکومت میں تھیں۔
ایک اور بات جو ناقابلِ فہم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بھی سنجیدہ تحقیقات ہونی چاہئیں وہ یہ ہے کہ 2018ء میں تحریک انصاف کے دور میں ایک ڈالر پر 24روپے کی کمی ہوئی، لیکن 2016-17ء میں اسٹیٹ بینک نے پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی زمینی حقائق کے مطابق ہے اور اس سے بیرونی شعبے کا مسئلہ حل ہوجائے گا، یعنی کرنٹ اکائونٹ خسارہ وغیرہ کا، جو کہ بالکل ناقابلِ فہم بات تھی، کیونکہ روپے کی قدر میں معمولی کمی سے بیرونی شعبے کا مسئلہ، جاری حسابات کا خسارہ وغیرہ حل ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ اسٹیٹ بینک کو پتا ہے۔ مگر ایک سے زیادہ مرتبہ انہوں نے لکھا کہ اس کمی سے بیرونی شعبے کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ کمی زمینی حقائق کے مطابق ہے، جو کہ حقائق کے خلاف تھی کیونکہ ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ رہا تھا۔ کیسے؟ یہ خسارہ 2016ء میں 4.9ارب ڈالرتشا۔ 2017ء میں 12.6ارب ڈالر ہوگیا اور 2018ء میں یہ 20ارب ڈالرہوگیا۔ تو اسٹیٹ بینک کی اس غلط رپورٹنگ کہ ردّ و بدل سے مسئلہ حل ہوجائے گا اور یہ کہ روپے کی قدر میں کمی زمینی حقائق کے مطابق ہے، غیر حقیقت پسندانہ اور خطرے کو کم ظاہر کرنے والی بات تھی جو کہ بالکل ناقابل فہم ہے کہ ملک کا ایک ایسا ادارہ جو ملک کا مرکزی بینک ہے وہ ایسی بات کرے۔ اُس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو پڑے گا اِلاّ یہ کہ اسٹرکچرل اصلاحات کی جائیں۔ لیکن اسٹیٹ بینک بضد تھا۔ میں نے تو دسمبر 2016ء میں یہ بھی کہا تھا میں کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر زبردست دبائو پڑے گا۔ لیکن اس سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی اپنانے کے بجائے حکمرانوں نے شتر مرغ کا انداز اپنایا ہوا ہے، اور یہ کہ ہمارا اسٹیٹ بینک کیا کررہا ہے، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ہمیں جان بوجھ کر اس صورت حال میں داخل کیا گیاہے۔ اس میں آپ یہ دیکھیے کہ معاملات سیاسی شروع ہوجاتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔سیاسی معاملات کیا ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: پاکستان کی معیشت جب مشکلات میں آچکی تھی اور حکومت اور اسٹیٹ بینک کسی پریشانی کا اظہار نہیں کررہے تھے اور جولائی 2017ء میں نوازشریف بھی برطرف ہوچکے تھے، امریکی صدر ٹرمپ اس موقع کے انتظار میں تھے اور انہوں نے اگست 2017ء اور یکم جنوری 2018ء کو جو اہم پالیسی بیانات دیئے ان میں کیا کہا تھا، میں مختصراً بتا دوں،پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ جنت فراہم کرتا ہے جو خطے کے ملکوں کے لیے خطرہ ہے (بھارت کی طرف اشارہ تھا)۔ افغانستان سمیت خطے میں بھارت کو زیادہ اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان کو جو تحفظات ہیں بھارت کو انہیں نظرانداز کردینا چاہیے۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ پاکستان نے جو تعلقات ہم سے رکھے ہیں وہ جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی پر مبنی ہیں۔ اور یہ دھمکی دی تھی، میں ان کے الفاظ بتارہا ہوں کہ ’’پاکستان نے اگر اپنی پالیسیاں درست نہ کیں تو امریکی قہر و غضب کا اُسے سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی دھمکی کے بعد بھی ہم نے امریکہ پر اپنا انحصار کم کرنے اور اپنے معاملات کی درستی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟ حکومت نے کیا کیا؟ سیاست دانوں نے کیا کیا؟ دانشوروں نے کوئی مشورہ دیا؟ اور ہمارے ادارے کیا کررہے تھے؟ یہ تو ایک بڑی اہم بات ہے۔ اس پس منظر میں 2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اقدامات اٹھانے کے بجائے جاری حسابات کے خسارے کو انتہائی تیز رفتاری سے کم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ انتخابات سے چند ہفتے پہلے جاری کردہ اپنی دس نکاتی حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے عمران خان کی کابینہ تیار نہیں تھی کیونکہ ان اقدامات سے طاقتور اشرافیہ کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی تھی۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اس تیز رفتاری سے کمی کی کہ اس کے منفی اثرات زیادہ ہوئے، کیونکہ اگر شرح سود میں کمی کے ساتھ بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں تو معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان کروڑوں کھاتے داروں کو پہنچا جو کہ نفع اور نقصان میں شرکت کی بنیاد پر تھے۔ فروری 2020ء میں اگر کسی کے ایک لاکھ روپے بینک میں بچت کھاتوں میں پڑے تھے تو اس کو گیارہ ہزار پانچ سو روپے منافع ملتا تھا، جو اگست میں کم ہوکر ساڑھے پانچ ہزار روپے رہ گیا۔ یہ جو کچھ اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے تحت ہوا یہ بینکنگ کمپنی آرڈیننس 26 اے اور 20اے کے خلاف ہے۔ اسٹیٹ بینک کو یہ اختیار ہی نہیں تھا، اور یہ غیر قانونی عمل تھا جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے تھا کہ ایسا آخر کیوں کیا گیا؟ کورونا کے باعث جہاں ایک طرف طاقتور طبقوں کوکئی سو ارب کے پیکیج دیئے جارہے تھے، وہیں دوسری طرف عوام کو کچلا گیا۔ یہ ایک سنگین صورت حال تھی جس کا معیشت کو بہت زبردست نقصان ہوا۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں ہم اپنے آپ کو یہ کہنے کے لیے مجبور پاتے ہیں کہ اگر 2015-16ء میں حکومت اور اسٹیٹ بینک جاری حسابات کے خسارے کو بڑھنے اور معیشت کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کو آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے مطابق دانستہ نظرانداز نہ کرتے، اور حکومت اور اسٹیٹ بینک معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری حکمت عملی طے کرتے جو تحریک انصاف کے منشور کے مطابق ہوتی تو 2018ء کا بحران پیدا ہی نہ ہوتا۔
بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے نئے درآمد شدہ ماہرین نے جو حکمت عملی اپنائی اُس کے نتیجے میں موجودہ حکومت کے اقتدار کے خاتمے تک معیشت میں پائیدار بہتری نہیں آسکے گی، عوام کی تکالیف برقرار رہیں گی اور سماجی اشاریے بھی خراب رہیں گے۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام قرضوں کا آخری پروگرام نہیں ہوگا اور پاکستان کوآئندہ بھی آئی ایم ایف کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا پڑے گا۔ یہ بھی یقینی ہے کہ 2075ء تک بھی پاکستان کا ہر بچہ اسکول نہیں جارہا ہوگا، صحت کی سہولیات نہیں ہوں گی اور 2075ء تک بھی پاکستان کی فی کس آمدنی ای سی ڈی ممالک کے برابر نہیں پہنچ سکے گی، جبکہ اس صدی کے آخر تک سودی معیشت بھی پاکستان میں خدانخواستہ برقرار رہے گی، جو کہ آئین کے آرٹیکل 38 ایف کے خلاف ہے۔
اس حکومت نے جتنی کم شرح پر ٹیکس آف ایمنسٹی دی وہ پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں کسی نے نہیں دی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس حکومت نے یہ قانون بھی بنادیا کہ جو لوٹی ہوئی دولت آف شور میں گئی ہے چاہے اس میں سیاست دان ہوں، جج ہوں، حکمران ہوں، بیوروکریٹس ہوں، فوجی افسران ہوں… وہ سب اپنی رقوم باہر رہنے دیں اور یہاں ٹیکس ادا کردیں۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے بھی اس ایمنسٹی کی توثیق کردی، حالانکہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے پاس ازخود نوٹس 184تھری کے تحت تھا، اور سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں تھا کہ وہ اس پر یہ فیصلہ دیتی۔ عمران خان کی ایمنسٹی اسکیم کی توثیق سپریم کورٹ کے اختیارات سے تجاوز تھا۔ اسلام کے خلاف جو قوانین بن رہے ہیں اور جو کچھ بینکاری کے شعبے میں ہورہا ہے اس پر شرعی عدالتیں بھی خاموش ہیں اور وفاقی شرعی عدالت میں ربا کا مقدمہ 2002ء سے زیر التوا ہے، یعنی اٹھارہ برس سے تعطل کا شکار ہے جو کہ آئین کی شق 38 ف کے خلاف ہے۔ معیشت میں جو تباہی آئی اور جو کچھ غلط کاریاں ہوئیں اس کے متعلق میری کتاب پاکستان اور امریکہ دہشت گردی، سیاست اور معیشت میں تفصیل سے درج ہے۔