ساحل بلوچستان و سندھ کے جزائر کی ملکیت کا تنازع

عمران خان کی زبان سے ”جنوبی بلوچستان“ کی اصطلاح استعمال کرنے پر سیاسی حلقوں میں تشویش

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 11ستمبر2020ء کو اپنے دورۂ کوئٹہ کے موقع پر بلوچستان کے جنوبی اضلاع کی ترقی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا، جس کے لیے وزیراعظم نے ’جنوبی بلوچستان‘ کی اصطلاح استعمال کی اور بلوچستان حکومت کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس پیکیج کے حوالے سے مشاورت ہورہی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اس ٹاسک کے لیے نگران ہیں۔ چناں چہ جنوبی بلوچستان کے الفاظ پر صوبے کی بڑی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نے نکتہ اُٹھایا ہے کہ یہ اصطلاح دراصل بلوچستان کی انتظامی اور جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کی راہ ہموار کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے اس ضمن میں اخبارات کو بیانات جاری ہوئے۔ ان جماعتوں نے ایسی کسی بھی منصوبہ بندی کے خلاف سیاسی مزاحمت کی دھمکی بھی دی ہے۔ بی این پی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر جہانزیب جمالدینی یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وفاق چاہتا ہے کہ گوادر اور صوبے کے دوسرے ساحلی علاقوں پر مشتمل ایسا یونٹ بنایا جائے جو براہِ راست وفاق کے تصرف و زیرانتظام ہو۔ نیزنیشنل پارٹی کے دو روزہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس (29،30 ستمبر) کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے بیان میں ساحلِ بلوچستان کے ساتھ کراچی کے ساحل کو ملاکر ایک وفاقی یونٹ بنانے کے ماسٹر پلان کی تشکیل کا الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ منصوبہ سندھ اور بلوچستان کی تقسیم کا آغاز ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بھی کہہ چکے ہیں کہ جنوبی بلوچستان کے نام کے استعمال پر خدشات جنم لے چکے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں یہ بھی زیر گردش ہے کہ دونوں صوبوں کے جزائر وفاق اپنے زیر کنٹرول لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں یکم ستمبر کو صدرِ پاکستان کی جانب سے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 جاری کیا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک ماہ سے زائد عرصے تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اتھارٹی چیئرمین کی تقرری کے لیے اخبارات میں اشتہارات جاری ہوئے تب جاکر آرڈیننس سے متعلق خبر عام ہوئی۔ آرڈیننس کے مطابق ساحل سے سمندر کے اندر 12 ناٹیکل میل تک کا حصہ اب اتھارٹی کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔ یعنی بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر موجود تمام جزائر اب وفاق کی ملکیت ہیں، جسے شیڈول ون میں رکھا گیا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے سیاسی وسماجی حلقوں کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس آرڈیننس پر اظہارِ خیال کیا اور اسے غیر قانونی کہا۔ بلاول بھٹو کے مطابق پیپلزپارٹی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزائر کے الحاق کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں بھی مخالفت کرے گی۔ بلاول نے سوال کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کا یہ عمل مودی کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات سے کس طرح مختلف ہے؟
بلوچستان کے اندراس وقت فرنٹیئر کور بھی سائوتھ اور نارتھ یعنی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایف سی نارتھ کا آئی جی کوئٹہ، جبکہ سائوتھ کا آئی جی تربت میں بیٹھتا ہے۔ بلوچستان کے سینئر تجزیہ کار انور ساجدی کہتے ہیں کہ مستقبل میں گوادر کی حدود میں ایک بڑی چھائونی کے قیام کی منصوبہ بندی ہے، جس کے بعد کمانڈر سدرن کمانڈ صوبے کی جنوبی چھائونی میں بیٹھیں گے، جبکہ کوئٹہ میں کور کمانڈر ہوگا۔
بہرحال یہ درست ہے کہ جنوبی بلوچستان کے بجائے ’صوبے کے جنوبی اضلاع‘ یا مکران و جھالاوان کا نام استعمال کیا جاتا تو اعتراض نہ ہوتا۔ بلوچستان ملک کا وسیع و عریض صوبہ ہے، جس کے مسائل اور پسماندگی اپنی جسامت کی طرح ہی ہیں۔ اس جدید دور میں بھی صوبہ مختلف النوع مسائل سے دو چار اور ضروریات کا متقاضی ہے۔ چناں چہ بلوچستان اگر صوبے کے پشتون بلوچ عوام کے تاریخی خطوں پر تقسیم ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے امن و امان جیسے مسائل پر قابو پانا چنداں مشکل نہ رہے گا، اور صوبے کی ترقی دسترس میں ہوگی۔ گوادر بندرگاہ کی فعالیت کے بعد یہ ضرورت مزید بڑھ گئی ہے، جس کے بعد لامحالہ آبادی کا رُخ مکران ڈویژن اور اس سے متصل علاقوں کی جانب ہوگا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی بارہا کہہ چکی ہے کہ پشتون علاقوں پر مشتمل الگ صوبے کے قیام پر ان کی جماعت معترض نہیں ہوگی۔ صوبے کی بڑی پشتون قوم پرست جماعت پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کا ملک میں ون یونٹ کے خاتمے کے وقت سے ہی الگ پشتون صوبے کا مطالبہ رہا ہے۔ اسی بات پر عبدالصمد خان اچکزئی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے الگ ہوئے تھے۔
بہرکیف ترقیاتی پیکیج میں مکران ڈویژن کے ساتھ قلات ڈویژن کے اضلاع آواران اور لسبیلہ بھی شامل ہیں، جس کے لیے سردست 200 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس لاگت سے 184سے زائد منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچائے جائیں گے۔ پیکیج دینے کا فیصلہ قومی ترقیاتی کونسل (این ڈی سی) میں ہوا ہے۔ یہ 13 رکنی کونسل وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں جون2019ء میں قائم کی گئی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ بھی اس کے رکن ہیں۔ این ڈی سی نے یہ فیصلہ بلوچستان کے جنوبی اضلاع کیچ، تربت، پنجگور، گوادر، لسبیلہ اور آواران کی پسماندگی کے پیش نظر کیا ہے، جہاں مواصلاتی ربط اور سماجی و اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے، تاکہ ان اضلاع میں معیارِ زندگی بھی بلند ہو۔ 184 منصوبوں میں مواصلات، زراعت، آب پاشی، آب نوشی، صنعت، ماہی گیری، توانائی، لائیو اسٹاک، سرحدی تجارت سمیت مختلف شعبوں کے منصوبے شامل ہیں۔ ضلع آواران کو کراچی، خضدار اور ضلع کیچ سے ملانے کی خاطر شاہراہیں تعمیر کی جائیں گی۔ سڑکوں کی تعمیر سے ایران کی سرحد کے ساتھ تجارت آسان ہوگی۔ مکران ڈویژن کو نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ریلوے لائنیں بچھائی جائیں گی۔ ایل پی جی اور ایل این جی ٹرمنلز کا قیام منصوبے کا حصہ ہے۔ تعلیمی اداروں کا قیام بالخصوص کیڈٹ کالج منصوبے میں شامل ہوں گے۔ مکران کے اندر کپاس کی کاشت کو فروغ دے کر کاٹن جننگ ملز بنانے کا پلان ہے۔ کولڈ اسٹوریج بنائے جائیں گے۔ نیز مکران کی کھجورکی فصل کے لیے پروسسنگ پلانٹ قائم کیے جائیں گے تاکہ مقامی کھجور دوسرے ممالک برآمد کی جا سکے۔ کسانوں اور مال داروں کو بھی فنی معاونت کی منصوبہ بندی ہے۔ ارادے و منصوبے یقیناً انقلابی ہیں۔ بلوچستان حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ بقول بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی کے، نیشنل پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر کام کے ضمن میں بنیادی کردار کا حامل متعلقہ صوبہ ہی ہوتاہے، جبکہ اس بڑے پیکیج کے لیے بلوچستان کے پاس رقم نہیں ہے۔ اس بنا وفاق بلوچستان کی معاونت کرے گا اور رفتہ رفتہ مزید اضلاع بھی پیکیج کا حصہ بنائے جائیں گے۔ گویا مشکل ضرور ہے۔ وفاقی حکومت یکسوئی کے ساتھ معاونت کرے تو ان منصوبوں کی تکمیل آئندہ تین چار سال میں ہوسکتی ہے۔