ماحولیاتی آلودگی

انسانی زندگی کے لئے طوفان سے زیادہ ہلاکت خیز

لاکھوں درود و سلام ہوں اس رحمۃ للعالمین نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، جنہوں نے چودہ صدی قبل درختوں کی اہمیت سے آگاہ فرمایا، اور بطورِ خاص ہدایات جاری فرمائیں کہ دورانِ جہاد کسی درخت کو نہ کاٹا جائے۔
مسند احمد میں مروی ایک حدیث جس کے راوی حضرت ثوبانؓ ہیں، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کے قتل سے منع فرمایا ہے، اسی طرح آگ لگاکر جلانے، کھجور اور دیگر ثمردار درختوں کے کاٹنے سے بھی آپؐ نے منع فرمایا ہے۔
آج کل ہم Billion Tree Tsunami اور Clean-Green پاکستان کی باتیں سنتے ہیں، شاید ہم ان کوششوں میں کامیاب ہوجائیں، مگر یہ اس بڑے طوفان کا ایک حصہ ہے جس کو ہم ماحولیاتی آلودگی کہتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی پانچ اہم اقسام ہیں:
(1) فضائی آلودگی، (2) پانی کی آلودگی، (3) زمین کی آلودگی، (4) شور، (5) تابکاری۔
یہ ساری آلودگیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے ایک قسم کی آلودگی نہ صرف نباتاتی نظام میں بیماریوں کا سبب بنتی ہے بلکہ ماحول کے مجموعی توازن کو بھی بگاڑ دیتی ہے، جس کے سبب دوسری خرابیاں اور بیماریاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک مسلسل عمل (Chain Reaction) کی طرح ہوتا ہے، ایک کے بعد ایک خرابی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور انسان کو اُس وقت احساس ہوتا ہے جب اس عمل کو روکنا ناممکن ہوجاتا ہے، یا پھر اس کا طریقۂ علاج یا حل اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ سوائے صبر کرنے کے اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ ذیل میں ان اقسام کی آلودگی کو مختصر انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔

-1 فضائی آلودگی

اس دنیا میں بسنے والے تمام ذی روح سانس لیتے ہیں چاہے وہ زمین پر رہتے ہوں یا زیر آب۔ سب کو سانس لینے کے لیے صاف آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ تازہ ہوا میں چار اقسام کی گیسیں پائی جاتی ہیں۔
(1) آکسیجن 20.94% (Oxygen O2)
(2) نائٹروجن 78.09% (Nitrogen N2)
(3) آرگن 0.93% (Argon Ar)
(4) کاربن ڈائی آکسائیڈ 0.03% (Carbon Di oxide CO2)
سانس لینے کے عمل کے دوران آکسیجن خون میں جذب ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوکر ہوا میں شامل ہوجاتی ہے۔ سورج کی روشنی (دھوپ) میں نباتات (درخت اور پودے) اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے پھر آکسیجن میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس طرح ایک قدرتی توازن برقرار رہتا ہے جو حیوانی اور نباتاتی دونوں زندگیوں کے لیے ضروری ہے۔ مگر افسوس کہ انسان خود اس توازن کو بگاڑ رہا ہے۔ درخت جیسی نعمت کو ہم اپنے ہی ہاتھوں کاٹ کر ختم کررہے ہیں۔
شمالی علاقہ جات سے درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور Timber مافیا کا ذکر تو پرانی بات ہے، حال ہی میں لاہور میں کینال روڈ سے بڑے تناور اور پرانے درخت کاٹے گئے۔ پھر اسلام آباد میں مرگلہ کی پہاڑیوں اور مین سفارتی انکلیو (Enclave) سے اتنی تعداد میں درخت کی کٹائی شروع ہوئی کہ سپریم کورٹ کو سوموٹو (ازخود نوٹس) لینا پڑا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ درخت جیسی نعمت کو ہم اپنے ہی ہاتھوں کاٹ کر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف کارخانوں کی چمنیوں اور گاڑیوں کے انجنوں سے مسلسل دھواں نکل کر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ کررہا ہے۔ یہ صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اس مضرِ صحت دھویں میں اور بھی کئی زہریلے عناصر ہوتے ہیں۔
کارخانوں سے نکلنے والے دھویں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے علاوہ کاربن مونو آکسائیڈ (CO)، آکسائیڈ آف نائٹروجن (NO) ، گندھک (Sulpher) اور کاربن کے ذرات بھی ہوتے ہیں۔ کاربن مونو آکسائیڈ اور آکسائیڈ آف نائٹروجن سانس کے ساتھ انسانی جسم میں داخل ہوکر خون کے سرخ خلیات پر حملہ کرتے ہیں، جن کی وجہ سے خون میں ہیموگلوبن کی مقدار کم ہونے لگتی ہے، پھیپھڑوں کی بیماریاں اور دل کے امراض شروع ہوجاتے ہیں۔
گندھک ہوا کی نمی کے ساتھ مل کر گندھک کے تیزاب (Sulphuric Acid) (H2SO4) میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے تیزابی بارش (Acid Rain) کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
کاربن کے ذرات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوکر وہاں جمع ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ سے دمہ، تپ دق اور کینسر جیسے موذی امراض جنم لیتے ہیں۔ کاربن کے ذرات کی وجہ سے ناک، گلے اور الرجی کی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ پیٹرول میں سیسے (Lead) کی ملاوٹ کی جاتی ہے جس سے گاڑیوں کے انجن کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے، مگر سیسہ گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں کے ساتھ خارج ہوکر ہوا میں شامل ہوتا رہتا ہے اور انسانی صحت پر مضر اثرات ڈالتا ہے۔ خوراک اور پانی کے ساتھ بھی سیسے کی مقدار انسانی جسم میں داخل ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے خون کی کمی، قبض اور گردوں کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
بچوں پر ان آلودگیوں اور مضر صحت دھویں کا حملہ بڑی شدت سے ہوتا ہے اور وہ جلدی بیمار پڑ جاتے ہیں، اسی لیے غریب ملکوں میں بچوں کی شرح اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
زمین کی بالائی فضا میں موجود اوزون (Ozone) میں آکسیجن کا مسئلہ سب سے جدا ہے۔ یہ ایک ایسی گیس ہے جس میں آکسیجن کے تین ایٹم ہوتے ہیں یعنی (O3)۔ اوزون اگر بلندی پر ہو (تقریباً 7 کلومیٹر) تو زمینی حیاتیات کے لیے مفید ہے، لیکن یہ جتنی سطح زمین پر ہو اتنی ہی مہلک ہے۔ سورج سے خارج ہونے والی شعاعوں میں بالائی بنفشی شعاعیں (Ultra Violet Rays) ہوتی ہیں جو آنکھوں میں موتیا بند اور جلد کے کینسر کا باعث ہوتی ہیں۔
اوزون کی تہ بالائی فضا میں ان خطرناک بالائی بنفشی شعاعوں کو روک دیتی ہے۔ اس طرح اوزون ایک حفاظتی چھتری کا کام کرتی ہے، مگر جب یہی اوزون گیس سطح زمین پر جمع ہوجاتی ہے تو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے، سینے میں گھٹن کا احساس ہوتا ہے، سر درد شروع ہوجاتا ہے اور کھانسی کا دورہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ریفریجریٹر اور دوسرے ٹھنڈے کرنے والے صنعتی یونٹ (Chillers) میں جو گیس (Freon) استعمال ہوتی ہے اس کی وجہ سے اوزون کی بالائی فضا میں سوراخ ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے بالائی بنفشی شعاعیں سطح زمین تک پہنچ کر زمینی حیاتیات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
سطح زمین پر اوزون بڑے پیچیدہ کیمیائی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ ایندھن کے جلنے سے جو ہائیڈروکاربن اور نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتے ہیں ان پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو اوزون پیدا ہوتی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق سطح زمین پر اوزون کی مقدار اگر ایک ملین سے زیادہ ہوجائے اور بالائی سطح پر اگر 6 ملین سے کم ہوجائے تو دونوں صورتوں میں حیاتیاتی نظام کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
کرۂ ارض کا مجموعی درجہ ٔ حرارت اگر مسلسل بڑھتا رہے تو اسے Green House Effect کہتے ہیں۔ اس سے فصلوں کی پیداوار اور افزائشِ حیوانات پر برا اثر پڑتا ہے۔ ایک سائنسی مطالعے سے جو کئی سال کا ریکارڈ مدنظر رکھ کیا گیا ہے، یہ پتا چلا ہے کہ درجہ ٔ حرارت میں تین ڈگری(3OF)اضافے سے زرعی پیداوار میں دس فیصد کمی ہوجاتی ہے اور بے شمار چرند و پرند کی نسل معدوم ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔
ابھی تک تو فضائی آلودگی سے ہم حیوانی حیاتیات پر مضر اثرات کا ذکر کررہے تھے، مگر فضائی آلودگی عمارتوں پر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔ تاج محل کی چمک ماند پڑ رہی ہے، اور کراچی میں تعمیر شدہ پرانی عمارتوں کا رنگ اجڑ رہا ہے اور سرخ راجستھانی پتھر بھی پیلے پڑ رہے ہیں۔

-2پانی کی آلودگی

پانی قدرت کا وہ عظیم عطیہ ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی سب سے کارآمد شے پانی ہے۔ پانی دو گیسوں کا مجموعہ ہے: ہائیڈروجن اور آکسیجن (H2O)۔ تمام حیاتیاتی اجسام کے خلیوں کا اہم جزو پانی ہے۔ ہم اسے پیتے ہیں، اس میں کھانا پکاتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں۔ کوئی ایسا کام نہیں جو اس کے بغیر ممکن ہو۔ لیکن اس کا خالص حالت میں ملنا محال ہے، کیونکہ پانی میں تقریباً ہر چیز گھل جاتی ہے۔ انسان اور جانور تو ویسے بھی پانی گندا کرتے رہتے ہیں، مگر صنعتی اداروں (کارخانوں) میں استعمال ہونے والا پانی اور صنعتی فضلہ جب باہر پھینکا جاتا ہے تو اس میں شامل کیمیائی عناصر زمین اور زیرِ زمین پانی کو آلودہ کردیتے ہیں۔
پانی جب خالص ہوتا ہے تو اس میں کوئی رنگ، بو اور ذائقہ نہیں ہوتا، مگر جب اس میں آلودگی شامل ہوجاتی ہے تو پھر یہ پانی انسانی صحت ہی کے لیے نہیں بلکہ حیوانات اور نباتات کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔
شہروں میں جہاں نکاسیِ آب کے لیے زیر زمین گٹر ہیں وہاں ان گٹر لائنوں سے گندا پانی رِس رِس کر پینے کے اچھے پانی کو خراب کردیتا ہے۔ زیر زمین پانی کی ٹینکیوں میں بھی مضر صحت جراثیم داخل ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ گھر کے نلکوں اور پائپوں میں ایسا آلودہ پانی آنے لگتا ہے جس سے بڑے پیمانے پر صحتِ عامہ کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ نہر، دریا اور سمندر کا پانی قدرتی طور پر صاف ہوتا رہتا ہے، مگر جب اس میں فضلات، گند اور کچرا بے تحاشا ڈالا جانے لگا تو صفائی کا قدرتی توازن بھی بگڑ گیا۔ اب بڑے شہروں سے اتنا صنعتی فضلہ، گٹر کا پانی اور کوڑا کرکٹ دریا اور سمندر میں پھینکا جانے لگا ہے کہ پانی کی آلودگی نہ صرف انسانوں بلکہ آبی حیات کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
پانی میں آلودگی کے بڑے ذرائع درج ذیل ہیں:
(1) صنعتی فضلہ، (2) زرعی ادویہ، (3) گٹر کا پانی،
(4) عام کچرا۔ کوڑا کرکٹ۔
ان چیزوں کے شامل ہوجانے سے پانی کسی بھی استعمال کے قابل نہیں رہتا، بلکہ بعض اوقات یہ اس حد تک زہریلا ہوجاتا ہے کہ اس میں موجود مچھلیاں بھی مر جاتی ہیں۔ ان ذرائع سے جب مختلف آلودگیاں پانی میں شامل ہوجاتی ہیں تو پانی کی طبعی اور کیمیاوی خصوصیات بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔

-3زمین کی آلودگی

زمین سے ہم کئی قسم کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ اس میں ہمہ اقسام کے اناج، پھل اور میوے اگاتے ہیں۔ زمین سے ہم ایندھن اور معدنیات بھی حاصل کرتے ہیں، مگر اسی زمین کو ہم مختلف قسم کے فضلات، نمکیات اور تیزاب پھینک کر خراب بھی کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ فصل حاصل کرنے کے لالچ میں زمین میں اتنی زیادہ کیمیاوی کھاد ڈال دیتے ہیں کہ اس کا قدرتی توازن بگڑ جاتا ہے۔
جس طرح ہوا میں جانداروں کو سانس لینے کے لیے قدرتی طور پر آکسیجن کا نظام ہوتا ہے، اسی طرح خوراک کے لیے جانداروں اور زمین کے درمیان نائٹروجن (Nitrogen) کا نظام ہوتا ہے۔ قدرتی کھاد جو جانوروں کے گوبر اور نباتات سے بنتی ہے زمین کی نائٹروجن کی ضروریات پوری کرتی ہے، جس سے زمین میں نئی فصل اگتی ہے جو انسانوں اور جانوروں کی خوراک بنتی ہے۔ مگر آبادی بڑھنے کی وجہ سے خوراک کی ضروریات بڑھتی چلی جارہی ہیں، اس لیے زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے مصنوعی کیمیاوی کھاد اور کیڑے مارنے والی دوائوں کا استعمال اور آب پاشی کے لیے نئے ذرائع استعمال کیے جانے لگے۔ ان سے فصل کی پیداوار تو بڑھ گئی مگر زمین کی پیداواری صلاحیت کم ہونے لگی۔
مصنوعی کھاد کے استعمال کا ایک اور نقصان یہ ہوا کہ اب کیڑوں اور سنڈیوں کی ایسی نسل پیدا ہوچکی ہے جن پر یہ ادویہ اثر نہیں کرتیں، لہٰذا اور زیادہ طاقتور دوائیں ایجاد ہورہی ہیں۔ ان کیڑے مار دوائوں کا اثر پھلوں، سبزیوں اور دیگر اناج پر بہت دیر تک رہتا ہے جو انسانی اور حیوانی اجسام میں خوراک کے ذریعے پہنچ جاتا ہے۔
زمین میں زیادہ مصنوعی کھاد ڈالنے سے زمین کی قدرتی پیداواری صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے اور ہر دفعہ پہلے سے زیادہ کھاد ڈالنی پڑتی ہے۔ اسی طرح آب پاشی کے لیے بہت بڑے بڑے بند، بیراج اور سینکڑوں کلومیٹر لمبی نہریں بنانے سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے لگتی ہے جس سے زمین کو سیم اور تھور (Water Logging) جیسے موذی مرض بھی لاحق ہوجاتے ہیں، جن کی وجہ سے ہر سال پاکستان کی سینکڑوں ایکڑ زمین تباہ ہورہی ہے۔ واپڈا کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سیم اور تھور کی وجہ سے تقریباً ایک لاکھ ایکڑ زمین ہر سال بنجر ہورہی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ رفتار برقرار رہی تو اکیسویں صدی میں پاکستان کے زرخیز علاقے نمکین پانی کی جھیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔
حکومت ِ پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرچکی ہے اور سالانہ اس خرچ میں اضافہ ہورہا ہے۔ SCARP، DRIP اور LBOD جیسے پروجیکٹس پر سالانہ کئی ارب روپے خرچ ہوتے ہیں مگر پتا چلا کہ آب پاشی کے بڑے منصوبے اگر نکاسیِ آب (Drainage) کا خیال رکھے بغیر مکمل کرلیے جائیں تو زرعی پیداوار میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا جتنی زرعی پیداواری زمین تباہ ہوجاتی ہے۔ بات وہی قدرتی توازن کی ہے۔ جب بھی حضرتِ انسان نے قدرتی نظام کو چھیڑا، فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔
امریکہ کے محکمہ زراعت کے ایک سروے کے مطابق موجودہ دور میں ایک پونڈ خوراک حاصل کرنے کے لیے تقریباً بائیس پونڈ کی زمین (زرخیز مٹی) خراب ہورہی ہے۔ مغربی ممالک میں زمین کے بہتر استعمال کی خاطر مصنوعی کھاد اور قوی کیڑے مار ادویہ (Fertilizer Pesticised) کو تیسری دنیا کے غریب ممالک میں زور شور سے بیچا جارہا ہے کیونکہ ابھی ترقی پذیر ممالک میں نہ تو ان کے خلاف کوئی قانونی ضابطے بنائے گئے ہیں اورنہ ابھی عام لوگوں کو ان کی ضرر رسانیوں اور مضر اثرات کے بارے میں علم ہے۔

-4 شور (Noise)۔

جدید طبی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مسلسل شور یا مشینوں کی گھڑگھڑاہٹ سے سر درد اور السر کے علاوہ ہمارے کان بھی قوتِ سماعت کھوتے جارہے ہیں۔
مغربی ممالک میں ہر قسم کی مشینوں اور صنعتی کاروبار کے لیے شور کی حد مقرر کردی گئی ہے۔ اس سے زیادہ آواز/ شور پر قانونی کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ ہوائی اڈے بھی ایسی جگہ تعمیر کیے جاتے ہیں کہ جہازوں کی آمدو رفت کے شور سے لوگوں کا سکون برباد نہ ہو۔
فرانس نے ایک مسافر بردار ہوائی جہاز Concord بنایا تھا جس کی رفتار آواز سے دگنی تھی (Super Sonic)۔ اس جہاز کے اترتے اور چڑھتے وقت جو شور ہوتا تھا اس کی وجہ سے اس کو لندن اور کئی ممالک کے ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بالآخر یہ جہاز اب نمائش کے لیے پیرس کے ہوائی اڈے پر کھڑا ہے اور پورا منصوبہ ناکام ہوگیا۔
ایک سروے کے مطابق ایشیائی ممالک میں سڑکوں پر ٹریفک کا شور Decibel 55ہوتا ہے جو مغربی ممالک کے معیار کے مطابق تقریباً دگنا ہے۔

-5 تابکاری، بجلی کی شعاعیں

بعض دھاتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے توانائی کا اخراج شعاعوں یا ذرات کی شکل میں ہوتا رہتا ہے۔ اس مسلسل اخراج کو تابکاری کہتے ہیں۔
اسپتالوں میں جو ایکسرے (X Rays) لیے جاتے ہیں ان کی وجہ سے بھی تھوڑا سا اثر ہڈیوں اور عضلات پر پڑتا ہے۔ بار بار ایکسرے کرانے سے کینسر کا احتمال ہوتا ہے۔
نیوکلیئر سائنس کی ترقی سے انسان کو ایٹم میں پوشیدہ توانائی کا پتا چلا، اور جب اس توانائی کو کام میں لانے کے لیے ایٹم کو استعمال کیا گیا تو انسان پر لامحدود توانائی کے ذخائر کا بھید کھلنے لگا۔ مگر بدقسمتی سے اس توانائی کو کسی اچھے مقصد میں استعمال کرنے کے بجائے اس کی قوت سے زبردست ہلاکت اور تباہی پھیلانے کا کام لیا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے جس سے دونوں شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ لاکھوں انسان ہلاک ہوئے، شہر تباہ ہوئے اور تابکاری کے اثرات اب تک پائے جاتے ہیں۔
انسان ترقی کے زینے پر تو چڑھ رہا ہے مگر اپنی موت اور تباہی کا سامان بھی اپنے ہاتھوں خود ہی کررہا ہے۔ فزکس کے ایک استاد کہا کرتے تھے “Nuclear is unclear”۔ ہر نیوکلیائی عمل میں اتنا تابکاری فضلہ پیدا ہوتا ہے جس کو ٹھکانے لگانا ایک اور سائنسی اور مالی مسئلہ ہے۔ آخر کب تک مغربی ممالک تابکاری فضلے کو چھپاتے پھریں گے! کیونکہ اب تک کوئی قابل عمل اور سستا طریقہ معلوم نہیں کیا جاسکا۔ ایٹمی سائنس کی ترقی نے مختلف دھاتوں کے ہم وزن ISOTOP بھی دریافت کرلیے ہیں جو طب اور زراعت میں استعمال ہورہے ہیں۔ ان کی وجہ سے بلاشبہ کئی بیماریوں کے علاج میں کامیابیاں بھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح زراعت میں فصل کی پیداوار بھی بڑھائی گئی ہے۔ مگر اس کے استعمال کے دوران انسانوں پر مضر اثرات اور استعمال کے بعد اس کے فضلے (Nuclear Waste) کو ٹھکانے لگانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دراصل ان تابکار شعاعوں سے خلیات میں ایسا بے ترتیب اور بے حساب اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے جو دوسرے صحت مند خلیوں کو تباہ کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو عرفِ عام میں کینسر کہتے ہیں۔
جب یہ ایٹمی فضلہ پانی اور مٹی میں ملتا ہے تو اس میں پیدا ہونے والی ہر چیز تابکاری اثر رکھتی ہے۔ غرض ایک ایسا لامتناہی اور منحوس سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو دیکھتے دیکھتے ہر قسم کی حیاتیات کو ختم/ تباہ کردیتا ہے۔
ان تابکاری شعاعوں کا اثر فضا، پانی، زمین، خوراک سب پر ہوتا ہے، اور جو بھی جاندار شے ان میں رہتی ہے یا ان کو استعمال کرتی ہے وہ سب کینسر کے مریض ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح بجلی کی لائنوں اور بجلی کی دیگر تنصیبات سے بھی مقناطیسی (Electro Magnetic) شعاعیں خارج ہوتی رہتی ہیں اور ان کے زیر اثر کام کرنے والے اور ان کے نزدیک مکانات میں رہنے والے بھی خون کے کینسر میں مبتلا پائے گئے ہیں۔
اسی طرح ریڈیو اور ٹی وی کے ہائی پاور ٹرانسمیٹر (Transmitter) سے خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں بھی انسانی صحت کے لیے مضر ہوتی ہیں۔
بجلی کے پلانٹ (Power House) میں کام کرنے والے افراد السر، لیکوریا اور اعصابی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اس پر بڑی تحقیق ہورہی ہے اور ان افراد کے لیے نئے حفاظتی اقدامات اپنائے جارہے ہیں، مگر اُن لوگوں کا کیا قصور جن کے گھروں کے نزدیک بجلی کا ٹرانسفارمر لگا ہوا ہے؟ بجلی کی تنصیبات سے خارج ہونے والی مقناطیسی شعاعیں نہ صرف انسانوں اور جانوروں پر مضر اثرات ڈالتی ہیں بلکہ شکمِ مادر میں نمو پذیر بچے بھی بلڈ کینسر (Leukemia) کا شکار ہوسکتے ہیں۔
(بہ شکریہ: ’’عمارت کار‘‘
شمارہ نمبر22، جولائی تا دسمبر 2020ء)