الرجی کیا ہے؟

گنجان شہری آبادی اور ماحولیاتی آلودگی الرجی میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے

”یار بھائی جان! یہ عثمان مستقل ناک کھجاتا رہتا ہے، جب دیکھو الرجی، دمہ، نزلہ… کبھی کبھی تو سینے میں سے سیٹی کی سی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ عام دودھ تو پی ہی نہیں سکتا۔ ابھی پیا نہیں کہ موشن شروع۔“
میری چھوٹی بہن فون پر گفتگو کے دوران میں سوالات پہ سوالات کررہی تھی۔
کیا ہے یہ سب کچھ؟
ایک تحقیقی مطالعے اور جائزے کے مطابق تقریباً 19 فیصد بچے سانس کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں الرجی، دمہ (سانس کے امراض) میں مستقل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ماہرین الرجی سے متعلق امراض کی بڑھتی ہوئی شرح کو Urbanization یا دیہات سے شہری علاقوں میں رہائش کے رجحان سے منسلک کرتے ہیں۔ یہ الرجی یا حساسیت (Hypersensitivity) ہے کیا، پہلے اس کو سمجھتے ہیں، تاکہ بچوں کو اس سے بچانے میں آسانی ہو ۔
ہمارے جسم میں اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص دفاعی نظام رکھا ہے جو باہر سے جسم میں مختلف راستوں سے داخل ہونے والے جراثیم یا مادوں کے خلاف دفاع کا کام کرتا ہے، اُن کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے۔ امیونوگلوبیولن (Immunoglobulin) وہ مادے ہیں جو دفاعی نظام کا حصہ ہیں۔ ایک امیونوگلوبیولن IgE کے نام سے بھی ہمارے جسم میں موجود ہے۔
یہ IgE عام طور پر کسی الرجن (Allergen) کے جسم میں داخل ہونے پر اس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے۔ اور ہوتا کیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ ردعمل دے دیتا ہے، اسی لیے ہائپر سینسیوٹی (Hypersensitivity) ری ایکشن ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں الرجی، سانس کی نالیوں میں تنگی، اور خارش، یا چہرے کی سوجن کسی خاص کھانے کی وجہ سے ہوجاتی ہے۔
یہ الرجی صرف ماحول کی وجہ سے ہی نہیں ہے، بلکہ کچھ مخصوص افراد میں زیادہ ہوتی ہے، یعنی اس حساسیت کی وجوہات میں وراثت بھی شامل ہے۔ اگر کوئی خاتون الرجی یا حساسیت کی وجہ سے نزلہ اور سانس کی نالیوں میں تنگی (دمہ) کا شکار ہوتی ہیں، یا کسی خاص غذا کو کھانے سے اُن کے ہونٹ سوج جاتے ہیں اور جسم پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں تو اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ اُن کی اولاد میں بھی یہ وراثت اور اس کے اثرات جائیں۔ ایسی ماؤں کے تقریباً 60 فیصد بچے متاثر ہوتے ہیں، اور اگر یہ سلسلہ باپ کی طرف سے ہو تو صرف 30 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ماں باپ دونوں الرجک ہیں تو ناممکن ہے کہ بچے الرجی سے بچ پائیں ۔
ایسے لوگوں میں جب IgE کا لیول چیک کیا گیا تو عام طور پر اپنی عمر کے حساب سے زیادہ ہی ملا۔
جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن 2018ء کے اپنے مضمون میں بتاتا ہے کہ زیادہ IgE لیول اور دمہ کا تعلق بہت مضبوط ہے۔
یہ الرجی یا حساسیت کس طرح اپنا اظہار کرتی ہے، یہ بھی بہت دلچسپ بات (Phenomena) ہے۔
کچھ لوگوں میں صرف زکام کی کیفیت یعنی صبح کا آغاز پانچ چھے چھینکوں سے ہوتا ہے۔ کچھ لوگ دھول، مٹی یا پرفیوم کے استعمال کے بعد سینے میں گھٹن کی شکایت کرتے ہیں، اور سینے سے سیٹی کی سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کچھ لوگ سمندری غذا یا مونگ پھلی کھانے کے بعد ایک دم سانس کی تنگی کا شکار ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے جسم پر کسی خاص کھانے یا کسی جگہ جانے سے سرخ دھبے اور خارش شروع ہوجاتی ہے۔وغیرہ وغیرہ
الرجی کی دو بڑی وجوہات… ماحول اور وراثت
جوں جوں شہروں کی طرف آبادی کا رجحان بڑھ رہا ہے، اور شہروں میں کارخانوں کے دھویں سے لے کر گاڑیوں کا دھواں، کچرا، فضائی آلودگی، تنگ جگہ میں زیادہ لوگوں کی رہائش اور مکانات میں کاکروچ، اور ڈسٹ مائیٹ جو بستروں میں پناہ گزین ہوتے ہیں اور دھوپ کی تنگی کی وجہ سے نشوونما پاتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس سے الرجی میں اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری جانب اگر وراثت بھی ساتھ میں الرجی کے لیے موافق ہو تو پھر مشکل ہے آپ کا بچنا۔
نزلہ، کھانسی، زکام، خارش، سانس کی نالیوں میں تنگی (دمہ) اور مخصوص غذا مثلاً دودھ، مونگ پھلی، نٹس، سمندری غذا جیسے جھینگے وغیرہ کے استعمال سے جسم پر سرخ دھبے عام طور پر الرجی یا حساسیت کی ہی علامات ہوتے ہیں۔
جب آپ ان علامات کے ساتھ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں تو وہ مزید سوالات کے ذریعے آپ کی اور آپ کے خاندان کی ہسٹری کے ذریعے اور طبی معائنے کے بعد آپ کو کبھی کبھی IgE لیول کا ٹیسٹ اور کبھی مخصوص الرجی کو تلاش کرنے کے لیے اسکن پرک ٹیسٹ جس میں تلاش کی جانے والی الرجک اشیا کو باریک سوئیوں کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے اور پھر الرجی کا ماہر ڈاکٹر اس ری ایکشن کو دیکھتا ہے جو اس اس ٹیسٹ کے ذریعے جسم نے اس مخصوص الرجن کے خلاف دیا۔ اس ٹیسٹ کو RAST کہا جاتا ہے، ورنہ اکثر تو ہسٹری اور معائنے کے بعد ہی اینٹی الرجی ادویہ اور سانس کی نالیوں میں تنگی کی صورت میں نیبولائزر کے ذریعے علاج یا بڑے بچوں کی صورت میں انہیلرز کے ذریعے آپ کا علاج کرتا ہے۔
چونکہ الرجی یا حساسیت کی صورت میں جہاں وراثت اہم ہے، وہیں ماحول کا بھی بہت زیادہ کردار ہے۔ اس لیے آپ اگر چاہیں تو حساسیت کے جینز وراثت میں لینے کے باوجود اپنے بیمار ہونے کے رسک کو کم کرسکتے ہیں، اور یہاں پر آپ کے ڈاکٹر کا کردار بہت اہم ہے جو آپ کو سمجھاتا ہے کہ کیسے ماحول کو بہتر کرنا ہے اور کیسے الرجی سے بچنے کی کوشش کرنی ہے۔ ایک تحقیقی مطالعےکے مطابق کراچی کی 40 فیصد آبادی الرجی کے ماحول میں رہتی ہے اور8سے 10فیصد کراچی والے دمہ کے مریض ہیں۔
اسلام آباد میں اسکول جانے والے بچوں میں 30 فیصد اور ملکی آبادی میں موجود 20 فیصد بچے سانس کے امراض میں مبتلاہیں۔ اگر ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ کراچی میں صنعتی اور ماحولیاتی آلودگی زیادہ ہے، اور اسلام آباد میں شاید پولن۔
ماحول میں تھوڑی سی تبدیلیاں کرکے الرجی کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
اگر ہم الرجی یا حساسیت کا شکار ہیں تو ہم سگریٹ اور گاڑیوں کے دھویں سے… پرندوں کے پروں، ان کی بیٹ کی بو سے… جانوروں کے فر مثلاً بلیوں، کتوں، خرگوش وغیرہ… پرفیوم، اگربتی، گھر میں جلائے جانے والے مچھر مار گلوب، مچھر مار اسپرے… اپنے آس پاس ہونے والی سیمنٹ اور ٹائلز کی کٹائی وغیرہ… گھر کے قریب جلنے والے کچرے، کارخانے میں لکڑی کے برادے کے کام یا اس طرح کا کوئی اور کارخانہ جس میں وہ کام ہوتا ہے جس کے ذرات فضا میں موجود اور سانس کی نالیوں میں ناک کے ذریعے داخل ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح الرجک بچوں کو کمبل کے بجائے لحاف کا استعمال کروائیں۔ جو بچے دودھ یا کھانے کی کسی خاص چیز سے الرجک ہیں تو ان کو اس غذا سے محفوظ رکھنے کا انتظام کریں۔
علاج عام طور پر اینٹی الرجی ادویہ اور سانس کے امراض کی ادویہ کے ذریعے ہی کیا جاتاہے۔
علاج کی ایک نئی قسم امینو تھراپی (Immunotherapy) کہلاتی ہے۔ اس میں جس چیز سے الرجی ہے اسی چیز کو جسم میں آہستہ آہستہ مقدار بڑھا کر داخل کیا جاتا ہے تاکہ جسم کو اس کا عادی بنایا جاسکے۔
اس طرح مونو کلونل اینٹی باڈیز (Monoclonal antibodies) بھی ایک طریقہ علاج ہے۔
اگر آپ کا بچہ آپ کے خیال میں الرجک ہے تو مستند ڈاکٹر سے ہی رجوع کریں۔