امام غزالیؒ کی اہم کتاب مقاصدالفلاسفہ کا اردو ترجمہ
ہماری قوم کو ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی توجہ اور کوشش سے بے شمار اہلِ علم کی علمی کاوشیں دوبارہ منصۂ شہود پر آگئی ہیں۔ ان میں زیرنظر عظیم الشان فکری کتاب ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ جو امام غزالیؒ کی عجیب و غریب اور صدیوں پر حکمرانی کرنے والی کتاب ہے، مولانا محمد حنیف ندویؒ کے قلم سے اس کا ترجمہ ہماری اردو زبان میں دستیاب ہے۔ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ مولانا حنیف تحریر فرماتے ہیں:
’’قدیم یونانی فلسفہ غزالیؒ کی معروف کتاب ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ غزالیؒ، اسلام کی فکری تاریخ میں وہ پہلے اور آخری فلسفی ہیں جنہوں نے علم و دانش کے رائج الوقت پیمانوں کا ازسرِنو جائزہ لیا، جنہوں نے یونانی صنم خانوں پر بھرپور وار کیا اور علم و آگہی کے نئے سرچشمے کی نشان دہی کی۔ ’’المنقذ“ اور ’’تہافتہُ الفلاسفہ‘‘ اس سلسلے کی نہایت ہی اہم کڑیاں ہیں۔ تہافت میں انہوں نے جودتِ طبع، نکتہ سنجی اور لطائفِ فکر کے وہ جوہر دکھائے ہیں جو بجائے خود لائقِ مطالعہ ہیں۔ اُن کی فکری بلندیوں سے نہ صرف مشرق آگاہ ہے بلکہ جدید ترین مغرب بھی متاثر ہے۔ مثلاً پاسکل (Pascal) جب یہ کہتا ہے کہ دل کی اپنی منطق ہے اور استنباط و استدلال کے اپنے معیار ہیں، جن سے ذہن و دماغ قطعی آشنا نہیں، تو اس میں صاف طور پر غزالیؒ کے اس نظریۂ علم و ادراک کی جھلک دکھائی دیتی ہے جس میں انہوں نے علم و یقین کا رخ، ظاہر سے ہٹا کر باطن کی طرف موڑا ہے۔ ان کی زندگی کا اصلی مشن چونکہ فلسفۂ یونانی کی واماندگیوں کو ظاہر کرنا تھا اور ابن سینا اور فارابی کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا تھا، اس لیے ضروری تھا کہ اس فریضے سے عہدہ برا ہونے سے پہلے فلسفیانہ حلقوں میں اپنی فلسفہ دانی کی دھاک بٹائیں۔ ’’مقاصدُ الفلاسفہ‘‘ کی تصنیف اسی غرض سے تھی۔ اس میں انہوں نے منطق، الٰہیات اور طبیعات جیسے خشک مضامین کو ایسے واضح، شگفتہ اور سمجھ میں آنے والے انداز میں بیان کیا ہے جس سے ان کی فلسفیانہ صلاحیتوں میں کوئی شک نہیں رہتا، اور اس لحاظ سے بلاشبہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ ہم نے اس کو ترجمے کے لیے کیوں چنا، اس کی چند وجوہ ہیں:
(1) ہمیں چونکہ غزالیؒ کی فلسفیانہ تصنیفات سے خصوصیت سے دلچسپی ہے، اس لیے قدرتاً اُن کی اس کتاب کو بھی ہمارے دائرۂ انتخاب و کاوش سے باہر نہیں رہنا چاہیے تھا۔
(2) یونانی فلسفے کو اول اول دنیائے علم تک پہنچانے والے عرب ہیں۔ یورپ میں یہ جس شکل و صورت میں اشاعت پذیر ہوا ہے، اس میں کہیں کہیں اصطلاحات و معانی کا گہرا اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اس ترجمے سے وہ حضرات جنہوں نے ان علوم کا مطالعہ مغربی زبانوں میں کیا ہے، آسانی سے اس اختلاف کو محسوس کرسکیں گے اور دیکھ سکیں گے کہ عربوں نے اخذ و ترجمہ میں کس درجہ دیانت داری، سلیقے اور خوش ذوقی کا ثبوت دیا ہے۔
(3) مدت سے ہمارے ذہن میں یہ تجویز تھی کہ اگر علومِ عقلیہ کو اردو میں پڑھایا جائے اور عربی کے دقیق و مغلق متون کے بجائے، اپنی زبان میں یونانی عقلیات کا مطالعہ کیا جائے تو صرف اس سے ہمارے علما کی آدھی مصیبت ختم ہوجاتی ہے اور وہ بغیر کسی زحمت میں پڑے اس لائق ہوجاتے ہیں کہ اپنی بہترین ذہنی قوتوں کو قرآن و حدیث اور جدید ترین علوم کی اعلیٰ تعلیم کی طلب و جستجو میں کھپا سکیں۔
ہمارا یہ ترجمہ اس خواب کی تعبیر کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس میں ہم نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ علم و ادب کے تقاضے پہلو بہ پہلو رہیں اور کسی طرح بھی مضامین کی خشکی اور اغلاق، قاری کی دلچسپیوں کو مجروح نہ کرنے پائیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہم نے سعی کی ہے کہ غزالیؒ کے اپنے پیرایۂ بیان کی خوبیوں کو اردو میں جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔ امید ہے، قدیم طرز کے علمی مدارس میں اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔‘‘
قدیم یونانی فلسفہ کے اثرات مسلم فکر پر گہرے تھے، اس کے نقصان دہ اثرات سے فکرِ اسلامی متاثر ہورہی تھی جس پر امام غزالیؒ کی اس علمی تنقید سے توازن پیدا ہوا۔ فلسفہ سے رغبت رکھنے والے اصحاب تھوڑے ہوتے ہیں، اس لیے ہم نے یہ تعارف مختصر رکھا ہے، ان کے لیے اتنی اطلاع کافی ہے کہ ترجمہ اس وقت موجود ہے۔
کتاب سفید کاغذ پر کمپیوٹر ٹائپ میں چھپی ہے، یہ اس کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ کتاب مجلّد ہے۔