مولانا رومؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ لومڑی کی بزدلی ضرب المثل ہے۔ لیکن جس لومڑی کی کمر پر شیر کا ہاتھ ہو کہ گھبرانا مت، میں تیرے ساتھ ہوں تو باوجود ضعیف الہمت ہونے کے اس پشت پناہی کے فیض سے اس قدر باہمت ہوجائے گی کہ چیتوں کے ریوڑ سے بھی ہرگز خائف نہ ہوگی۔ شیر پر نظر ہونے کی وجہ سے وہ دلیر ہوجائے گی۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا ہوتا ہے کہ وہ باوجود خستہ حال، شکستہ تن اور فاقہ زدہ چہروں کے باطل کی اکثریت سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔
حضرت جعفر طیارؓ ایک قلعہ کو فتح کرنے کے لیے تنہا اس قوت سے حملہ آور ہوئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ قلعہ ان کے گھوڑے کے پائوں کے سامنے ایک ذرّے کے برابر ہے۔ قلعے والوں نے خوف سے قلعہ کا دروازہ بند کرلیا، کسی کو بھی سامنے آنے ہی کی ہمت نہ ہوئی۔ بادشاہ نے وزیر سے مشورہ کیا کہ اس وقت کیا تدبیر کرنی چاہیے؟
وزیر نے کہا: ’’ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم جنگ کے تمام منصوبوں اور ارادوں کو ختم کرکے اس باہمت شخص کے سامنے شمشیر اور کفن لے کر حاضر ہوجائیں اور ہتھیار ڈال دیں‘‘۔
بادشاہ نے کہا: ”آخر وہ تنہا ایک شخص ہی تو ہے، پھر ایسی رائے مجھے کیوں دی جارہی ہے؟“
وزیر نے کہا: ’’آپ اس شخص کی تنہائی کو بے وقعتی کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔ ذرا آنکھ کھول کر قلعہ کو دیکھیے کہ سیماب کی طرح لرزاں ہے، اور اہلِ قلعہ کو دیکھیے کہ بھیڑوں کی طرح گردنیں نیچی کیے سہمے ہوئے ہیں۔ یہ شخص اگرچہ تنہا ہے لیکن اس کے سینے میں جو دل ہے وہ عام انسانوں جیسا نہیں۔ اس کی عالی ہمتی دیکھیے اتنی بڑی مسلح اکثریت کے سامنے تنہا شمشیرِ برہنہ لیے کس ثابت قدمی اور فاتحانہ انداز سے اعلانِ جنگ کررہا ہے۔ (اللہ اکبر) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب کی تمام فوجیں اس کے ساتھ ہیں، وہ تنہا بجملہ لاکھوں انسانوں کے برابر ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ قلعہ سے جو سپاہی بھی اُس کے مقابلے کے لیے بھیجا جاتا ہے وہ اس کے گھوڑے کی ٹاپ کے نیچے پڑا نظر آتا ہے۔ جب میں نے ایسی عظیم الشان انفرادیت دیکھ لی ہے، تو پھر اے بادشاہ! آپ کو اس اکثریت سے کچھ بھی نہ بن پڑے گا۔ آپ کثرتِ اعداد کا اعتبار نہ کریں، اصل چیز ’’جمعیتِ قلب‘‘ ہے، جو اس شخص کے دل میں بے پناہ ہے۔ یہ نعمت مجاہدات کے بعد تعلق باللہ کی برکت سے عطا ہوتی ہے۔ اس عطائے حق کو آپ اس حالت ِکفر میں ہرگز حاصل نہیں کرسکتے، لہٰذا فی الحال آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس جاں باز مردِ مومن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور قلعہ کا دروازہ کھول دیں۔ کیونکہ اس کے سامنے ہماری یہ اکثریت بالکل بے کار ہے‘‘۔
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مولانا رومؒ بعض اقلیت کے سامنے اکثریت کے تعطل اور ضعف کو ان چند مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ بے شمار ستارے روشن ہوتے ہیں لیکن ایک خورشیدِ عالم تاب کا ظہور سب کو ماند کردیتا ہے۔
بے شک چوہے ہزاروں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، اگر وہاں لاغر و نحیف بلی بھی آجائے تو چوہوں کی اکثریت غلبہ ہیبت و خوف سے بیک وقت مفرور ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک میائوں کو سنتے ہی ان کے کانوں میں اپنی مغلوبیت کی خوفناک ضربیں گونج اٹھتی ہیں۔ اس کے دانتوں اور پنجوں کی حرکاتِ جابرانہ ان کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چوہوں کے سینوں میں جو قلوب ہیں اور بلی کے سینے میں جو دل ہے اس میں فرق ہے۔ بلی کے دل میں جو جرأت اور ہمت ہے وہ چوہوں کے قلوب میں نہیں۔ چوہوں کی اتنی بڑی جماعت کا ایک بلی کے سامنے حواس باختہ اور ہوش رفتہ ہوجانا اس امر کی دلیل ہے کہ بلی کی جان میں جرأتِ قلبی کا پایا جانا ہی سبب ہے کہ چوہوں کی تعداد اگر ایک لاکھ ہو، تب بھی ایک لاغر و نحیف بلی کو دیکھ کر سب مفرور ہوجاتے ہیں۔ معلوم ہوا تعداد کوئی چیز نہیں… جرأت اور ہمت ہی اصل چیز ہے۔
بھیڑ اور بکریوں کی تعداد ہزاروں میں ہی کیوں نہ ہو، لیکن قصاب کی ایک چھری کے سامنے اتنی بڑی اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
جنگل میں بڑے بڑے سینگوں والے قدآور اور طاقت رکھنے والے جانور ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، مگر اکیلا شیر کتنی دلیری سے حملہ کرتا ہے اور ان پر غالب آجاتا ہے اور جس جانور کو چاہے ہلاک کردیتا ہے۔
درسِ حیات:٭جب نصرتِ الٰہی پر کامل یقین ہوجائے تو مومن کے دل سے مخلوق کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔
٭انسان دنیا میں بہت سے برے کام مختلف قسم کے خوف کی وجہ سے کرتا ہے، اگر خدا کی مدد پر یقین ِکامل ہوجائے تو انسان لاتعداد برائیوں سے بچ سکتا ہے۔