قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:۔
’’ایمان کی چند اوپر شاخیں ہیں، ان میں افضل لاالٰہ الااللہ کہنا ہے، اور کمتر ایذا کی چیز کا راستے سے دور کرنا ہے، اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔
(بخاری و مسلم)
جب جناب سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپؐ کی تشریف آوری سے کئی روز پہلے مشتاقانِ جمال شہر سے نکل کر راستے پر آبیٹھتے اور شام کو مایوسانہ واپس ہوجاتے۔ بہت انتظار اور بڑی آرزوئوں کے بعد جب آپؐ تشریف لائے، وہ دن ہی مدینہ کے لیے عید ہوگیا۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جس روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو آپؐ کے جمال سے مدینہ منورہ کا ذرہ ذرہ روشن ہوگیا۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی خوشی منا رہے تھے اور لڑکیاں مبارک باد کے یہ سیدھے سادے گیت گا رہی تھیں:۔
’’ثنیات الوداع سے ہم پر بدرِ کامل طلوع ہوا ہے، اس لیے خدا کا شکر ہم پر واجب ہوا‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سن کر ہر جانب سے لوگ دوڑے چلے آرہے تھے۔ ان میں انصار کا ایک نوجوان طلحہ بن براء بھی تھا۔ وہ بے اختیار آپؐ سے لپٹا جارہا تھا۔ اس نے آپؐ کے مبارک ہاتھوں کو خوب بوسے دیئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مجھے جو حکم دیا جائے گا اس پر مستعد پائیں گے‘‘۔ سرور کونینؐ اس کی نوعمری میں یہ پختگی دیکھ کر متبسم ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم اپنے والد براء کو قتل کردوگے؟‘‘
طلحہ یہ ارشاد سن کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’رک جائو۔ میں نے یہ بات تمہیں آزمانے کے لیے کہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے قطع رحمی کے لیے مبعوث نہیں فرمایا‘‘۔
چند ہی دنوں بعد یہ وفادار عاشقِ رسولؐ بیمار پڑگیا۔ بیماری نے ایسی شدت اختیار کی کہ زندگی کی امید نہ رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو اُس وقت اس پر جانکنی کی علامات طاری ہوچکی تھی۔ آپؐ نے اس کے اہلِ خانہ سے فرمایا کہ جب اس کا انتقال ہوجائے تو مجھے اطلاع دینا تاکہ میں اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے آجائوں، اور اس کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا، کیونکہ مسلمان کی میت کو گھر میں ڈالے رکھنا مناسب نہیں۔ بنی عمرو بن عوف کا یہ محلہ جس میں یہ انصاری نوجوان بیمار تھا، مدینہ منورہ سے تین میل دور مسجد قبا کے اطراف میں واقع تھا اور درمیان میں یہودی بستیاں واقع تھیں۔ اس نوجوان کی جس وقت وفات ہوئی تو رات ہوچکی تھی۔ وفات سے پہلے نوجوان طلحہؓ نے اہلِ خانہ سے کہا: ’’دیکھو! جب میں مرجائوں تو تم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میری موت کی اطلاع مت دینا کیونکہ رات کا وقت ہے اور درمیان میں دشمن یہودیوں کی بستیاں ہیں، مباداکہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائیں۔ اس لیے تم لوگ خود ہی میرا جنازہ پڑھ کر مجھے دفنا دینا‘‘۔
اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ نے طلحہؓ کی وصیت پر عمل کیا اور طلحہؓ کو رات ہی کو دفن کردیا۔
صبح کو محلے کے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور طلحہؓ کی وفات اور اس کی وصیت کے مطابق اس کی تدفین کی خبر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر طلحہ ؓ کی موت بالخصوص آپؐ کی حفاظت کے خیال سے آپؐ کو زحمت نہ دینے کی بات کا بہت اثر ہوا۔ آپؐ اسی وقت محلہ بنی عمرو تشریف لے گئے اور اہلِ محلہ کی معیت میں طلحہؓ کی قبر پر تشریف لے گئے۔ جب آپؐ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیئے تو سب لوگ آپؐ کے پیچھے صف بستہ کھڑے ہوگئے۔ آپؐ نے طلحہؓ کے لیے جو دعا فرمائی وہ اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ آپؐ نے فرمایا:۔
’’یااللہ! طلحہ کو ایسی حالت میں ملنا کہ تم اسے دیکھ کر ہنس رہے ہو اور وہ تم کو دیکھ کر‘‘۔
(ماخوذ از ’’اقرا ڈائجسٹ‘‘ کراچی)