میاں نواز شریف اور دوچہروں کی سیاست

۔”انقلابی تقریر“ سے پہلے خصوصی ایلچی کی آرمی چیف سے خفیہ ملاقات

میاں نوازشریف کے دو چہرے ہیں۔ ایک اصلی اور ایک نقلی۔ میاں نوازشریف کا ایک چہرہ وہ تھا جو جنرل ضیا الحق کو روحانی باپ کے طور پر دیکھتا تھا۔ میاں نوازشریف کا دوسرا چہرہ وہ تھا جس کو جنرل ضیا الحق کی مذمت کرتے ہوئے پایا گیا۔ میاں نوازشریف کا ایک چہرہ وہ تھا جو قاضی حسین احمد کو گھریلو تنازعات میں ثالث بناتا تھا۔ میاں نوازشریف کا دوسرا چہرہ وہ تھا جس نے قاضی حسین احمد پر دس کروڑ کھا جانے کا رکیک الزام لگایا۔ میاں نوازشریف کا ایک چہرہ وہ تھا جو طاہرالقادری کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے خانہ کعبہ کا طواف کراتا تھا اور ان سے پوچھتا تھا: کہیں آپ امام مہدی تو نہیں؟ میاں نوازشریف کا دوسرا چہرہ وہ ہے جس نے طاہرالقادری پر الزامات لگائے۔
چودھری شجاعت حسین کی خودنوشت کے مطابق میاں نوازشریف کا ایک چہرہ وہ تھا جس نے قرآن کو ضامن بناکر چودھری شجاعت کو یقین دلایا کہ ہم آپ سے کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ میاں نوازشریف کا دوسرا چہرہ وہ تھا جس نے بقول چودھری شجاعت کے، معاہدے کی کسی شق پر عمل نہ کیا۔ میاں نوازشریف کا ایک چہرہ وہ ہے جو خود کو ’’نظریاتی شخصیت‘‘ قرار دیتا ہے۔ میاں نوازشریف کا دوسرا چہرہ وہ ہے جو خود کو صرف ’’نظرآتی شخصیت‘‘ ثابت کرتا ہے۔ میاں نوازشریف کا ایک چہرہ وہ ہے جو جرنیلوں کو ’’خلائی مخلوق‘‘ قرار دیتا ہے۔ میاں نوازشریف کا دوسرا چہرہ وہ ہے جو نواز لیگ کے رہنمائوں کو رات کی تاریکی میں جرنیلوں سے ملاقات کے لیے بھیجتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں نوازشریف اسلامی اصطلاح میں ’’منافقِ کامل‘‘ ہیں۔ نفسیاتی اصطلاح میں کلام کیا جائے تو میاں نوازشریف Perfect Split Personality ہیں، یعنی ان کی شخصیت دو نیم ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں وہ کہتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں۔
اصول ہے:۔

باپ پہ پُوت پتا پر گھوڑا
زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا

چنانچہ میاں صاحب کی اولاد پر بھی میاں صاحب کی دو نیم شخصیت کا گہرا اثر ہے۔ یہ مریم نواز ہی تھیں جنہوں نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں بلند آواز سے کہا تھا کہ میرے پاس بیرونِ ملک کیا، ملک کے اندر بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ پھر دونوں جگہ ان کی جائداد یا اثاثے نکل آئے۔ اقبال یاد آگئے، انہوں نے فرمایا ہے ؎۔

اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

اپنے قول و فعل کے تضاد کا اعتراف اقبال جیسی بڑی شخصیت ہی کرسکتی ہے۔ میاں نوازشریف کا قصہ تو یہ ہے کہ وہ دو چہروں کی سیاست کو مسلسل آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ وہ کولہو کے بیل کی طرح کبھی دو چہروں کی سیاست کے دائرے سے نہیں نکلتے۔
میاں نوازشریف کی تازہ ترین واردات اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے۔ میاں نوازشریف نے دو سالہ ’’سرکاری چپ‘‘ کا روزہ توڑتے ہوئے کُل جماعتی کانفرنس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ میاں صاحب نے اگرچہ اپنے خطاب میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے خلائی مخلوق کی اصطلاح استعمال کرنے کی جرأت تو نہیں کی، مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر سخت حملے کیے۔ ان کے حملے اتنے شدید تھے کہ روزنامہ ڈان کے سوا کسی اخبار کو میاں صاحب کی تقریر کے اہم حصے شائع کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کو ’’متوازی حکومت‘‘ قرار دیا۔ میاں صاحب نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کہا کرتے تھے کہ ملک میں ریاست کے اندر ریاست کی صورتِ حال ہے، مگر میاں صاحب کے بقول اب معاملات اور بھی زیادہ ابتر ہوچکے ہیں، اب ملک میں ریاست سے بالا ریاست کی صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ عمران کو ’’لانے والوں‘‘ سے ہے۔ انہوں نے حمود الرحمٰن کمیشن کی سفارشات کو شائع کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی نہ آئی تو ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بار بار ہونے والی فوجی مداخلتیں ملکی مسائل کا سبب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے ہی فیصلہ ہوجاتا ہے کہ کون اقتدار میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 6 اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ جرنیلوں کی فوجی مداخلت کا راستہ روکا جائے، مگر اس آرٹیکل کے باوجود قوم کے30 سال فوجی مداخلتوں کی نذر ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک خصوصی عدالت نے ایک آمر (جنرل پرویز) کو سزا سنائی تو اس عدالت ہی کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ منتخب رہنمائوں کو یا تو قتل کردیا جاتا ہے، یا پھانسی لگا دی جاتی ہے، یا چور ثابت کردیا جاتا ہے۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ ان سے پوچھے کہ ان کے پاس جو اثاثے ہیں وہ کہاں سے آئے۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 21 ستمبر 2020ء)۔
میاں نوازشریف کی اس تقریر نے میاں صاحب کے صحافتی عاشقوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ خورشید ندیم تو اس تقریر سے اتنا نہال ہوئے کہ انہوں نے فرما دیا کہ اب پاکستانی سیاست کے ادوار کو دو حصوں میں بانٹا جائے گا، ایک حصہ وہ ہے جو میاں صاحب کی تقریر سے پہلے کا ہے، دوسرا حصہ وہ ہے جو تقریر کے بعد کا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے چند روز میں ثابت ہوگیا کہ میاں نواز شریف کی یہ تقریر بھی ان کے دو چہروں کی سیاست کا شاخسانہ ہے۔ اس تقریر سے پہلے میاں نوازشریف کے خصوصی ایلچی اور نواز لیگ کے رہنما محمد زبیر، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رات کی تاریکی میں دو ملاقاتیں فرما چکے تھے۔ بعد ازاں شہبازشریف اور خواجہ آصف بھی جنرل باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے مل چکے تھے۔ لیکن چونکہ ان ملاقاتوں سے میاں صاحب کو مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے، چنانچہ انہوں نے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ پر حملے کی ٹھانی۔ میاں صاحب کو ’’انقلابی تقریر‘‘ کرتے ہوئے اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ لندن میں موجود ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے لمبے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن یہ اس تقریر کے حوالے سے واحد اہم بات نہیں ہے، میاں نوازشریف کی اس تقریر کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی اس نے میاں نوازشریف ہی کو نہیں اُن کی پوری جماعت کے باطن کو عیاں کردیا۔ محمد زبیر کی آرمی چیف سے ملاقات کی خبر سامنے آئی تو مریم نواز نے اس کی تردید کی۔ مگر کچھ ہی دیر بعد خود محمد زبیر نے خبر کی تصدیق کردی، مگر انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ نوازشریف اور مریم نواز کے لیے کوئی ’’ریلیف‘‘ مانگنے کے لیے آرمی چیف کے پاس نہیں گئے تھے اور نہ ہی میاں نوازشریف نے انہیں جنرل باجوہ سے ملنے کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن اب میاں نوازشریف نے خود فرما دیا ہے کہ جرنیل کچھ ملاقاتوں کو تو خفیہ رکھتے ہیں اور کچھ ملاقاتوں کو عیاں کرکے مخصوص معنی ان سے وابستہ کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب آئندہ پارٹی کا کوئی رہنما جرنیلوں سے خفیہ ملاقات نہیں کرے گا۔ میاں نوازشریف کے اس بیان سے ثابت ہوگیا کہ محمد زبیر کی آرمی چیف سے ملاقات میاں نوازشریف کی مرضی سے ہوئی، اور اس سلسلے میں مریم نواز اور محمد زبیر دونوں نے جھوٹ بولا اور دو چہروں کی سیاست کا مظاہرہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دو چہروں کی سیاست صرف میاں نوازشریف کا نہیں، پوری نواز لیگ کا مسئلہ ہے۔ یعنی میاں نوازشریف نے دو چہروں کی سیاست کو اپنے پورے خاندان اور پارٹی کے لیے ’’سیاسی ورثہ‘‘ بنادیا ہے۔
میاں نوازشریف اور اُن کے خاندان نے پہلی بار اعلیٰ ترین سطح پر دو چہروں کی سیاست نہیں کی۔ ہر باشعور شخص کو اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کو قید کیا ہوا تھا اور کلثوم نواز اے آر ڈی، بالخصوص نواب زادہ نصراللہ خان کے ساتھ مل کر سیاست کررہی تھیں تو ایسا لگتا تھا کہ میاں نوازشریف بھی انقلابی ہیں، کلثوم نواز بھی انقلابی ہیں، نواز لیگ بھی انقلابی ہیّ مگر پھر میاں نوازشریف کے ’’سیاسی لواحقین‘‘ رات کی تاریکی میں جرنیلوں سے ملتے ہوئے پائے گئے، اور کلثوم نواز نے نواب زادہ نصراللہ خان کو ’’ڈیل‘‘ کی بھنک نہ لگنے دی۔ شریف خاندان جب جنرل پرویز سے ڈیل کرکے سعودی عرب پہنچ گیا تو کسی صحافی نے اس سلسلے میں نواب زادہ نصراللہ خان سے سوال کیا۔ نواب زادہ نصراللہ نے کہا کہ میں نے ساری زندگی سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی ہے، میرا خیال تھا کہ میاں نوازشریف بھی سیاسی رہنما ہیں، مگر وہ تو تاجر نکلے، انہوں نے جنرل پرویز کے ساتھ تاجر کی حیثیت سے ڈیل کی اور ملک سے فرار ہوگئے۔
اِس وقت میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ سے ایک نئی ڈیل کے لیے کوشاں تھے، مگر ڈیل نہ ہوسکی تو انہوں نے ایک انقلابی تقریر کر ڈالی۔ لیکن بات صرف اتنی سی نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح محمد زبیر اور آرمی چیف کی ملاقاتوں کا ’’انکشاف‘‘ کیا ہے، اس سے اسٹیبلشمنٹ کی ’’طاقت‘‘ نہیں بلکہ اس کی ’’کمزوری‘‘ ظاہر ہوئی۔ میاں نوازشریف کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کی ایک کمزوری یہ ہے کہ میاں نوازشریف نہ بنگالی ہیں، نہ سندھی ہیں، نہ مہاجر ہیں، نہ پشتون ہیں، نہ بلوچی ہیں۔ میاں صاحب پنجابی ہیں۔ میاں صاحب پنجابی نہ ہوتے اور ان کے ’’کارنامے‘‘ یہی ہوتے جو اُن سے منسوب ہیں تو اسٹیبلشمنٹ ان کا جن بچہ کولہو میں پلوا چکی ہوتی۔ لیکن میاں صاحب پنجابی ہیں۔ خورشید ندیم کے بقول وہ پنجابی عصبیت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ اتفاق سے فوج کی قوت کا مرکز بھی پنجاب ہے، چنانچہ اسٹیبلشمنٹ میاں صاحب سے ایک حد تک خوف زدہ ہے، چنانچہ وہ عرصے سے میاں نوازشریف، ان کے خاندان اور ان کی جماعت کو “Manage” کرنے کے لیے کوشاں ہے، “Eliminate” کرنے کے لیے کوشاں نہیں ہے۔ اسے ڈر ہے کہ میاں صاحب اور ان کے خاندان کو سیاست سے یکسر طور پر بے دخل کیا گیا تو پنجاب میں شدید عوامی ردعمل پیدا ہوسکتا ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے۔
میاں نوازشریف کی ’’انقلابی تقریر‘‘ کے حوالے سے ایک امکان یہ بھی ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ کے کسی طاقت ور ’’شخص‘‘ یا ’’گروہ‘‘ نے میاں صاحب کو سخت تقریر پر مائل کیا ہو۔ اس سلسلے میں امریکہ اور سعودی عرب کے ’’ہشکارے‘‘ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ یہ ہے کہ وہ ماضی میں تقسیم ہوتی رہی ہے۔ جنرل ایوب مردِ آہن تھے، مگر جنرل یحییٰ نے ان کے خلاف سازش کی۔ وہ ایک دن فوج کے کئی سینئر لوگوں کو لے کر جنرل ایوب کے پاس پہنچے اور کہا: جنابِ صدر اب آپ کو جانا ہوگا۔ جنرل ضیاالحق کے طیارے کے حادثے کے وقت بھی اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہوچکی تھی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جنرل پرویز کے خلاف جو وکلا تحریک چلی اُس کی پشت پر جنرل اشفاق پرویز کیانی موجود تھے۔ چنانچہ ممکن ہے کہ میاں نوازشریف کو بھی سخت تقریر کرنے پر اسٹیبلشمنٹ کے کسی اہم فرد یا افراد نے مائل کیا ہو۔ حقیقت کیا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا، لیکن یہ بات طے ہے کہ میاں صاحب کی تقریر حقیقی معنوں میں انقلابی تقریر نہیں۔
یہ امر عیاں ہے کہ کُل جماعتی کانفرنس نے عمران خان سے نجات حاصل کرنے کے لیے چار مہینے کا وقت مقرر کیا ہے۔ پہلے جلسے ہوں گے، پھر ریلیاں ہوں گی، پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا۔ کچھ کرنے والے اتنا لمبا منصوبۂ عمل تشکیل نہیں دیتے، البتہ اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہوچکی ہو، یا ہونے والی ہو تو دوسری بات ہے۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان کا ’’متبادل‘‘ اقتدار میں میاں نوازشریف کی واپسی ہے؟ اس خیال ہی سے کروڑوں لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔