آئی سی آئی جے کی رپورٹ تحقیقی صحافت کے نام پر ایک سیاسی کھیل ہے

ٹیکسوں کا نظام غیر منصفانہ ہے

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا فرائیڈے اسپیشل سے اظہار خیال

فرائیڈے اسپشیل۔ موجودہ حکومت نے چند روز قبل دوائوں کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ کیا ہے۔ آپ ماہرِ اقتصادیات کی حیثیت سے اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ جی، اس کی جو توجیہ پیش کی گئی ہے وہ قطعی ناقابلِ فہم ہے۔ حکومت کے ترجمان کے مطابق یہ اضافہ اس لیے کیا گیا ہے کہ: 1۔ مارکیٹ میں دوائیں آسانی سے مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں۔ 2۔ اسمگلنگ نہ ہو۔3۔ ذخیرہ اندوزی نہ ہو۔4 ۔مصنوعی قلت پیدا نہ ہو اور دوائیں معیاری ہوں۔ یعنی غیر معیاری دو نمبر اور جعلی دوائیں نہ ہوں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو وہ ذمہ داریاں ہیں جو کہ حکومت کو ہر حال میں نبھانی ہیں، اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے نرخوں میں اضافہ ضروری ہے۔ آپ نے تو بے بسی کا اظہار کردیا کہ نہ تو ہم اسمگلنگ روک سکتے ہیں، نہ ملاوٹ روک سکتے ہیں، نہ ذخیرہ اندوزی روک سکتے ہیں… اور قیمتوں کے اضافے سے ان تمام امور کو مشروط کردیا۔ یہی چیز اب سے بہت پہلے پرویزمشرف کے دور میں بھی ہوئی تھی کہ چینی کے سنگین بحران میں وزرا ملوث تھے، اس کے دستاویزی ثبوت بھی موجود تھے، جبکہ نیب نے کہا تھا کہ اس کی تحقیقات ہوگی، تو میں نے اُس وقت یہ لکھا تھا کہ نیب اگر تحقیقات کرلے تو اس کے پچھلے گناہ دھل جائیں گے۔ مگر چوبیس گھنٹوں میں نیب نے کہا کہ ہم اس کیس سے دست بردار ہورہے ہیں کیونکہ ہماری تحقیقات سے چینی مزید مہنگی کردی جائے گی۔ وہی منطق جو پرویزمشرف کی فوجی حکومت نے اپنائی تھی آج تحریک انصاف نے اپنا لی ہے۔ اگر حکومتی رٹ کے بجائے یہ کام بھی عوام سے اضافی پیسے وصول کرکے کرنا ہے تو پھر حکومت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے! یہ سنگین صورت حال ہے۔ حکومت کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت طاقتور مافیاز کے سامنے بے بس ہے۔ مہنگائی کو اگر کم کرنا ہے تو اس کے لیے اسٹرکچرل اصلاحات ناگزیر ہیں، ورنہ بہت زیادہ مشکلات آئیں گی۔
فرائیڈے اسپشیل۔حکومت معاشی صورت حال پر قابوکیوں نہیں پارہی، اسے کیا کرنا چاہیے جو وہ نہیں کررہی ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ پاکستان میں افراطِ زر عموماً اونچی رہتی ہے جبکہ معیشت کی شرح نمو عموماً سست رہتی ہے۔ افراطِ زر کی اونچی شرح کو ہم عوام پر ظالمانہ ٹیکس بھی کہتے ہیں۔ اگر ہم اس کی وجوہات پر نظر ڈالیں تو پہلی بات یہ ہے کہ ٹیکسوں کا نظام ملک میں غیر منصفانہ ہے۔ یہ طاقتور طبقات کو بے تحاشا چھوٹ اور مراعات دیتا ہے، ٹیکسوں کی چوری بھی ہوتی ہے، انتہائی کم شرح ٹیکس پر بار بار ٹیکس ایمنسٹی بھی دی جاتی ہے، اور ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد نہ کرنے کی وجہ سے جو کہ تینوں بڑی پارٹیوں کا منشور بھی ہے، عوام پر بلاواسطہ ٹیکس بھی لگائے جاتے ہیں، جبکہ شاہانہ اخراجات بھی ہوتے ہیں، کرپشن بھی بے قابو ہے جو افراطِ زر میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے پاکستان کا بجٹ خسارہ عموماً اونچا رہتا ہے جس کو پورا کرنے کے لیے ملکی و غیر ملکی قرضے لیے جاتے ہیں، حکومت اسٹیٹ بینک سے بھی بڑے پیمانے پر قرضہ لیتی ہے جو کہ مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ ٹیکس چوری کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے بجلی، گیس کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں اور پیٹرولیم مصنوعات پر اونچی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی لیا جاتا ہے جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے، ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھتے ہیں، اجناس اور ضروری اشیائے خوردنی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ برآمدات چونکہ متاثر ہوتی ہیں مختلف وجوہات کی بناپر، لہٰذا روپے کی قدر میں بار بار کمی واقع ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک عموماً اونچی شرح سود رکھتا ہے جس میں آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، اسمگلنگ اور عموماً خراب طرزِ حکمرانی بھی مہنگائی کا سبب بنتے ہیں۔ بینک اپنا اسپیرٹس بہت اونچا رکھتے ہیں، یعنی جو اوسط شرح سود کھاتے داروں کو دیتے ہیں اور جو قرضوں پر لیتے ہیں اس کا فرق بہت زیادہ ہے، جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ پھنسے ہوئے قرضوں کا حجم بھی بہت زیادہ ہے جس پر بینک کو سود نہیں ملتا، اور بینک نجی شعبوں کے بجائے حکومتی تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتے ہیں جو کہ بجارتی بینک کے اصول کے خلاف ہے، مگر اسٹیٹ بینک کی زیر نگرانی یہ تباہ کن کام بھی جاری ہے۔ مہنگائی کے بڑھنے میں مافیاز کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ بدقسمتی سے نجی شعبے کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، اور یہ نجی شعبے ریاست اور ریاستی اداروں بشمول ریگولیٹرز مثلاً اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، ایس ای سی پی، نیپرا، پیمرا وغیرہ پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں، اور ان سب ملکی مافیاز کا بیرونی مافیاز سے بھی گٹھ جوڑ ہے، یعنی آئی ایم ایف اور استعماری قوتیں وغیرہ۔ ملک کے اندر جو ناجائز اثاثے ہیں جن سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے فائدہ نہیں اٹھایا گیا اُن پر قانون کے مطابق حکومت ٹیکس لے سکتی ہے۔ جو اثاثے ملک کے اندر موجود ہے اُن پر بھی ٹیکس لے سکتی ہے جو کہ قانون کے مطابق اس کی ذمہ داری بھی ہے کہ ان سے ٹیکس لے، مگر طاقتور طبقوں کے دبائو پر حکومت اس میں دلچسپی نہیں لیتی۔ اس کے علاوہ ترسیلات کو بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے، اس کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس(4) 131 بھی برقرار رکھا ہے جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا ہے، بجٹ خسارہ بڑھتا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جاری حسابات کو کم کرنے کے لیے ترسیلات کو استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، یہ معیشت کی تباہی کا سبب بھی بنتا ہے اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اہم مقدمات کا اعلیٰ عدلیہ بشمول وفاقی شرعی عدالتوں میں لمبے عرصے تک زیر التوا رہنا اور نیب کی ناقص کارکردگی بھی معیشت کے زوال اور مہنگائی کا سبب بنتی رہی ہے۔
فرائیڈے اسپشیل۔ پچھلے دو برسوں میں بجلی اور گیس کے نرخ خصوصاً تیزی سے بڑھے ہیں، اس کی وجوہات کیا ہیں ؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی :۔اس کی وجوہات میں جنرل سیلز ٹیکس کی اونچی شرح، پیٹرولیم لیوی، بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں لائن کے نقصانات وغیرہ شامل ہیں جس کی وجہ سے پیداواری لاگت بھی بڑھتی ہے۔ حکومت اس پیداواری لاگت میں اضافہ جو کہ لائن لاسز اور کرپشن کے باعث ہے، اس کا ایک حصہ عوام کو زرِ اعانت کے طور پر دے دیتی ہے اور بڑا حصہ سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ) کی طرف چلا جاتا ہے جو کہ کئی سو ارب ہوتا ہے جو کہ بالآخر عوام کو منتقل ہوجاتا ہے۔ تکنیکی طور یہ بات بالکل غلط ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں یہ اضافہ بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہے۔1993ء تک جو بھی قرضے آئی ایم ایف سے لیے گئے جو کہ سات مرتبہ لیے گئے، بنیادی طور پر آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بجٹ خسارہ آپ کم کریں۔ یہ ان کی شرطِ اول ہے۔ اس کے لیے طریقہ یہ ہے کہ آپ ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگائیں اور غیر پیداواری اخراجات کم کریں جو تینوں پارٹیوں کا منشور بھی ہے، لیکن وہ مذاکرات میں ہر بار آئی ایم ایف سے کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر یہ ممکن نہیں، چنانچہ آسان راستہ یہ ہے کہ بلاواسطہ ٹیکس بڑھادیئے جائیں، جنرل سیلز ٹیکس کی شرح اونچی کردی جائے، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ میں اضافہ کیا جائے، ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔
اب حکومتیں جب قرضہ لیتی ہیں توآئی ایم ایف کو خط ارسال کرتی ہیں، یعنی قرضہ کی درخواست… اور اس میں وہ خود یہ کہتی ہیں کہ جناب ہم توانائی اور دوسرے شعبوں میں سبسڈیز اور زرِ اعانت کو واپس لیں گے۔ اگر وہ ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگانے کے لیے تیار ہوجائیں تو یہ نہ کرنا پڑے۔ ہمیں قرضہ آئی ایم ایف سے جولائی میں ملا ہے لیکن 12جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ 2020ء میں 350بلین کی سبسڈی دی گئی، جبکہ2021ء میں 209بلین کی سبسڈی رکھی ہے۔ یہ حکومت نے خود ہی کہا کہ ہم سبسڈی کو واپس لیں گے جس کا بڑا حصہ توانائی کی طرف چلا گیا، دوسرا ٹیکسوں کے اہداف حاصل نہ ہونے کی صورت میں بھی عموماً کوشش کی جاتی ہے کہ یہ اہداف بھی پیٹرول، بجلی اور گیس سے پورے کیے جائیں۔ ایک اور بات، اگر ہم اِس سال کی بجٹ تقریر کو دیکھیں تو اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ہم ٹیکسوں میں بنیادی طور پر جو مراعات دے رہے ہیں وہ ہیں ایک ہزار 473ارب روپیہ مالی سال 2020ء کے لیے، لیکن 2018ء میں یہ دی گئی تھیں 541 ارب روپے، جو کہ 2018ء کے مقابلے میں 900 ارب اضافی ہیں، تو اس اضافے کا نقصان بھی کہیں سے تو پورا ہوگا، یہی مسئلہ ہے۔ اگر آپ ٹیکس ایزمشن کم کریں اور ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگائیں تو زرِاعانت واپس لینے کے بجائے صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ہی تیس روپے فی لیٹر تک کمی کی گنجائش ہے۔ لیکن حکومت ٹیکس چوری کے نقصانات پورے کررہی ہے جو کہ بنیادی طور پر زرِ اعانت واپس لینے کی اصل وجہ ہے۔
فرائیڈے اسپشیل آپ نے آئی سی آئی جے کی رپورٹ دیکھی ہوگی کہ پاکستان کے 6 بینک 2011ء سے 2012ء کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ڈالر کی منی لانڈرنگ میں شامل رہے ہیں۔ اس رپورٹ کوآپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ منی لانڈرنگ کے جو زبردست اور جھوٹے الزامات لگانے کی بات ہورہی ہے انویسٹیگیٹو جرنلسٹ کی طرف سے، یہ تو ایک سازش ہے اور اس کا مقصد ایف اے ٹی ایف کو متاثر کرنا ہے جو ابھی چند دنوں بعد پاکستان کا کیس دیکھنے والا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس میں سیاست ہورہی ہے، اور اگر حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو اس رپورٹ کی اہمیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں 6 پاکستانی بینک شامل ہیں۔ 2011ء اور 2012ء کے یہ کیسز ہیں۔ اس کے بعد تو پاکستان نے بہت سارے قانون بدلے ہیں منی لانڈرنگ کے بھی اور دہشت گردوں کو مالی معاونت کے بھی۔ ایف اے ٹی ایف کو بھی ہم نے پوری تفصیلات بتادی ہیں، اور پاکستان میں اتنا زبردست کنٹرول کیا گیا ہے کہ پاکستان کے جو ڈیپوزیٹر ہیں اور جو بینکوں میں پیسہ رکھتے ہیں وہ پریشان ہونا شروع ہوگئے ہیں کہ ہم بینک میں پیسہ رکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم مجرم ہیں۔ اس پہلو کے ساتھ رقم اتنی کم ہے 2.5 ملین ڈالر، اس میں سے 1.9ملین ڈالر تو باہر سے آئے ہیں۔ یہاں سے جو گئے ہیں ان کے مطابق500000 ڈالر ہیں۔ اگر آپ یہ دیکھیں جو پاکستان کا بینک نیٹ ورک ہے اس سے 22 ارب ڈالر کی تو ٹرانزیکشن ہورہی ہیں ترسیلات کی، امپورٹ ایکسپورٹ الگ ہے۔ یہ جو 6بینک ہیں ان میں4 وہ بینک ہیں جن کی ملکیت پاکستان سے باہر ہے۔ ہمارے پاکستانی اونر کے نام 2 ہی بینک ہیں، باقی جو4 بینک ہیں ان میں سب سے بڑا تو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک ہے جس پر عالمی سطح پر بھی چارج لگا ہے۔ ایک طرف تو آپ یہ کہتے ہیں پچھلے 17برسوں میں دنیا میں 2000ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوئی ہے جس میں170ملکوں کے لوگ شامل ہیں، اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو 2011-12ء میں ہماری بہت چھوٹی رقم بنتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ humanly possible ہی نہیں ہے کہ یہ بالکل ختم کیا جا سکے۔ اب حوالہ ہے، ہنڈی ہے، اوور انوائسنگ ہے۔ جتنی انسانی کوششیں ہوسکتی ہیں حکومتِ پاکستان نے کیں۔ قوانین بدلے، قوانین کو غیر ضروری حد تک سخت کیا گیا، تاکہ ہم ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرسکیں۔ اس سے ہماری deposit growth بھی متاثر ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ اتنی چھوٹی رقم یہاں سے گئی ہے ان کے مطابق، اور یہ مشکوک ہے۔ مشکوک کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ثابت ہوگیا ہے، بلکہ ابھی ثابت ہونا ہے۔ مجھے 100فیصد یقین ہے کہ اس میں تحقیقاتی صحافت کے نام پر ایک سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس میں بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں جو کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا جائے۔ یہ سازش ختم ہوگئی، ناکام ہوگئی کہ خدانخواستہ کوئی طاقت ہمیں بلیک لسٹ کرسکتی ہے، یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ ہم نے اتنے زیادہ اقدامات اٹھا لیے ہیں جس میں یہ کہا جارہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہورہی ہیں ان قوانین سے۔ مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ بالکل ٹرانسپیرنٹ رہیں۔ اگر اس کے بعد اس قسم کی چیزیں آتی ہیں تو میرے خیال سے ایف اے ٹی ایف میں جو عالمی ماہرین ہیں وہ اس چیز کو سمجھیں گے کہ یہ احمقانہ انویسٹی گیٹیو جرنلزم ہے اورسازش ہے۔ ہم تو اتنی زیادہ احتیاط کررہے ہیں، کوششیں ہورہی ہیں، وزیراعظم کا سیل بنا ہوا ہے۔ Financial Monitoring Unit بنایا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ٹرانزیکشن کو دیکھتا ہے جو پاکستان سے باہر جاتی اور آتی ہیں، لوگ پیسہ جمع کرتے ہیں اکائونٹس میں وہاں تک۔ اگر میں اپنے اکائونٹ میں بڑی رقم جمع کرائوں پاکستانی روپے میں تو اس کو بھی چیک کیا جارہا ہے۔ میرے خیال سے اس کو رد کردینا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم مزید کوششیں نہیں کریں گے۔ جتناانسانی بس میں ہے اتنا ہم کریں گے، لیکن دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، اور پاکستان کا جو سائز ہے اس کے لحاظ سے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سازش کے سوا میں اس کو کوئی اور اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ مگر ہم احتیاط کریں گے، قوانین مزید سخت بنائیں گے۔
فرائیڈے اسپشیل کیا یہ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے عمل کو ناکام بنانے کی کوشش یا سازش ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ میرے خیال سے یہ والا جو عنصر ہے یہ تو اثر انداز نہیں ہوگا، اس لیے کہ وہاں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ تو بہت چھوٹی رقم ہے۔ دوسرا یہ کہ 2011-12ء کے بعد جوگرے لسٹ میں ڈالا گیا ہے جون 2018ء میں… یہ چیزیں تو اس سے 7سال پہلے کی ہیں۔ میرا نہیں خیال اس کا وہاں کوئی اثر ہوگا۔ FATF کا جو ایشیا پیسیفیک گروپ ہے بھارت اس کا وائس چیئرمین ہے تو وہ کوشش کرے گا کہ خدانخواستہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالے، جس کو ردکرنا پڑے گا۔ لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ اس کیس سے قطع نظرگرے لسٹ میں رکھنے پر غور ہوسکتا ہے۔ یہاں سے منی لانڈرنگ کی Figuresتو نہیں دی ہیں۔ آپ ہنس کر اس کاغذ کو پھینک سکتے ہیں کہ یہ کیا مذاق ہے! ہمیں سنجیدہ ہونا پڑے گا، دنیا کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ دنیا کے امن کے لیے، دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ملک کو منی لانڈرنگ روکنے کی کوشش کرنی ہے۔ محض پاکستان کے کرنے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ اگر وہ کہتے ہیں 1.9ملین ڈالر کی رقم آئی ہے تو بھیجی تو کسی اور ملک نے ہے ناں، اگر یہاں سے گئی ہے تو کسی نے اس کو محفوظ راستہ بھی تو مہیا کیا ہے ناں۔ اگر کسی بینک سے گئی ہے تو اس نے کیوں محفوظ راستہ فراہم کیا؟ یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر مشترکہ کوششیں دنیا کے ممالک کو، ایف اے ٹی ایف کو، اقوام متحدہ کو کرنی ہوں گی۔ الزام تراشی کی سیاست کو رد کرنا ہوگا۔
فرائیڈے اسپشیل۔اب ایک اور خبر آئی ہے کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ ہورہی ہے، جس میں حکومت کی سرپرستی شامل ہے۔ اس کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ جی ہاں جو بات سنگین ہے وہ یہ کہ اب جو رپورٹس سامنے آئی ہیں ان کے مطابق بھارت میں بینکوں میں بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ ہورہی ہے جس میں حکومت کی سرپرستی شامل ہے۔ بھارت میں جو منی لانڈرنگ ہے وہ دنیا کے دوسرے ملکوں سے مختلف ہے۔ منی لانڈرنگ میں عام طور پر کالا دھن سفید ہوتا ہے، لیکن بھارت میں حکومت کی سرپرستی میں جو منی لانڈرنگ ہورہی ہے وہ اس لیے ہے کہ کشمیر میں اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کو ہوا دی جائے۔ دہشت گردی کو بڑھانے اور کشمیر کی جنگِ آزادی کو دبانے کے لیے منی لانڈرنگ کی جارہی ہے۔ بھارت نے تو کھیلوں کے شعبے کو بھی نہیں بخشا۔ اس قسم کی منی لانڈرنگ انڈین پریمیئر لیگ نے کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایف اے ٹی ایف کو اس پر نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو فوری طور پر گرے لسٹ میں ڈال کر اس کی تحقیقات کرنی چاہیے، اور پاکستان کو اپنے حالیہ اجلاس میں بھارت کے دبائو کے باوجود گرے لسٹ سے خارج کردینا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ ہمیں اس فہرست سے نکال کر واچ لسٹ میں رکھ لیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ بھارت یہ کوشش ضرور کرے گا کہ ایف اے ٹی ایف ایشیا پیسفک کے وائس چیئرمین کے طور پر اپنا منفی کردار ادا کرسکے۔