آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنوکارا باخ تنازع کیا ہے؟

ترک آرمینیا روایتی چپقلش دوبارہ ابھرتی نظر آرہی ہے

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ کے قریب جھڑپیں شدت اختیار کرگئی ہیں۔ نگورنو کاراباخ ہے تو آذربائیجان کا حصہ، لیکن یہاں آباد آرمینیائی نسل کے لوگوں اور وفاقی حکومت میں آزادی کے وقت سے چپقلش چلی آرہی ہے۔ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ شرپسندی اور فساد میں ان کا مغربی پڑوسی آرمینیا ملوث ہے۔ یہ مسئلہ ہے کیا اس پر چند سطور:۔
نگورنو کاراباخ، جنوبی کوہ قاف کے 1700 مربع میل پر مشتمل دبیز جنگلوں سے گھرا پہاڑی علاقہ ہے جہاں ڈیڑھ لاکھ نفوس آباد ہیں۔ آرمینیائی مسیحیوں کا تناسب 90 فیصد ہے جبکہ آبادی کا 9 فیصد حصہ تاتار نسل کے ترک مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں آباد آرمینیائی، نگورنو کاراباخ کو ارتکش (Artkash)اور اپنے ملک کو آرتکش ریپبلک کہتے ہیں۔ تاتاریوں کا اصرار ہے کہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا حصہ ہے۔ وفاقی حکومت نے نگورنو کاراباخ کو خودمختار حیثیت دے رکھی ہے اور اسے آرتکش ریپبلک کے لفظ پر بھی اعتراض نہیں، لیکن صدیوں پرانی آرمینیا ترکی آویزش وقتاً فوقتاً خونزیز جنگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
آرمینیائیوں کی تجویز ہے کہ نگورنو کاراباخ کو آرتکش اور آزاد تاتار ریپبلک میں تقسیم کردیا جائے۔ اور تاتاروں کو اس جانب مائل کرنے کے لیے سنی شیعہ کارڈ بھی کھیلا گیا۔ آذربائیجان میں شیعوں کی اکثریت ہے لیکن تاتار اپنی سنی ریاست کے لیے آذربائیجان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں۔
بحیرہ کیسپین (Caspian Sea) کے کنارے مشرقی روس اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع ایک کروڑ افراد پر مشتمل سو فیصد خواندہ آذربائیجان کی اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جہاں فرقہ وارانہ تعصب نام کو بھی نہیں۔ اکثر مساجد میں ترکی کے سنی علماء امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور شیعہ ان کی مجلسیں بہت شوق سے سنتے ہیں۔ مساجد نماز اور مذہبی امور کے علاوہ شادی بیاہ کی تقریبات اور دوسری سماجی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں، ہر مسجد کے ساتھ مکتب اور دارالمطالعے ہیں۔ ایک عمدہ بات یہ کہ مساجد کی لائبریریوں میں ہر مسلک کی مستند کتابیں رکھی جاتی ہیں، اور مذہبی رجحان رکھنے والے افراد تمام مکاتبِ فکر کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین دار آذری مسلمانوں میں رواداری اور برداشت بہت زیادہ ہے، اور پاکستان کی طرح یہاں فتوے بازی کا رواج نہیں، اور نہ ہی مسلکی تعصب پایا جاتا ہے۔ اسی رواداری کا نتیجہ ہے کہ نگورنو کاراباخ کے سنی تاتار، آذربائیجان کے شیعوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔
پندرھوں صدی میں یہ علاقہ ترک قبائلی سرداروں کے زیرانتظام تھا۔ پہلی جنگ ِ عظیم میں عثمانیوں کی شکست کے بعد نگورنو کاراباخ سلطنتِ برطانیہ کا حصہ بن گیا۔ سوویت یونین کے قیام کے بعد خودمختار صوبہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان سوویت سوشلسٹ ریپبلک کا حصہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جوزف اسٹالن کو نگورنو کاراباخ سے دلچسپی نہیں تھی اور وہ اسے آرمینیا کے حوالے کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں ڈر تھا کہ کہیں ترکی اس پر قبضہ نہ جمالے، اس لیے انھوں نے نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ بنادیا۔ آذربائیجان پر روس کے قبضے کی دلیل و منطق بہت خوب ہے۔ جب لینن سے پوچھا گیا کہ انھوں نے آذربائیجان پر قبضہ کیوں کیا؟ تو موصوف نے معصومیت سے فرمایا کہ ”باکو (دارالحکومت) سے نکلنے والے تیل کے بغیر روسی ریاست کی بقا ناممکن ہے۔“
سوویت یونین کے وقت تک تو معاملہ ٹھیک رہا، لیکن افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کی تحلیل پر جب آذربائیجان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو آرمینیائی نسل کے لوگوں نے نگورنو کاراباخ کے آرمینیا سے الحاق کا مطالبہ کردیا۔ 1988ء میں نگورنوکاراباخ اسمبلی نے آزادی کی قرارداد بھی منظور کرلی جسے آذربائیجان نے ترنت مسترد کردیا۔ اسی کے ساتھ تاتار بھی میدان میں آگئے۔ خونریز تصادم میں کئی آرمینیائی اور تاتاری مارے گئے۔ نومبر 1989ء میں روسیوں نے نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ بنادیا۔ نومبر1991ء میں ریپبلک آف آذربائیجان کے قیام پر نگورنو کاراباخ کی صوبائی حیثیت ختم کرکے علاقے کو وفاق کے زیرانتظام لے لیا گیا۔ اعلان کے ایک ماہ بعد آرمینیائی آبادی نے آزادی کے سوال پر استصواب رائے منعقد کیا جس میں علیحدگی پسندوں کے مطابق غالب اکثریت نے آزادی کے حق میں رائے دی۔ تاتاروں نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور آذری حکومت نے ریفرنڈم کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد سے نگورنوکاراباخ اور آرمینیائی باشندوں کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے، اور اکثر یہ کشیدگی خونریز جھڑپوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ آبادیوں پر حملوں میں جانی و مالی نقصان کے علاوہ ایک دوسرے کو ان کے مکانوں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے،اور دونوں جانب کے ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ آرمینیا کا دعویٰ ہے کہ ایک چوتھائی نگورنو کاراباخ کا علاقہ آرمینیائی ”مجاہدین“ نے ”آذری غاصبوں“ سے آزاد کرا لیا ہے۔ اسی کے ساتھ ترکی اور آرمینیا کے مابین کشیدگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ انقرہ الزام لگا رہا ہے کہ کرد دہشت گرد گروپ YPG نہ صرف آرمینیا کے دہشت گردوں کو تربیت دے کر نگورنو کاراباخ کی طرف دھکیل رہا ہے بلکہ کرد دہشت گرد خود بھی براہِ راست کارروائی کررہے ہیں۔ دوسری طرف آرمینیا کو شکایت ہے کہ ترک فوج تاتاروں کو تربیت دے کر انھیں آرمینیائی باشندوں پر حملے کے لیے شہہ دے رہی ہے۔ آذری حکومت کا خیال ہے کہ روس آرمینیائی علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ ایک طرف روس آرمیینا کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے تو دوسری طرف کریملن نے تنازعے کے حل کے لیے ثالث کی ٹوپی بھی سر پر سجا رکھی ہے، گویا کریملن کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں۔
روس اور ترکی کی کوششوں سے مئی 1994ء میں وفاقی حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد جنگ بندی ہوگئی، اور اس کے بعد سے نگورنوکاراباخ کا کنٹرول عملاً آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے پاس ہے، تاہم تاتار علاقوں پر اب بھی آذری پرچم لہرا رہے ہیں۔ 1988ء سے 1994ء کی جنگ بندی سے قبل جھڑپوں میں دونوں طرف کے 30 ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ جنگ بندی اور غیر تحریری امن معاہدے کے باوجود تصادم کا سلسلہ جاری ہے۔ آرمینیا الزام لگا رہا ہے کہ صدر الحان علیوف ”مفاہمت“ کی خلاف وزری کرتے ہوئے ترکی کی مدد سے نگورنوکاراباخ پر قبضے کے لیے مقامی آبادی کا قتل عام کررہے ہیں۔
۔4 سال پہلے بھی نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان خوفناک تصادم ہوا تھا جس میں ہیلی کاپٹر اور ٹینک بھی استعمال ہوئے۔
حالیہ جنگ کا آغاز 27 ستمبر کو ہوا جس میں 58 آرمینیائی سپاہی اور 9 شہری مارے گئے۔ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں آذری فوج کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ آرمینیا نے الزام لگایا کہ آذری فوج نے نگورنو کاراباخ کے شہری علاقوں پر بمباری کی اور ٹینکوں نے کئی شہریوں کو کچل دیا۔ آرمینیا کے وزیراعظم نکول پاشنيان نے آذربائیجان کے ہیلی کاپٹر گرانے اور ٹینک تباہ کرنے کا دعوٰی بھی کیا، لیکن آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس نے گولہ باری کے جواب میں کارروائی کی ہے۔ آذربائیجانی فوج نے اپنے ایک ہیلی کاپٹر کی تباہی کا اعتراف کرتے ہوئے جو تصاویر جاری کی ہیں ان میں آرمینی فوج کی بکتربند گاڑیاں جلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ آذری فوج کا کہنا ہے کہ آرمینی فوج کی گولہ باری سے تاتار شہری مارے گئے۔ صدر علیوف نے دعویٰ کیا کہ نگورنو کاراباخ کے علاقے میں آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے فضائی نظام کو مفلوج کردیا گیا ہے اور 6 دیہات دشمن سے چھین لیے گئے ہیں۔ انھوں نے پُراعتماد لہجے میں کہا کہ جنگ آرمینیا نے شروع کی ہے جس کا اختتام آذری فوج کی مکمل فتح پر ہوگا۔ صدر الحان علیوف نے کہا کہ وہ اپنی مقدس سرزمین کا قبضہ واپس لینے کے لیے پُراعتماد ہیں۔ قوم سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ہم اپنے معصوم ”شہیدوں“ کے قتل کا بدلہ لیں گے اور ہماری جوابی کارروائی علاقے پر دہشت گردوں کے 30 سالہ قبضے کا جنازہ نکال دے گی۔ جناب علیوف ایک سکہ بند سیکولر ہیں۔ اس قدر مذہب بیزار کہ انھوں نے اسکول کی طالبات کے اسکارف اوڑھنے پر پابندی لگا رکھی ہے، لیکن آذری صدر نے اپنی تقریر میں شہدا کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان شااللہ و نصرمن اللہ فتح قریب کا ورد کرتے رہے۔

جب دیا رنج بتوں نے خدا یاد آیا

آرمینیا نے دیہات پر آذری فوج کے قبضے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی جاری ہے، اور اسی کے ساتھ ملک میں مارشل لا اور لام بندی کا اعلان کردیا گیا۔ آذربائیجان نے بھی اپنے کچھ علاقوں میں مارشل لا نافذ کردیا ہے۔
اس جھگڑے کے ساتھ ہی ترک آرمینیا روایتی چپقلش دوبارہ ابھرتی نظر آرہی ہے۔ آرمینیا کے وزیراعظم نے کہا کہ آذربائیجانی جارحیت ترک پشت پناہی کا نتیجہ ہے اور آرمینیا کی مکمل نسل کُشی کے بعد بھی ہمارے خون کے لیے ترکوں کی پیاس نہیں بجھی۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ خطہ ایک ”ہولناک جنگ“ کے دہانے پر ہے اور مہذب دنیا کو ترک جارحیت کے ”شیطانی طرزعمل“ کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے۔
آرمینیا الزام لگا رہا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران عثمانی فوج نے پندرہ لاکھ آرمینیائی شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ جس کے جواب میں ترکی کا مؤقف ہے کہ جنگ کے دوران بہت سے شہری مارے گئے تھے جن میں آرمینیا کے باشندے بھی شامل ہیں، انقرہ کو نہتے شہریوں کے قتل کا افسوس ہے لیکن مارے جانے والے سب کے سب مسیحی نہیں تھے بلکہ لاتعداد مسلمان شہری بھی مارے گئے۔ غیر ارادی نقصان کو نسل کُشی نہیں کہا جاسکتا۔ فرانس سمیت یورپ کے بہت سے ممالک کی جانب سے آرمینیائی باشندوں کے قتل کو نسل کُشی قرار دینے پر ترکوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آتا ہے۔ 2015ء میں جنگِ عظیم کی پہلی صد سالہ تقریب کے موقع پر جب مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس نے عثمانی دور میں آرمینیائی باشندوں کے قتل کو ’بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی‘ قرار دیا تو ترکی نے سخت احتجاج کرتے ہوئے ویٹی کن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
وزیراعظم نکول پاشنيان کے الزام کا جواب دیتے ہوئے ترکی کے صدر نے کہا کہ آرمینیا علاقائی امن و امان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انھوں نے قومی سلامتی و خودمختاری کے دفاع اور اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے آذربائیجان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ استنبول میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے نگورنو کاراباخ سے آرمینیائی فوج کے فوری اور مکمل انخلا کا مطالبہ کیا۔ ترک وزارتِ دفاع نے الزام لگایا ہے کہ YPGکے دہشت گرد نگورنو کاراباخ کے تاتار شہریوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ اس اہم قومی معاملے پر ترکی میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ برسراقتدار انصاف و ترقی پارٹی کے ساتھ حزبِ اختلاف کی ری پبلکن (CHP)، قوم پرست مادروطن پارٹی (MHP) اور جماعت خیر (IYI)نے اپنے مشترکہ بیان میں آرمینیائی فوج کے بالائی نگورنو کاراباخ میں آذری شہریوں پر حملے کی سخت مذمت کی ہے۔
اب تک آرمینیا کے ترک مخالف اتحادی فرانس اور یورپی ممالک نے صدر اردوان اور ترکی پر تبرہ پڑھنا شروع نہیں کیا، اور بظاہر سب کو کشیدگی پر تشویش ہے۔ آرمینیا کے سب سے بڑے اتحادی روس نے طرف داری سے پرہیز کرتے ہوئے فوری طور پر جنگ بندی اور صورت حال کو مستحکم کرنے کے لیے بات چیت کا مطالبہ کیا۔ صدر اردوان کے شدید مخالف فرانسیسی صدر میکراں نے بھی فوری جنگ بندی اور امن مذاکرات پر زور دیا ہے۔ فرانس میں بہت بڑی تعداد میں آرمینیائی باشندے آباد ہیں اور پیرس جنگِ عظیم اوّل کے دوران آرمینیائی باشندوں کے قتل کا الزام عثمانی سلطنت پر عائد کرتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ علاقے کے ممالک سے امریکہ کے بہترین تعلقات ہیں اور دوستوں کے درمیان خونریزی پر انھیں سخت تشویش ہے۔
جنگ پر تشویش اور امن و استحکام کے لیے اقوام عالم کی فکرمندی قابلِ تحسین ہے، لیکن مغرب کی بے قراری و بے چینی سے لگتا ہے کہ میدانِ کارزار میں آذربائیجان کو برتری حاصل ہے۔

………………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔