افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورۂ اسلام آباد

پاکستان کو پُرامن افغانستان کی ضرورت ہے

افغان اعلیٰ سطحی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین اور افغان حکومت کے سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ساٹھ رکنی وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات میں افغان مفاہمتی عمل، بین الافغان مذاکرات اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغان تنازعے کے پُرامن اور پائیدار سیاسی حل کی حمایت کرتا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مشترکہ ذمہ داری کے طور پر افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے اور بعد ازاں دوحہ میں ہونے والے بین الافغان مذاکرات نے افغانستان میں پائیدار امن کے امکانات کو روشن کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ ہمیں ان عناصر پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی جو خطے میں امن اور استحکام نہیں چاہتے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کی اُن کے آبائی وطن میں باعزت واپسی کا خواہاں ہے، پاکستان افغانستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط معاشی تعاون کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
اس موقع پر افغان اعلیٰ سطحی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے افغان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی مفاہمتی اور مخلصانہ کوششوں کو سراہا اور اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنے پر پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کاکہنا تھا کہ پاکستان مسلسل کہتا چلا آیا ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ایک سیاسی حل درکار ہے، ہم نے اپنی ذمے داری نبھا دی ہے، اب افغان قیادت کو آگے بڑھنا ہے اور اپنا کردار ادا کرنا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک نئے باب کا آغاز ہو، اب ماحول بہتر ہے، ہم چاہیں گے کہ وہاں تشدد میں کمی واقع ہو اور وہ سیز فائر کی طرف بڑھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس کمرے میں عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی، اسی کمرے میں طالبان کے وفد سے بھی ملاقات ہوئی تھی، اور انہیں بھی یہ پیغام دیا تھا کہ آگے بڑھیں، وہ آپ کا ملک ہے اور اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن ہوگا تو نئے راستے کھلیں گے، علاقائی سالمیت کے راستے کھلیں گے، دوطرفہ تجارت کے راستے کھلیں گے، اور ہم نے طے کیا ہے کہ مستقبل قریب میں وفاقی وزیر تجارت رزاق داؤد کابل جائیں گے اور دوطرفہ تجارت اور منصوبوں پر گفتگو کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ماحول میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا یہ دورۂ پاکستان اہمیت رکھتا ہے اور میری کوشش ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور افغانستان کے ساتھ دیرپا تعلقات کی بنیاد رکھیں۔
قبل ازیں افغانستان کی اعلیٰ سطحی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے تین روزہ دورۂ پاکستان کے دوران ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ وزیراعظم عمران خان، صدر ڈاکٹرعارف علوی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا موجودہ حیثیت میں یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے ۔
یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ چالیس سال سے بیرونی جارحیت اور اندرونی خانہ جنگیوں کے شکار افغانستان کو تازہ جارحیت کا سامنا دنیا کی سپریم طاقت کہلائے جانے والے امریکہ اور اُس کے48 اتحادی ممالک کی مسلح فوج کشی کی صورت میں کرنا پڑا تھا۔2001ء میں شروع ہونے والی اس نئی جنگ میں اب تک امریکہ 822 بلین ڈالر جھونک چکا ہے، جب کہ اصل اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ میں تین ہزار امریکی فوجی ہلاک اور بیس ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، جب کہ افغان سیکورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زائد اہلکار اور ایک لاکھ سے زائد عام شہری اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ٹوئٹر پر دیئے گئے ایک پیغام جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان کا استحکام جڑا ہوا ہے، ایک ایسی برسرزمین حقیقت ہے جس کو اگر کوئی جھٹلانا بھی چاہے تو نہیں جھٹلا سکتا، جس کا کھلا ثبوت جہاں افغان خانہ جنگی کے دوران پاکستان پر پڑنے والا سیاسی اور اقتصادی اثر ہے، وہیں بڑے پیمانے پر یہاں افغان مہاجرین کی آمد نے ہماری زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ وہیں دوسری جانب اس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان اور خیبرپختون خوا پر بھی پڑا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ افغانستان میں پختون اور تاجک کا قضیہ قیام پاکستان سے بھی پرانا ہے، اور بدقسمتی سے بعض دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ اس ایشو نے بھی افغانستان کو اب تک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، جس کا فائدہ پاکستان سمیت افغانستان کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والی ہر قوت نے اٹھانے کی ہر موقع پر کوشش کی ہے ۔ دراصل افغانستان میں پشتون تاجک مسئلہ 1929ء میں اُس وقت شروع ہوا جب حبیب اللہ کلکانی نے ایک تاجک رہنما کی حیثیت سے شاہ امان اللہ خان کو معزول کردیا تھا، کیونکہ وہ اپنی اصلاحات کی وجہ سے افغان معاشرے کو کھول رہے تھے۔ بعد ازاں سرحدی علاقوں جن میں پاکستان کے قبائل محسود اور وزیر بھی شامل تھے، پر مشتمل نادر شاہ نے ایک بڑا لشکر تشکیل دیا اور حبیب اللہ کلکانی کی افواج کو شکست دے کر حبیب اللہ کلکانی اور اس کے اہلِ خانہ کے متعدد افراد کو پھانسی دے دی تھی۔ کہا جاتا ہے اس قبائلی لشکر نے کابل کے شمال میں تاجک علاقے میں ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار کے علاوہ مظالم کا ارتکاب کیا، تب سے پختونوں اور تاجکوں میں ایک چپقلش چلی آرہی ہے جس کی کچھ جھلکیاں جہاں انقلابِ ثورکے عروج کے زمانے میں افغان کمیونسٹوں کے ’پرچم‘ اور ’خلق‘ دھڑوں میں بٹنے، اور بعد ازاں افغان جہاد کے دوران احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شورائے نظار اور پروفیسر برہان الدین ربانی کی سربراہی میں جمعیت اسلامی، اور انجینئر گلبدین حکمت یار (جو کہ پکتیا کے خروٹی پختون ہیں) کے درمیان شدید مخاصمت اور خانہ جنگی کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح طالبان کے ظہور کے بعد یہ تفریق مزید گہری ہونا شروع ہوئی اور ان دونوں قومیتوں کے درمیان یہ خلیج اُس وقت مزید بڑھ گئی جب طالبان افغانستان پر نہ صرف قابض ہوگئے بلکہ احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد نے طالبان کی سرپرستی کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اس جنگ کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کی۔ یہ تفریق اُس وقت مزید بڑھی جب طالبان کی حمایت سے القاعدہ احمد شاہ مسعود کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی، اور بعد میں پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں شمالی اتحاد امریکی سپورٹ سے کابل پر قابض ہوا۔ لیکن اب چونکہ پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چکا ہے، اس لیے ماضی کے زخموں کو بھرنے کا وقت آگیا ہے، جس میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جوایک پشتون باپ اور تاجک والدہ کی اولاد ہیں، اس ضمن میں ایک بہترین ثالث اور صلح جوکا کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں جہاں اپنے اوپر چسپاں پختون مخالفت اور خاص کر بھارت نوازی کا لیبل اتارنا ہوگا، وہیں انہیں دوقدم آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ماضی کے تمام گلے شکوے بھی بالائے طاق رکھنا ہوں گے۔ لہٰذا ایسے میں جب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ امن کے سفیر بن کر پاکستان تشریف لائے ہیں تو پاکستان کو اپنی روایتی افغان پالیسی پر نظرثانی کا اس سے بہتر موقع یقیناً نہیں مل سکتا۔ یہ ایک برسرزمین حقیقت ہے کہ پاکستان کو پُرامن افغانستان کی ضرورت ہے، اور ایک پڑوسی ملک کے طور پر اس کی یہ حیثیت کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگی، بالخصوص اگر پاکستان وسط ایشیا اور روس تک زمینی رسائی چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے جو ایک پُرامن افغانستان سے ہوکر گزرتا ہے۔