حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کی منصوبہ بندی

۔’’سلیکٹرز‘‘ سے حکومت کی سرپرستی ختم کرنے کا مطالبہ

دو ہفتے گزر گئے ہیں مگر سیاسی حلقوں میں نوازشریف کی کُل جماعتی کانفرنس میں دھیمے لہجے میں سخت تقریر کی تپش کم نہیں ہورہی، بلکہ بڑھ رہی ہے۔ کل جماعتی کانفرنس میں شریک بڑی اپوزیشن جماعتیں حکومت پر دھیرے دھیرے دبائو بڑھانے کی جانب بڑھ رہی ہیں، اس میں مسلم لیگ(ن) پیش پیش ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس نے اسے سازگار ماحول فراہم کیا اور وہ سیاست میں تلاطم پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔ اپوزیشن کی احتجاج کے لیے ٹائمنگ بہت اہم ہے، اس نے جس طرح چار مہینوں کا اپنی احتجاجی تحریک کا نقشہ کھینچا ہے اسی دوران میں گلگت بلتستان میں انتخابات بھی ہونے ہیں اور افغان طالبان کے مذاکرات بھی چل رہے ہیں۔ ان دونوں ایشوز کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اپوزیشن نے فی الحال جنوری تک کی منصوبہ بندی کی ہے، جنوری تک حکومت اپنی نصف آئینی مدت مکمل کرچکی ہوگی، پانچ سال کی آئینی مدت میں کسی بھی حکومت کے لیے کام کرنے کے مواقع پہلے دو سال میں ہی ہوتے ہیں، اس کے بعد سیاسی گرما گرمی شروع ہوجاتی ہے، اور بیوروکریسی بھی حکومت کے پنجوں سے باہر نکل کر سیاسی گرم محاذ کی جانب متوجہ ہوجاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں اگلی نصف مدت میں حکومت پارلیمنٹ، اور پارلیمنٹ سے باہر دبائو میں رہے گی۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہیں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے نیا خوف پیدا کردیا ہے۔ قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کی گرفتاری نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کا ردعمل متفقہ آیا تو بات بنے گی ورنہ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کو پرانی تنخواہ پر ہی گزارہ کرنا ہوگا۔
شہبازشریف کی گرفتاری ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہوجانے پر ہوئی، اور جشن حکومت منا رہی ہے۔ حکومت کا جشن منانا معاملے کو مشکوک بنارہا ہے، جب کہ اسے یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ کرپشن کے خلاف اس کا بیانیہ ناکام ہوچکا ہے۔ تمام تر تحفظات کے باوجود حکومت اور نیب کو پورا پورا موقع ملا ہے کہ وہ جس طرح بھی چاہیں، شکنجہ کس لیں۔ مگر یہ ناکام رہے۔ دو سال سے نیب کی مرغی انڈوں پر بیٹھی ہوئی ہے مگر کوئی چوزہ نہیں نکلا۔ احتساب اب سیاسی انتقام سمجھا جانے لگا ہے۔ حکومت اپوزیشن کی خرابیوں کے تنکوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، جب کہ اسے ادراک ہونا چاہیے کہ بسوں کی خرابی کے بعد دو ماہ تک سروس معطل ہوجانے پر بی آر ٹی منصوبہ بھی حکومت کے گلے پڑ گیا ہے۔ سی پیک منصوبہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں بہت اہمیت کا حامل ہے، مگر مسلم لیگ(ن) نے بہت کاری وار کیا ہے کہ ’’حکومت نے اس منصوبے کو بی آر ٹی پشاور منصوبے سے بھی نیچے گرادیا ہے‘‘۔ مسلم لیگ(ن) کا یہ سیاسی وار بہت گہری ضرب ہے۔ سی پیک اگرچہ خبروں میں زندہ ہے مگر صورتِ حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت کے ترجمانوں اور وفاقی کابینہ کو ہدایت کی تھی کہ کل جماعتی کانفرنس میں اٹھائے گئے نکات اور سوالات کا منطق اور دلیل کے ساتھ جواب دیا جائے۔ اس کانفرنس کا پہلا اثر یہ تھا کہ وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ دکھائی دیے تھے، لیکن حکومتی ترجمان اس ہدایت پر سرے سے عمل ہی نہیں کرسکے۔ ترجمان ناپختہ ہیں یا ناتجربہ کار؟ یہ فیصلہ بھی اب خود حکومت ہی کرے تو بہتر ہوگا۔ اگر حکومتی ترجمان وزیراعظم کی ہدایت پر عمل کرلیتے تو سیاسی درجہ حرارت بھی کم ہوجاتا اور کل جماعتی کانفرنس کے غبارے سے ہوا بھی نکل جاتی۔ شیخ رشید احمد نے جس طرح راز اگلنا شروع کیے، اور ردعمل آجانے پر خاموش ہوئے، اس کا سب سے زیادہ فائدہ اس وقت مسلم لیگ(ن) کو ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، حکومت اس وقت دبائو میں آئی ہوئی ہے، اسے دبائو کے اس ماحول سے نکلنے کے لیے اپوزیشن کی غلطی کا انتظار ہے تاکہ وہ اس پر جوابی کاری وار کرسکے، لیکن اپوزیشن فی الحال کوئی سیاسی غلطی کرنا نہیں چاہتی بلکہ مفاہمت کی جانب آرہی ہے۔ اس کی دوسرے درجے کی لیڈرشپ، جسے قیادت کا اعتماد بھی حاصل ہے، اب مفاہمت کی بات کررہی ہے… دلیل، منظق اور تحمل مزاجی کے ساتھ گفتگو پر آمادہ ہے اور مفاہمت چاہتی ہے۔ اس نے اب سمجھ لیا ہے کہ جب تک ماتھے پر بل رہے گا اُس وقت تک اجالا بھی اوجھل رہے گا۔ خواجہ سعد رفیق نے پہل کی اور تحریک انصاف کی ’’ش‘‘ کاجواب دیا کہ مفاہمت اور مصلحت کا مطلب یہ نہیں کہ طعنہ دیا جائے کہ این آر او مانگ رہے ہیں۔ ان کے بعد رانا ثناء اللہ نے بھی منطق کے ساتھ گفتگو کی کہ سیاست دان تقریر بھی کرتے ہیں اور ملاقاتیں بھی، اگر سیکورٹی کے معاملے پر متعلقہ ادارے سے ملاقات ہوئی ہے تو اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ جو تحریک انصاف کی ’’ش‘‘ کی صورت میں ان گائیڈڈ میزائل فائر ہوا ہے یہی حکومت کو لے ڈوبے گا۔ ان کی بات میں وزن ہے، اور حکومت کو چاہیے کہ بیانات کے اتوار بازار بند کرے۔ سیاسی و عسکری قیادت کی ملاقات اعلانیہ ہونی چاہیے، اگر سرِبازار کپڑے دھوئے گئے تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اب تحریک انصاف میں بھی حرکت پیدا ہوئی ہے اور اس نے اپنی’’ش‘‘ کو لگام ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ ماحول مکدر ہونے سے بچایا جائے، کیونکہ اس کا نقصان حکومت کو تو بعد میں ہوگا، اصل نقصان پاکستان کو ہوگا اور دشمن اس صورت حال سے فائدہ اٹھائے گا۔ اس سارے منظرنامے کے بعد ایک نیا مطالبہ بھی سامنے آسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ شانِ تغافل سے باہر نکلے اور شیخ رشید احمد کے ساتھ اپنے تعلق پر نظرثانی کرے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کا تحریک انصاف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، وہ تو صرف عمران خان کے دوست ہیں۔ اب یہ بات کہی جارہی ہے کہ اگر انہیں حکومت میں رہنا ہے تو اپنی وزارت پر توجہ دیں۔ نوازشریف نے جس انداز میں اپنی جماعت کے اراکین کو عسکری قیادت سے ملاقاتوں سے روکا ہے اس پر اب نظرثانی کی جارہی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کل جماعتی کانفرنس سے قبل ہونے والی ملاقاتوں سے نوازشریف لاعلم ہوں، خبر یہ ہے کہ یہ ملاقات برائے ملاقات نہیں تھی اور بے مقصد یا بے منزل بھی نہیں تھی، مستقبل میں اسلام آباد میں ایک نئی تبدیلی یہ دیکھی جائے گی کہ تمام سیاسی طاقتیں، ملکی ادارے، سیاسی و عسکری قیادت چاہتی ہے کہ مسائل کا حل متفق اور متحد ہوکر کیا جائے، گلگت بلتستان کا آئینی فیصلہ اس کی منتخب اسمبلی پر چھوڑ دیا جائے گا، تاہم فیصلہ وفاق کی سوچ کی روح کے مطابق ہی ہوگا، مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے بھی یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ شہبازشریف اگرچہ مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ بہرحال نوازشریف سے الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کل جماعتی کانفرنس کے بعد اب ماحول یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے حکومت کو جو وقت دینا تھا، دے دیا ہے۔ اب میچ شروع ہوگیا ہے، نتیجہ یہ ہوگا کہ حکو مت اب دبائو میں آجائے گی، کیونکہ حکومت کا ہنی مون ختم ہوچکا ہے، وہ اپنی دوسری سالگرہ مناچکی ہے، اور تیسرا سال شروع ہے۔
اگرچہ حکومتی ترجمانوں نے اپوزیشن کی اے پی سی کو مسترد کردیا ہے، تاہم دبائو سے نہیں نکل پارہے۔ حکومت نے جس اضطراری کیفیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس کے خوف کی بھی عکاس ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب اپوزیشن راہنمائوں کے خلاف کیسز کو حکومت بھی جوابی دبائو کے لیے استعمال کرے گی، تاہم ایف بی آر کی 2018ء کی ٹیکس ڈائریکٹری نے ارکانِ پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے ٹیکس کی عدم ادائیگی پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ حکومت تو ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی تھی جس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ وہ پیٹرول، بجلی اور گیس مہنگی کرکے پیسہ حاصل کررہی ہے، اور اب تو اس کی باقاعدہ سفارشات بھی مرتب کی جارہی ہیں، جس کے لیے سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی معاونت کے لیے تجاویز تیار کررہے ہیں۔ حکومت ایسے فیصلے کرجائے گی کہ آنے والے پریشان ہوں گے، لیکن حکومت مستقبل کے بجائے پہلے حال کے مسائل سے باہر نکلے تو یہ اس کے لیے اطمینان بخش ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لیے آئندہ آنے والے چند روز انتہائی اہم ہیں، کئی اندرونی محاذ ان کے رو برو عشق کے امتحان لے کر کھل رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں سنجیدہ ہیں کہ حکومت کو دبائو میں رکھا جائے، شہبازشریف کے بارے میں عدالت کا فیصلہ اپوزیشن کے لیے آکسیجن ثابت ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان اور نوازشریف کی مشترکہ سیاسی سوچ اثر دکھائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے نئے اتحاد کوپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دے دیا اور مطالبہ کررہی ہیں کہ حکومت کی سرپرستی بند کی جائے، آٹا، چینی، گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی جائیں، یہ سلیکٹڈ حکومت ہے جو سقوطِ کشمیر کی ذمہ دار ہے، سلیکٹڈ حکومت اپنی ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں ایٹمی صلاحیت اور ملکی دفاع کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے، 1973ء کا آئین، 18ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ قومی مفادات کے مظہر ہیں، ان کا تحفظ کیا جائے۔ اپوزیشن کی سیاسی دھار تیز ہوتی دیکھ کر اب وزیراعظم عمران خان نے بھی عندیہ دیا ہے کہ قانون سازی کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ لیکن اپوزیشن اس کا عملی اظہار چاہتی ہے، عملی اظہار کے لیے نیب قانون میں ترمیم متفقہ طور پر کی جارہی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کا ساتھ نہ دیں تو تعطل ختم نہیں ہوسکے گا، اسی لیے یہ بات کہی جارہی ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن سے مفاہمت چاہتے ہیں تو انہیں اپنے وزرا کو قابو میں کرنا ہوگا۔ جب حکومت ہر وقت اپوزیشن کے ساتھ الجھی رہے تو اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی طرف توجہ کون دے گا؟ ابھی حال ہی میں ادویہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے جارہا ہے، بجلی مزید مہنگی ہوجائے گی۔ وزیراعظم خود کہہ رہے ہیں کہ سردیاں آنے والی ہیں گیس نہیں ملے گی، گیس مہنگی ہوجائے گی اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے خوش قسمت ہوں گے۔حکومت اور اپوزیشن کی اس لڑائی میں ملٹی نیشنل کمپنیاں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔وفاقی حکومت نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ پچھلے کئی برسوں کی طرح اِس موسم سرما میں بھی گیس بحران کا امکان ہے۔ حالات یہ ہیں کہ سندھ کو پنجاب سے زیادہ گیس کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ گیس ٹیکسٹائل ملز کو دی جائے، کیونکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو اچھے آرڈر مل رہے ہیں، اور کھانا پکانے کے اوقات میں گھریلو صارفین کو ترجیح دی جائے۔ سندھ حکومت سے 17کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کی اجازت مل گئی تو گیس کی کمی کسی حد تک پوری ہوسکے گی۔ گزشتہ برس سدرن گیس پائپ لائن سسٹم میں 1120سے 1150ملین کیوبک فٹ شامل ہورہی تھیں، آج یہ نمبر 960 سے 970ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ آبادی کی شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان نے مسائل کو پیچیدہ بنا رکھا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ بھی تکمیل نہ پا سکا، لہٰذا نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

بھارت میں 11 پاکستانی ہندوئوں کی پراسرار ہلاکت

بھارت کے شہر جودھ پورمیں 11 پاکستانی ہندوئوں کی پراسرار ہلاکت کے خلاف پاکستانی ہندو برادری نے اسلام آباد میں ڈپلومیٹک انکلیو کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ دھرنے کے لیے ہندو برادری کے افراد حیدرآباد سے اسلام آباد پہنچے، دو روز تک قیام کیا اور بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے ایک روز دھرنا دیا۔ دھرنے کے شرکا بھارتی ہائی کمیشن تک رسائی چاہتے تھے تاکہ اپنے جذبات سے براہِ راست آگاہ کرسکیں۔ یہ دھرنا بھارت کے لیے ایک تاریخی سبکی کا سامان پیدا کرگیا۔ عین اُس وقت جب وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے آن لائن خطاب کررہے تھے، دھرنے کے شرکا بھارتی ہائی کمیشن کے باہر موجود تھے اور اقوام عالم میڈیا کے ذریعے یہ کارروائی دیکھ رہی تھیں۔ بھارت کے پاس گیارہ پاکستانی ہندوئوں کے قتل کا کوئی جواب نہیں تھا جس سے وہ عالمی برادری کو مطمئن کرسکے۔ اس واقعے کا بھارتی ہائی کمیشن کو جواب دینا پڑے گا۔ اسے مذمتی قرارداد دھرنے کے شرکاء کی قیادت نے پہنچادی ہے، اس کی ایک کاپی دفتر خارجہ کے ذریعے بھی بھجوائی جائے گی۔ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستانیوں کی ہلاکت کی ایف آئی آر اور تحقیقاتی رپورٹ پاکستانی ہائی کمیشن کے حوالے کرے۔

عمران خان کی ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران سے ملاقات

وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریباً سوا گھنٹے تک جاری رہی۔ جو لوگ اس ملاقات میں شریک تھے، ان سے ملنے والی معلومات کے مطابق وزیراعظم نے اس میں کوئی بیانیہ نہیں دیا تاہم سوالوں کے جواب دیے۔ سوال ہوا کہ اپوزیشن کے مل بیٹھنے میں حرج کیا ہے؟ وزیراعظم نے جواب دیا کہ انھیں اپوزیشن کا کوئی خوف نہیں ہے، اگر اپوزیشن ایجی ٹیشن کرنا چاہتی ہے تو ان کے پاس لوگ نہیں ہیں اور میں خود اس کا بڑا ماہر ہوں، اگر اپوزیشن حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مستعفی ہوتی ہے تو فوری طور پر ضمنی انتخابات کروائے جائیں گے اور اپوزیشن تمام سیٹیں ہار جائے گی۔ نوازشریف کی تقریر نشر کرنے کے معاملے پر سوال ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بہت لوگوں کا دباؤ تھا، پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کا بہت دباؤ تھا کہ ہمیں یہ دکھانا چاہیے یا نہیں دکھانا چاہیے۔ لیکن آخر میں فیصلہ میں نے ہی کیا۔ نوازشریف کا ایجنڈا یہ ہے کہ فوج اور حکومت میں لڑائی کروائی جائے۔ وزیراعظم نے واضح طور پر بتایا کہ جو بھی میرا ایجنڈا ہوتا ہے فوج اسے فالو کرتی ہے، پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں فوج اور سویلین حکومت کے درمیان بہتر رابطہ ہے، اس سے پہلے تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا، اس لیے کچھ اپوزیشن گروپس اور لوگوں کو یہ بات ٹھیک نہیں لگ رہی۔
سیاست دانوں کی عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے سوال پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ عسکری حکام اور سیاست دانوں کی ملاقات گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے تھی، کیونکہ وہاں سیکورٹی خطرات ہیں، جب بھی اپوزیشن سے بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہوں تو ان کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ ان کو احتساب کے عمل میں کوئی ریلیف ملے، یہ بدقسمتی ہے کہ جن ملاقاتوں میں قانون سازی کی بات ہوتی ہے اسے اس طرح ذاتی ایجنڈے میں بدلا جاتا ہے۔ اس لیے وہ اس طرح کی بات چیت سے اور شرکت سے احتراز برتتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ زرداری اور نوازشریف نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پہنچا دیا ہے اور فوج اس لیے میرا ساتھ دیتی ہے کیونکہ فوج کو پتا ہے کہ پچھلی حکومتیں کرپٹ تھیں، جبکہ ہم کرپشن کے خلاف کام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کو بہت آزادی ہے اور پچھلے دو سال سے جب سے میری حکومت ہے مجھے ہی سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا نے ہی مجھے بنایا اور میری آواز کو اٹھایا۔ وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ حکومت کے پاس فقط چار لوگ ہیں جو معیشت اور فنانس پر بات کرسکتے ہیں، ان میں خسرو بختیار کے علاوہ حماد اظہر، حفیظ شیخ اور اسد عمر شامل ہیں۔ وزیراعظم نے موٹر وے واقعہ اور عمومی جرائم سے متعلق سوال پر کہا کہ پاکستان میں عریانی، فحاشی اور جنسی جرائم بڑھ گئے ہیں، اس کی وجہ انڈین فلمیں اور انگریزی فلمیں ہیں، جنرل عاصم سلیم باجوہ سے کہا ہے کہ وہ اس کا ایک کاؤنٹر کلچر بیانیہ جاری کریں۔