بحیرۂ روم کا محلِ وقوع بھی خوب ہے۔ یہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کا سنگم ہے۔ ان میں سے ہر براعظم بحیرۂ روم سے اس طور جڑا ہوا ہے کہ اُس سے ہٹ کر اہمیت گھٹ سی جاتی ہے۔ قدیم زمانوں ہی سے یہ سمندر دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا مرکز رہا ہے۔ طاقت میں اضافے کے لیے بڑی ریاستیں اس خطے کو اپنے حق میں بروئے کار لاتی رہی ہیں۔ غیر معمولی اہمیت کے حامل محلِ وقوع نے بحیرۂ روم کو ایشیا اور یورپ کے متعدد ممالک کے لیے سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم بنادیا ہے۔ اور اس حوالے سے لیبیا بھی ایک اہم ریاست ہے۔
سرد جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکہ نے ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت یونان اور ترکی کو غیر معمولی تناسب سے امداد دینا شروع کی۔ اس کا بنیادی مقصد بحیرۂ روم کے خطے میں امریکی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ یہ بھی چاہتا تھا کہ سرد جنگ میں کمیونسٹ بلاک کے مقابل یونان اور ترکی ہر اعتبار سے امریکی اتحادی کی حیثیت سے ابھریں۔
سرد جنگ کے دور میں بحیرۂ روم سیاسی اور سفارتی سطح پر غیر معمولی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ و سابق سوویت یونین کے پہلو بہ پہلو یونان اور ترکی کے لیے بھی غیر معمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت کا حامل تھا۔ یونان اور ترکی معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے اہم ارکان کی حیثیت سے بھی ایسے نہ تھے کہ نظرانداز کردیئے جاتے۔ دوسری طرف اسی دور میں شام اور مصر کا سابق سوویت یونین کے اتحادیوں کی حیثیت سے ابھرنا اور شام کی بندرگاہ طرطوس کے علاوہ مصر کے علاقے سیدی برانی میں فوجی اڈوں کا قیام بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
سابق سوویت یونین نے 1972ء تک سیدی برانی کے فوجی اڈے کو نیٹو کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے تحلیل ہوجانے کے بعد یہ خطہ امریکہ اور یورپ کے لیے زیادہ اہم نہ رہا۔ وہ ان اتحادیوں پر مزید کچھ خرچ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
سرد جنگ کے دور میں مخصوص سیاسی حالات نے امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا۔ امریکہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ چین بھی تھا جو تیزی سے ابھر رہا تھا۔ بحیرۂ روم کو نظرانداز کرنے کی پالیسی نے معاملات کی نوعیت بدل دی۔ خاص طور پر چین کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ پھر یوں ہوا کہ تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے اور خطے نے دوبارہ اہمیت حاصل کرلی۔ اب قدرتی وسائل پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کے لیے امریکہ، یورپ، روس اور علاقائی طاقتیں میدان میں ہیں۔
یہ بات تو اب بالکل واضح ہے کہ گیس کے ذخائر کی دریافت نے خطے کے ممالک کو زیادہ سرمایہ کاری کی تحریک دی ہے تاکہ سیاسی طور پر بھی پوزیشن غیر معمولی حد تک مستحکم رکھنا ناممکن نہ ہو۔ یہ سرمایہ کاری اس لیے بھی ناگزیر تھی کہ ایسا کرنے ہی سے ایک طرف تو خطے کے ممالک کو اپنی اندرونی ضرورت پوری کرنے میں مدد ملتی تھی اور دوسری طرف وہ عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہ ہوسکیں۔ کسی بھی ملک میں گیس کی بڑھتی ہوئی ضرورت ہی اس امر کا تعین کرتی ہے کہ سب سے زیادہ گیس کون سپلائی کرے گا۔ آج بہت سے ممالک توانائی کے لیے صرف گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے میں طاقت بڑھانے والے عوامل میں تیل سے کہیں بڑھ کر گیس ہے۔ اس کے نتیجے میں اب سیاسی حقائق بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ توانائی کے معاملے میں کسی ایک ذریعے پر انحصار متعلقہ ممالک کے لیے اسٹرے ٹیجک حقائق بھی تبدیل کردیتا ہے۔ لیبیا اس کی ایک واضح مثال ہے جہاں معاملات اب نظم و نسق قائم کرنے والے نظام کے ہاتھ سے باہر نکل چکے ہیں۔
تکنیکی ماہرین بتا چکے ہیں کہ بحیرۂ روم کے خطے میں گیس کے غیر معمولی ذخائر موجود ہیں۔ گیس کے ذخائر پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول پانے کی خواہش نے ایک بار پھر بحیرۂ روم کو اکھاڑے کی سی شکل دے دی ہے۔ تمام بڑی طاقتیں بحیرۂ روم پر زیادہ سے زیادہ متوجہ رہنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ مسابقت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ دی یو ایس جیولوجیکل کے ایک سروے کے مطابق لبنان سے قبرص اور مصر تک کے چند علاقوں میں گیس کے 340 کھرب مکعب فٹ کے ذخائر کی موجودگی نے اختلافات اور تنازعات کو ہوا دی ہے۔ کئی ممالک گیس کے ذخائر سے مالامال علاقوں پر اپنا حق جتانے کھڑے ہوگئے ہیں۔ تنازعات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایسے معاملات کو بڑے پیمانے کے مسلح تصادم تک پہنچنے سے روکنا تمام معاملات میں ممکن نہیں ہوتا۔
یونان نے بڑے پیمانے پر تیل اور گیس محض تلاش ہی نہیں کیا بلکہ نکالنے کا عمل بھی شروع کردیا ہے۔ ترکی اور قبرص کے ترک نظم و نسق والے علاقے کی سمندری حدود بھی بحیرۂ روم کے خاصے وسیع علاقے تک ہیں، مگر جب وہ تیل اور گیس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو یونان اور اُس کے زیرانتظام قبرص کا علاقہ معترض ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تنازع شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ قبرص مشترکہ طور پر ترکی اور یونان کے زیرانتظام ہے اور دونوں کی مشترکہ ملکیت کا درجہ رکھتا ہے۔ بحیرۂ روم میں قبرص کی سمندری حدود میں جتنے بھی قدرتی وسائل ہیں اُن پر ترکی اور یونان کا برابری کا دعویٰ ہے۔
ترکی چاہتا ہے کہ قبرص کے زیرانتظام حصے میں تیل اور گیس تلاش کرے اور نکالے، مگر یونان معترض ہے کہ وہ ایک چھوٹے جزیرے کی ملکیت کے تنازع کے باعث اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ایک بار پھر غیر معمولی سطح پر شدت اختیار کرگئے ہیں۔ مشرقی بحیرۂ روم میں ماحول گرم تر ہوتا جارہا ہے۔ ترکی اور یونان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی علاقے کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ تنازع اگر شدت اختیار کرگیا تو اس کے شدید منفی اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔
ٹرکش نیشنل آئل کمپنی کا کہنا ہے کہ جدید ترکی کے قیام کی 100 ویں سالگرہ (2023ء) تک وہ تیل اور گیس کی طلب ملکی وسائل ہی سے پوری کرنے کی منزل تک پہنچنے کی تیاری کررہی ہے۔ ترک وزارتِ توانائی نے بھی کہہ دیا ہے کہ تیل اور گیس کی طلب اندرونی ذرائع سے پوری کرنے کے معاملے میں پورے خطے میں اوّلین مقام تک پہنچنا چاہتی ہے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوگا اور اس کے نتیجے میں خطے میں سلامتی کی صورتِ حال کیا رخ اختیار کرے گی؟ مشرقی بحیرۂ روم میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اس امر کی متقاضی ہے کہ معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کی کوششوں کا آغاز کیا جائے، مگر اب تک ایسی کوئی بھی کوشش دکھائی نہیں دی ہے۔
خطے میں تیل اور گیس کی تلاش کے کام کا نئے سرے سے جائزہ لینا ہوگا۔ لیبیا ایک اہم ملک ہے کیونکہ اس کے تیل اور گیس کے ذخائر سب سے بڑھ کر ہیں۔ اس کی سیاسی اور معاشی حالت نے خطے کے بہت سے ممالک کو پریشان کر رکھا ہے۔ لیبیا اب تک افریقہ کے لیے سب سے بڑے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ بحیرۂ روم کے ایسے حصے میں واقع ہے جہاں سمندر میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر اس کی دسترس میں ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود لیبیائی سرزمین پر بھی تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جسے بھی لیبیا پر تصرف حاصل ہو، وہ پورے خطے پر نظر رکھ سکتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر اس کی دسترس میں ہیں۔ خطے، اور خطے سے باہر کی تمام طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ پورے بحیرۂ روم پر اپنا تصرف قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں، مگر وہ اس خطے میں موجود اور متحرک رہ کر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ضرور کررہی ہیں کہ خطے کا کوئی بھی ملک تمام وسائل پر تنہا قابض و متصرف ہوکر اجارہ داری قائم نہ کرلے۔
لیبیا کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی داخلی صورتِ حال اور قضیے میں امریکہ، روس، یورپ، سعودی عرب، یو اے ای، مصر، قطر، یونان، الجزائر اور یونان کے زیر انتظام قبرص بھی ملوث رہے ہیں۔ روس، سعودی عرب، یونان، متحدہ عرب امارات اور مغربی ممالک لیبیا کے قضیے میں جنرل خلیفہ ہفتار کے حامی ہیں۔
ترکی اور قطر نے اقوام متحدہ کے متعین کیے ہوئے وزیراعظم فیض سراج کی بھرپور حمایت کی ہے۔ لیبیا کی صورتِ حال سے واضح ہے کہ خطے میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کی موجودگی نے کل کے دشمنوں کو ایک کردیا ہے، اور جو ابھی کل تک اتحادی تھے وہ اب ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ وسائل کی بندر بانٹ کے لیے ہے۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال علاقے کے سب سے بڑے حصے پر اس کا تصرف قائم ہوجائے۔ جنرل خلیفہ ہفتار کی سربراہی میں کئی ملیشیاز باضابطہ اور جائز حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری کررہی ہیں۔ کئی طاقتیں اس کام میں خلیفہ ہفتار کی مدد کررہی ہیں۔ یہ سب کچھ بالکل غلط ہے، مگر ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو کئی علاقائی اور یورپی ممالک لیبیا میں خلیفہ ہفتار کی مالی اور عسکری امداد کررہے ہیں اور دوسری طرف ترکی نے لیبیا کی باضابطہ حکومت سے دو بڑے معاہدے کیے ہیں۔
ایک طرف تو لیبیا میں طاقت کا خلا کا موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خطے میں طاقت کا توازن بھی بگڑچکا ہے۔ رہی سہی کسر تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کی موجودگی نے پوری کردی ہے۔ دستر خوان تیار ہے تو سب کی رال ٹپک رہی ہے۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے مشرقی بحیرۂ روم کا خطہ بیرونی قوتوں کی توجہ اور کشمکش کا مرکز رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اب شدید تر نوعیت کی ہوگئی ہے۔ بڑی طاقتوں کی موجودگی سے خطے کے کسی ایک ملک کو تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے سے گریزپا رہنے کی تحریک ملے گی، مگر دوسری طرف یہ خدشہ بھی تو ہے کہ یہ خطہ بڑی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا میدان بنا رہے گا۔
۔(مصنف تہران میں ایرانین انٹرنیشنل اسٹڈیز ایسوسی ایشن کے فیلو ہیں۔ وہ تحقیق کے حوالے سے ایران اور مشرقِ وسطیٰ پر متوجہ ہیں۔) ۔
ترجمہ : ابو الحسن اجمیری