میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن)۔

’’مزاحمت‘‘ کے پردے میں ’’مفاہمت‘‘ کی سیاست

عسکری قیادت سے رابطہ نہ کرنے کا اعلان، عمل ہوگا؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عملی سربراہ اور عدالتی حکم پر معزول ہونے والے وزیراعظم نوازشریف نے اعلان کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا کوئی فرد اپنی ذاتی، جماعتی یا انفرادی حیثیت میں عسکری قیادت سے ملاقات نہیں کرے گا۔ اگر سیکورٹی، قومی سلامتی یا کسی اہم قومی ایشو پر ملاقات کی ضرورت ہوئی تو اس کی پیشگی منظوری ضروری ہوگی۔ نوازشریف کا یہ بیان ان کے ٹوئٹر کے اوّلین پیغام ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس اے پی سی سے نوازشریف کے خطاب کو تجزیہ نگار مسلم لیگ (ن) کی مزاحمتی سیاست کا آغاز قرار دے رہے تھے، اور اب لیڈر آف دی اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) کے ’’مجبوراً‘‘ سربراہ شہبازشریف کی گرفتاری کو مفاہمت کی سیاست کے خاتمے اور مزاحمتی سیاست کے لیے طبلِ جنگ کہہ رہے ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اپنی معزولی کے بعد سے نوازشریف مزاحمتی سیاست کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم انہوں نے اب تک مفاہمت کے راستے بند نہیں کیے تھے۔ وہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لے کر عوام کے پاس پہنچے تھے، جب کہ ان کے بھائی شہبازشریف اسٹیبلشمنٹ خصوصاً عسکری حلقوں کے ساتھ نہ صرف رابطے میں تھے بلکہ مفاہمت کی کوششوں کو پوری توانائی کے ساتھ آگے بڑھا رہے تھے۔ کبھی یہ کوششیں اعلانیہ ہوتیں، مگر زیادہ تر خفیہ ہی رہتی تھیں جنہیں فریقین اپنی اپنی ضرورت کے تحت اپنے تئیں مناسب وقت پر افشا بھی کرتے رہتے ہیں جس سے ملکی سیاست میں وقتی ارتعاش آتا ہے جو کچھ دیر بعد ختم ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ نوازشریف کی معزولی سے اب تک جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ اب رک جائے گا؟ یا سابقہ انداز میں یا زیادہ سے زیادہ کسی نئے رنگ میں دوبارہ آگے بڑھے گا؟
سنجیدہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مزاحمتی سیاست مسلم لیگ (ن) کے خمیر میں شامل نہیں، وہ وقتی طور پر تو تھوڑی بہت مزاحمت کرے گی جو نوازشریف کی معزولی کے بعد سے ہلکی پھلکی شکل میں جاری ہے، لیکن یہ بات اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ مسلسل احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کرسکے۔ یہ کام تو اُن سیاسی جماعتوں کے لیے بھی مشکل ہوتا ہے جو مزاحمتی سیاست کی شہرت رکھتی ہیں۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) کی تو پیدائش ہی اسٹیبلشمنٹ کے آنگن میں ہوئی ہے۔ اسے اسٹیبلشمنٹ نے سینچا، سنوارا، سیاست کے بے نام اور گم نام کو آگے بڑھاکر وقتی قیادت پیدا کی، پھر اسے زیورِاقتدار سے آراستہ کیا۔ دوسری جانب اس قیادت نے جس کا خمیر اسٹیبلشمنٹ سے اٹھا تھا، پارٹی کو بھی اسی انداز میں چلایا۔ چنانچہ ووٹرز کو بریانی کی پلیٹوں پر لگایا، کارکنوں کو دہاڑی دار مزدوروں کے انداز میں چلایا، انتخابی دفاتر اجرتوں کی بنیاد پر قائم کیے، اور اپنی جماعت کے دفاتر کو دفترِ شاہی کی طرح کا رنگ روپ دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف قیادت مصالحت پسند اور مقتدر حلقوں کے ساتھ مفاہمت بلکہ اُن کی مرضی کی مفاہمت پر راضی رہی، بلکہ کارکن بھی بغیر پیسے اور لالچ کے کوئی کام کرنے کو تیار نہ ہوا۔ مسلم لیگ (ن) جب اقتدار میں ہوتی ہے تو آپ کہیں پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ یا وزرا کے دفاتر جائیں تو آپ کو وہاں جو لیگی کارکن ملیں گے اُن کے ہاتھوں میں دو ہی طرح کی درخواستیں ہوں گی، یا تو وہ مالی امداد کی درخواستیں ہوں گی، یا اپنے بچوں کے لیے روزگار کی۔ اور جیسے ہی ان کارکنوں کے یہ کام مکمل ہوجاتے ہیں وہ دوبارہ پارٹی کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتے۔ یہی حال ٹکٹ ہولڈرز کا ہے۔ یہ الزام تو مسلم لیگ (ن) پر ہمیشہ لگا ہے کہ وہاں انتخابی ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر دیے جاتے ہیں، پارٹی کارکنوں کا اس میں کوئی کوٹہ تک نہیں ہوتا۔ ٹکٹ دیتے وقت الیکٹ ایبلز یا امیدوار کی مالی مضبوطی سب سے اہم ہوتی ہے، کچھ وزن برادری ازم کو بھی دیا جاتا ہے۔ ایسی پارٹی کبھی مزاحمت کرسکے گی، بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ ماضیِ قریب میں بھی نوازشریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کے باوجود شہبازشریف اور بعض دوسرے رہنما اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، اور یقیناً نوازشریف اس سے باخبر ہوں گے۔ شہبازشریف کا وہ انٹرویو تو بہت عرصے زیربحث رہا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل ان کی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتیں جاری تھیں جن میں کابینہ کے ارکان تک زیر بحث آتے رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ نوازشریف سے بالا بالا ہورہا تھا؟ یقیناً ایسا نہیں تھا۔ پھر نوازشریف کو سزا کے بعد پہلے ملک کے اندر کچھ ہفتوں کے لیے بغرضِ علاج گھر جانے کی اجازت، اور پھر بیرونِ ملک بھجوانے کا کام یقیناً اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ہی ہوا تھا، اور یہ موقع تھا جہاں ’’سلیکٹڈ حکمران‘‘ مکمل طور پر بے بس تھے۔ بیرونِ ملک جانے سے قبل نوازشریف اور مریم نواز کی طویل خاموشی اسی مصالحت کے لیے تھی۔
اب نوازشریف نے عسکری قیادت سے ملاقات نہ کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس پر نہ وہ خود عمل کرسکیں گے، نہ ان کی پارٹی کے اہم لوگ۔ شہبازشریف جیل سے باہر آتے ہی بلکہ شاید جیل میں موجود ہوتے ہوئے ہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کریںگے۔ شاید اسٹیبلشمنٹ بھی ایسا چاہے گی۔ جہاں تک پارٹی کی شریف خاندان سے باہر کی قیادت کا تعلق ہے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ بلکہ عسکری حلقوں سے رابطوں میں رہے گی اور اپنے لیے سازگار ماحول چاہے گی۔ مزاحمتی سیاست ان کے وارے میں نہیں ہے۔ کچھ سر پھرے کارکن ضرور ایسا چاہیں گے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دیں گے، لیکن قیادت کسی وقت بھی اُن کی محنت اور قربانی پر پانی پھیر دے گی۔ اس لیے جناب نوازشریف کی تازہ ہدایت محض ایک بیان ہوگی، اس سے زیادہ پر نہ ان کا خاندان عمل کرسکے گا اور نہ پارٹی۔ ابھی تو انہیں اپنے مقدمات کے سلسلے میں بہت سا ریلیف لینا ہے، اور یہ کام مزاحمت سے نہیں مفاہمت اور یقین دہانیوں ہی سے ہوگا۔