مقبوضہ کشمیر کے ایک اور شہ دماغ بابر قادری کا قتل ۔۔۔۔

حکومتِ پاکستان کو بابر قادری کے قتل پر بھارت سے باضابطہ احتجاج کرتے ہوئے، اقوام متحدہ سے اس قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا

مقبوضہ کشمیر کے ایک اور شہ دماغ، ایک اور بیٹے کو اندھی گولیوں نے خاموش کردیا۔ سری نگر کے 35 سالہ وکیل اور سوشل ایکٹوسٹ، دو ننھی بچیوں کے والد بابر قادری گزشتہ روز شہر کے وسط میں موت کی نیند سلادئیے گئے۔ بابر قادری جس تیزی سے کشمیر کے منظر پر اُبھرے اسی تیزی کے ساتھ دستِ اجل نے انہیں منظر خالی کرنے پر مجبور کردیا۔ وہ حالیہ برسوں میں اُبھرنے والی ایک نئی، توانا اور جان دار آواز تھے۔ بابر قادری وکالت کی دنیا میں اپنا نام بناچکے تھے کہ انہوںنے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیمیناروں اور مذاکروں میں شرکت کرنا شروع کی، جہاں وہ کشمیریوں کی مصیبتوں اور دکھوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ اسی مہم میں وہ پاکستان بھی آئے۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ ’’یا ہم میں دلِ بے تاب نہاں، یا آپ دلِ بیتاب ہیں ہم‘‘ شاید بابر قادری کے لیے ہی کہا گیا تھا۔ برطانیہ کے ویب چینل پر کشمیر کے حوالے سے مذاکروں، مباحث اور ورچوئل سیمیناروں کے دوران بابر سے جب بھی بات ہوتی، اندر سے تلخیوں کا شکار نوجوان مسکراتا ہوا دکھائی دیتا۔
بابر قادری کو اصل شہرت کشمیر کی صورتِ حال پر بھارتی ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحث سے ملی، جہاں اُن کا سامنا ہندو جنونی ریٹائرڈ فوجیوں، بیوروکریٹس اور متعصب ٹی وی اینکرز سے ہوتا تھا۔ بابر قادری کشمیریوں کے دکھوں کی بات کرتے، ان کے حقوق کا تذکرہ کرتے، ان کے سیاسی حقوق کی وکالت کرتے تو انہیں ان مباحث کے دوران پاکستانی ایجنٹ کہا جاتا۔ المیہ یہ کہ کچھ لوگ بھارت کے ٹی وی چینلوں پر اُن کی رونمائی کو بھارتی ایجنسیوں کی آشیرواد قراردینے لگے۔ کشمیر کے موجودہ تنائو زدہ اور مشکوک ماحول میں بھارتی ایجنٹ کا الزام دھرنے کا مطلب کسی کی موت کا پروانہ جاری کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ بابر قادری اصرار کرتے تھے کہ اگر میں نے سچ نہ بولا تو پھر کون سچ بولے گا؟ اور کسی نہ کسی کو سچ بولنا ہے۔ اس روش پر گامزن رہتے ہوئے وہ حریت نواز شخصیات پر بھی تنقید کرتے تھے۔ حقیقت میں وہ ایک آزاد رو اور آزاد منش انسان کے طور پر اُبھرنا چاہتے تھے۔ ان کا ایک پروگرام دنیا بھر میں اُس وقت مشہور ہوا جب پانچ اگست کے بعد ایک ٹی وی پروگرام میں اینکر نے انہیں پاکستان مُردہ باد کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ بابر قادری نے جب اس خواہش کی تکمیل نہیں کی تو اینکر نے خود ہی پاکستان مُردہ باد کا نعرہ لگایا، جس پر بابر قادری نے ہندوستان مُردہ باد کہا، اور یوں اینکر نے انہیں پروگرام چھوڑنے کا کہا۔ بابر قادری نے مائیک کے تار کھول دیئے اور اسٹوڈیو سے چل دئیے۔
کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک سیاسی جماعت کا اعلان بھی کیا جس کے وہ خود صدر تھے۔ بابر قادری پانچ اگست سے پہلے اور بعد میں پتھر بازی کے الزام میں گرفتار ٹین ایجر بچوں کو رہائی دلانے کے لیے سرگرم کردار ادا کرتے تھے۔ بابر قادری مظلوم لوگوں سے فیس بھی وصول نہیں کرتے تھے۔
۔ 1990ء کی دہائی میں بھارت نے عسکری کمانڈروں پر دبائو بڑھانے کے لیے اُن کے عزیر واقارب کو اغوا کرکے قتل کرنے کی حکمت عملی اپنائی تھی، اس حکمت عملی کے تحت کشمیر میں جماعت اسلامی کے چار سو کے قریب پُرامن افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک مقتول کا نام علی محمد میر تھا جو جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے۔ علی محمد میر کو کائونٹر ملی ٹینسی کے اہلکاروں نے اغوا کرکے قتل کردیا اور ان کی لاش بھی اہلِ خانہ کو نہیں دی گئی۔ مقدمے کے دوران ورثاء کو قاتل نے ستّر لاکھ روپے کی پیشکش کی مگر انہوں نے یہ پیشکش مسترد کرکے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ بابر قادری نے یہ مشکل مقدمہ لڑ کر جیتا۔ بابر قادری کا قتل شجاعت بخاری کے بعد وادیِ کشمیر کے ایک اور شہ دماغ کا قتل ہے۔
بابر قادری کا قاتل ہے؟ شجاعت بخاری کی طرح یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے، مگر بابر قادری کا قاتل شجاعت بخاری کی طرح ان کی سرگرمیوں اور بیانات میں موجود ہے۔ بابر قادری کا ایک انٹرویو وائرل ہے جس میں ان کے قاتل کی شبیہ بہت آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ بابر قادری کو اس انٹرویو میں ہندوستان مُردہ باد کا نعرہ لگانے کی وضاحتوں پر مجبور کیا گیا۔ اس نعرے پر ان سے معافی مانگنے کا کہا گیا، مگر بابر قادری نے معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے سید صلاح الدین کو اپنے انکل جیسا کہا۔ شہادت سے چند دن قبل انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرے کا ذکر کیا تھا۔ بابر قادری نے دوٹوک انداز میں کہا کہ موت کا وقت معین ہے، میں بھارتی حکومت سے حفاظتی گارڈ نہیں مانگوں گا۔ ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں کہ میں سچ بات کہوں گا خواہ مجھے گولی ہی کیوں نہ مار دی جائے، مگر کوئی مجھے کیوں مارے گا؟ میں نے کسی کے خلاف بندوق تو نہیں اُٹھائی۔
بابر قادری کے والد ستّر سالہ سید یاسین قادری جماعت اسلامی کشمیر کے سرگرم ارکان میں سے ہیں۔ بیٹے کے قتل پر وہ استقامت کا پہاڑ بنے رہے اور سوئم پر سوگواروں سے انہوں نے جو خطاب کیا وہ تاریخ کا حصہ بنے گا۔ سید یاسین قادری نے اس خطاب میں قاتل کی نشاندہی بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ وہی قاتل، وہی قاضی ہے۔ کسی بے گناہ کو مار کرکہیں گے فلاں کا قاتل مار دیا گیا۔ یاسین قادری کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ پوسٹیں لگانا چھوڑ دو اور پریکٹس بھی چھوڑ دو، گھر میں بیٹھ جائو، میری پنشن تیس ہزار روپے ہے جو گھر کا خرچ چلانے کے لیے کافی ہے۔ اس نے کہا کہ میں گھر نہیں بیٹھوں گا، وہ کیا کریں گے، زیادہ سے زیادہ مجھے گولی ماردیں گے۔ اس موقع پر مجھے سید مودودیؒ کا قول یاد آیا، جب ان کے جلسے پر فائرنگ ہوئی تھی اور کسی نے کہا مولانا بیٹھ جائیں، تو انہوں نے جواب دیا: میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا! یاسین قادری کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ کشمیر ایک الگ شناخت کا حامل خطہ ہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان، امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ، پاکستان، یورپ، امریکہ سمیت دنیا بھر سے تعزیت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔
حکومتِ پاکستان کو بابر قادری کے قتل پر بھارت سے باضابطہ احتجاج کرتے ہوئے، اقوام متحدہ سے اس قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا، کیونکہ بابر قادری کا قتل اندھا رہا تو کشمیر میں نجانے اور کتنے شہ دماغ شجاعت بخاری اور بابر قادری بنتے رہیں گے۔ چند دن قبل انہوں نے اپنے ایک وڈیو پیغام میں یہ شعر پڑھا تھا:۔

نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے