عبدالمجید اچکزئی سیاسی انتقام کی زد میں

معروضی حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ یہ سڑک حادثہ تھا، نہ کہ ارادی قتل

پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری عبدالمجید اچکزئی سیاسی انتقام کی زد میں ہیں۔ وہ 20 جون 2017ء کو زرغون روڈ پر پیش آنے والے حادثے میں بدستور اُلجھا ئے رکھے گئے ہیں، جس میں ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ جاں بحق ہوگئے تھے۔ مجید اچکزئی فوری حراست میں نہ لیے گئے۔ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا مہم چلوائی گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد سے نجی ٹی وی چینلز پر چلوائی گئیں۔ اس کے بعد نیم شب پولیس اور ایف سی مجید اچکزئی کی رہائش گاہ گئیں اور ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ تاثر ان کی روپوشی کا پھیلایا گیا۔ تب مجید اچکزئی بلوچستان اسمبلی کے رکن اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ ان کی جماعت پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی مخلوط حکومت میں شامل تھی۔ درحقیقت وہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو اُس روز ہی مطلع کرچکے تھے کہ جب بھی انہیں تھانہ طلب کرنے کی ضرورت پڑی تو وہ خود پہنچ جائیں گے۔ مگر پولیس ان کے گھر پہنچ گئی اور بتایا گیا کہ مجید اچکزئی چھاپے کے دوران حراست میں لیے گئے۔ تھانے لے جاتے ہوئے ان کی ویڈیو بنائی گئی اور سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی۔ مجید اچکزئی پر قتل، دہشت گردی اور دوسری دفعات قائم کردی گئیں۔ یوں وہ چھے ماہ جیل میں قید رہے، ما بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔ چناں چہ 4 ستمبر 2020ء کو کوئٹہ کی ماڈل کریمنل کورٹ IIکے جج دوست محمد مندوخیل نے انہیں عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمے میں بری کردیا۔ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور قومی ذرائع ابلاغ پر شور اُٹھا۔ ظالم اور مظلوم کا بیانیہ پیش ہونے لگا۔ مرحوم سارجنٹ عطاء اللہ کے بیٹے اور خاندان کے دوسرے افراد ٹاک شوز میں بٹھائے گئے۔ منظرنامہ پہلے کی مانند اب بھی حادثے کے بجائے دانستہ قتل کا پیش ہوا۔ دراصل معروضی حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ یہ سڑک حادثہ تھا، نہ کہ ارادی قتل۔ لواحقین پہلے گمراہ کن طور پر عدم تحفظ اور جان کو درپیش خطرات کا واویلا کرتے رہے۔ گویا سب سوچی سمجھی اسکیم کے تحت چلوایا جاتا تھا۔
عبدالمجید اچکزئی کی بریت کے بعد بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اُنہوں نے بھی بلوچستان حکومت کی جانب سے اعلان کیا کہ حکومت بریت کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گی۔ سچ یہ ہے کہ مرحوم عطاء اللہ کے خاندان کو کسی نے دھمکی دی نہ ہی زور زبردستی والا معاملہ کیا گیا۔ بلکہ مجید اچکزئی کے خاندان کے افراد نے حادثے کے بعد مرحوم عطاء اللہ کے خاندان سے میت آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان منتقل کرنے میں تعاون کیا، مابعد تعزیت کے لیے گئے۔ رسم و رواج کے تحت ان سے روابط بھی رکھے گئے۔ قبائلی عمائدین جرگہ لے کر ان کے گھر گئے تھے اور مسئلہ کافی حد تک حل ہوگیا تھا۔ حتیٰ کہ لواحقین سے بھرپور مالی تعاون بھی کیا گیا۔ بعد ازاں نادیدہ افراد نے تصفیے میں خلل پیدا کیا۔ چناں چہ اب بلوچستان پولیس نے بریت کا فیصلہ عدالتِ عالیہ بلوچستان میں چیلنج کردیا۔25 ستمبر کو بلوچستان ہائی کورٹ نے اپیل سماعت کے لیے منظور کرلی۔ یہ خالصتاً انتقامی عمل ہے جس میں مرحوم عطاء اللہ کے خاندان کو دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ وگرنہ حادثات تو ہوتے رہتے ہیں۔ خود نیشنل ہائی ویز پولیس کے مطابق محض بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات میں سالانہ 6ہزار افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ تو کیا ان حادثات میں بھی لوگوں پر ارادی قتل اور دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں؟ لہٰذا یہاں بھی مقدمہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر پولیس کہتی ہے کہ یہ واقعہ دانستہ قتل کا ہے، تو پولیس کی اپنی کارکردگی پر بھی سوال اُٹھتے ہیں، جس نے تفتیش میں موٹی موٹی غلطیاں کیں، یہاں تک کہ ملزم کی شناخت پریڈ تک نہ کرائی گئی۔ مقدمہ پہلے نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا، کئی دن بعد جب معاملہ میڈیا پر اُٹھا تو مجید اچکزئی نامزد کردیے گئے، اور پھر حد سے تجاوز کرتے ہوئے دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں۔ لہٰذا کوئی اپنے سیاسی انتقام میں مرحوم عطاء اللہ کے بیٹوں اور خاندان کو استعمال نہ کرے۔ نہ ہی نفرتوں کو دوام دینے کی مزید کوشش کی جائے۔ یہاں پہلے ہی نفرتیں موجود ہیں۔ صوبے کے مقامی نوجوان کہتے ہیں کہ دوسرے صوبوں کے لوگ ملازمتوں میں ان کا حق مار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عدالتوں میں جعلی ڈومیسائل کے خلاف درخواستیں لگی ہوئی ہیں۔ شنید ہے کہ بلوچستان حکومت مرحوم عطاء اللہ کے بیٹے کو ملازمت اور پلاٹ دے چکی ہے جس میں مجید اچکزئی کا تعاون بھی شامل ہے۔ اور مقدمے میں دہشت گردی کی دفعہ لگنے کی وجہ سے دہشت گردی کے متاثرین کی امداد کے لیے بلوچستان حکومت کی رائج پالیسی کے مطابق لواحقین کو ستّر لاکھ روپے امداد دی جا چکی ہے۔ خود مجید اچکزئی کے خاندان نے مالی مدد اور تعاون سے ہنوز پہلوتہی نہیں کی ہے۔ حیرت ہے کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس سرِعام پاکستانی شہریوں کو گولیاں برسا کر قتل کرتا ہے۔ اس کی بریت کے لیے پوری ریاست متحرک ہوتی ہے، اور قصاص و دیت کے قانون کے تحت اسے رہا کرایا جاتا ہے۔ جبکہ اپنے ملک کے شہری کو سڑک حادثہ کیس میں سیاسی انتقام کے بھینٹ چڑھانے کی مکروہ سعی کی جاتی ہے۔