ہر محاذ پر ناکام ہونے والی حکومت

خفیہ ملاقاتیں اور اپوزیشن کا نیا اتحاد

جمعرات 24 ستمبر 2020ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے معروف تجزیہ اور کالم نگار ابراہیم کنبھر نے وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی حالات پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے پیش خدمت ہے۔
…………

’’ملک میں بحران ہی بحران ہے۔ ایک بحران کے بعد دوسرا بحران، اور پھر بات آگے بڑھتے بڑھتے کوئی نئی صورت اختیار کرلیتی ہے، جو اس ملک کی ترقی کو روکنے کا باعث بن جاتی ہے۔ ملک نے سوا دو برس میں بڑے بحران دیکھے ہیں، لیکن سب سے بڑا بحران سیاسی بحران ہے۔ اس کی وجہ حکومت کا رویہ ہے۔ حکومت یا اس کے سربراہ باقی تمام سیاسی حلقوں کو ردی کے برابر گردانتے ہیں، جس کے نتیجے میں حکومتی سربراہ کی اَنا کو تسکین ملتی ہے، لیکن حالیہ سوا دو برس میں نہ حکومت نے سُکھ کا سانس لیا ہے اور نہ عوام ہی کو سکون میسر آسکا ہے۔ ملک کی تازہ سیاسی صورت ِحال کو مختلف پیمانوں پر پرکھا جاسکتا ہے۔ حکومت، حکومتی جوڑتوڑ، حکومتی کارکردگی، حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے والی حزبِ اختلاف، حزبِ مخالف کا کردار، پارلیمنٹ اور اس کی کارکردگی، مختلف اداروں کا کردار اور ان سے وابستہ دیگر کئی امور ہیں۔ حکومتی کارکردگی کو جانچنے کے لیے بھی الگ الگ پیمانے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا پیمانہ ملک کی معاشی صورتِ حال ہوا کرتا ہے۔ ملک کے 22کروڑ عوام اور اُن کے مسائل کے حل کے لیے حکومتی سرگرمیاں اور فیصلے، ملک کی خارجہ و دفاعی پالیسی بھی ایسی چیزیں (امور) ہیں جو ملکی ترقی کے اعداد و شمار کو واضح کرتی ہیں۔ اپوزیشن نے روزِاوّل ہی سے 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے کو رد کرڈالا تھا، اگر اس نے اسے قبول بھی کیا تھا تو بطور احتجاج قبول کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان منتخب ہونے کے ساتھ ہی ’’سلیکٹڈ‘‘ کا جو لقب ملا تھا، اس سے وہ تاحال اپنی جان نہیں چھڑوا سکے ہیں۔ بحث اس پر نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم کو پہلے دن یہ لقب کس کے کہنے پر دیا، بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی اپنی کہی ہوئی یہ بات ہے کہ مذکورہ لقب دینے کے بعد دو برس میں جو کچھ میں نے بھگتا ہے وہ مجھے معلوم ہے، لیکن میں اپنی زبان سے نہیں پھروں (ہٹوں) گا۔ سلیکٹڈ کو سلیکٹڈ کہنا ہی بڑی سچائی ہے۔ جن انتخابات کی بنا پر یہ حکومت وجود میں آئی ہے، اسے روزِ اوّل ہی سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے رد کرتے ہوئے حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کی تجویز دی تھی، لیکن مولانا فضل الرحمٰن کی اس تجویز کو دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی نے مسترد کرڈالا تھا۔ پیپلزپارٹی کو تو حکومتِ سندھ ملی تھی، اس لیے وہ اپنی اس صوبائی حکومت کے لیے بڑے مسائل پیدا کرنے یا سندھ حکومت دوسروں کی آغوش میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھی، دوسرا یہ کہ پیپلزپارٹی کی قیادت پر جتنے الزامات اور کیسز تھے، ان سے گلوخلاصی کروانے کے لیے پہلے اس نے ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اپنائے رکھی۔ بعد میں حکومت کی سہولت کاری کے لیے پیپلزپارٹی نے شعوری طور پر متعدد اقدامات کیے۔ پیپلزپارٹی جب بھی اس نوع کا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو نظام کو خطرہ ہونے کی بات کرکے عوام کو اس خوف میں مبتلا کردیتی ہے کہ سسٹم کا کہیں خاتمہ ہی بالادست قوتیں نہ کرڈالیں۔ خیر، مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف اپوزیشن کو اکٹھا کرنے سے لے کر خود نعرہ لگاکر راستوں پر نکلنے جیسے سارے تجربات کرکے بالآخر حزبِ مخالف کی ان ساری جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جو کبھی حکومت مخالف بیانیہ بیان کیا کرتی تھیں، اور کبھی حکومت کے لیے سہولت کار کا کام سر انجام دیا کرتی تھیں۔ یہ مولانا فضل الرحمٰن تھے جنہوں نے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کو قریب لانے، ایک دوسرے کے شکوک و شبہات، الجھنیں اور بے اعتمادی ختم کرکے اس حوالے سے اپنا کردار نبھاتے ہوئے 20 ستمبر کو ایک ایسے اعلامیے پر تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط کروائے جو گزشتہ 15 برس سے سامنے نہیں آیا ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جماعتوں کا آخری اتحاد اے آر ڈی کے نام سے تشکیل پایا تھا۔ یہ اتحاد آمر پرویزمشرف کی غیر جمہوری حکومت کے خاتمے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد مشرف کی سوچ کے خلاف بنایا گیا ہے۔ مشرف اور موجودہ حکومت، یا حکومت کو پسِ پردہ رہ کر چلانے والے کرداروں کی سوچ اسی لیے یکساں ہے کہ دونوں فریق ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس طرح پرویز مشرف سرِعام یہ اعلان کرتے پھرتے تھے کہ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو یعنی نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نے بہت عرصے تک حکومت کی، اب ان کا باب بند ہوچکا ہے۔ اکبر بگٹی سمیت بلوچستان کے تمام قوم پرست سیاست دانوں کو اوپر سے ہٹ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔ سندھ میں وڈیروں کے کچھ ’’پاکٹس‘‘ کو ایم کیو ایم کی جھولی میں ڈال کر دہشت گردوں کے ٹولے کو سندھ پر مسلط کرکے ایک ایسا سندھ بنایا گیا کہ سندھ کے بڑے شہر عملی طور پر سندھیوں سے چھین کر ایم کیو ایم کے حوالے کردیئے گئے، جس کے نتیجے میں متحدہ نے طاقت کے بل بوتے پر سندھیوں پر تعلیمی اداروں اور روزگار کے دروازے بند کرڈالے۔
جس حکومت کو مولانا فضل الرحمٰن روزِاوّل ہی سے تسلیم کرنے سے منکر ہیں، یا بلاول بھٹو جس وزیراعظم کو سلیکٹڈ گردان رہے ہیں، اسی حکومت کے لیے شہبازشریف بھی درست کہتے ہیں کہ کسی سیاسی حکومت کو تاریخ میں اتنی زیادہ حمایت یا مدد میسر نہیں آئی ہے، جتنی اس حکومت کو حاصل ہے، یعنی تحریک انصاف کو۔ اس کے باوجود حکومت نے ہر محاذ پر بدترین کارکردگی اور ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے۔ معاشی حوالے سے موجودہ حکومت نے دو برس میں جو کارکردگی دکھائی ہے اس کا اندازہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قیمت، سونے کے بڑھتے ہوئے نرخ، اسٹاک مارکیٹ کی پوزیشن ہو یا پھر درآمد اور برآمد کی شرح… سب کی کیفیت اور حالت کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشی لحاظ سے اس حکومت نے کتنی ’’کامیابی‘‘ حاصل کی ہے۔ صرف معیشت ہی نہیں، بلکہ تمام تر حمایت اور مدد ملنے کے باوصف وزیراعظم کی سربراہی میں قائم یہ حکومت خارجہ محاذ پر بھی ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ خارجہ محاذ پر ناکام ہونے کی ایک وجہ وزارت خارجہ کو شاہ محمود قریشی یا ازخود عمران خان نے سنبھالنے کے بجائے اسے دوسروں کے سپرد کرڈالا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت نے عملاً کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے، افغانستان کی بے اعتمادی اور بے اطمینانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، چین نے ملک کو سی پیک جیسا تحفہ دیا لیکن اس کے باوجود وہ ملک کی ترقیاتی پالیسیوں پر ناراض بھی ہوتا رہا ہے بلکہ غصے میں آتا رہا ہے، سعودی عرب ہمارے طاقتور حلقوں سے میل ملاقاتوں کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک ایسا عالمی دبائو پڑ رہا ہے جس سے ہماری خودمختاری تو پامال ہوہی چکی ہے، ملکی سلامتی بھی خطرے میں ہے۔ اس ملک میں سیاست دانوں سے سویلین اداروں تک کسی کو بھی اس لائق نہیں سمجھا جاتا کہ وہ کوئی پالیسی سازی کرسکیں۔ خارجہ پالیسی جہاں پر بنتی ہے اس کے نتیجے میں عالمی تنہائی ہمارا مقدر بنتی نظر آرہی ہے۔ اب تو ایف اے ٹی ایف پر حکومت اپوزیشن کے کردار کو روند کر اور قانون سازی کے بل بلڈوز کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ اس ملک کا واحد حل ہی تحریک انصاف ہے، لیکن ہماری اس حکومت نے دراصل کسی بھی محاذ پر کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ زرعی ملک کے طور پر مشہور پاکستان آج کل چینی اور گندم باہر سے منگوا رہا ہے۔ گندم کی فصل تیار ہوتے ہی ملک میں آٹے کا بحران خود حکومت کو بھی پریشان کرگیا کہ آخر ساری گندم گئی کہاں؟ وفاقی کابینہ اس قدر غیر مؤثر ہوچکی ہے کہ گندم، آٹا، چینی اور ادویہ کے بحران کی روک تھام کے لیے اعلان کرنے کے باوجود اس بحران پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پرائس مانیٹرنگ کمیٹیوں کے اس وقت سینکڑوں اجلاس منعقد ہوچکے ہیں، وزیراعظم نے ہر شے کے گراں ہو جانے کا نوٹس لیا، لیکن اس کے باوصف آج بھی چینی ایک سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہورہی ہے۔ آٹے کی جب قیمت بڑھی تو پھر وہ بھی کم نہیں ہوپائی ہے۔
معاشی، خارجہ، دفاعی، سیکورٹی اور زرعی پالیسیاں ناکام ہونے کے باوجود حکومت اپنی کامیابیوں کے گن گانے میں لگی ہوئی ہے۔ جبری جوڑ توڑ سے قائم کردہ حکومت کو سہارا محض اس کے تخلیق کار اور مالک ہی نہیں بلکہ کئی مواقع پر اپوزیشن بھی دیتی رہی ہے۔ اپوزیشن کا عدم اتفاق یا انتشار اور افتراق خود حکومت ہی کے لیے فائدے کا باعث بنارہا ہے۔ اپوزیشن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس نے عوام پر اعتماد کرنے کے بجائے ہمیشہ انہی حلقوں کی جانب دیکھا ہے جن کے توسط سے اسے اختیار کے بغیر اقتدار ملتا رہا ہے۔ اپوزیشن کا دوسرا بڑا مسئلہ اس کی قیادت کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے۔ ایک پارٹی کی قیادت کو ہمیشہ یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ ’’وہ کہیں ہم سے پہلے ڈیل نہ کرجائے‘‘۔ اور یہ ہوتا بھی رہا ہے۔ سیاست میں آج بھی شہبازشریف کا کردار مشکوک ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جہاں تمام پارٹیوں کا رویہ سخت یا جارحانہ رہا ہے، وہاں پر شہبازشریف اب بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ کسی بھی طرح سے مقتدر قوتوں کے ساتھ بناکر چلا جائے۔ جب کہ شہبازشریف کے برادرِ کلاں میاں نوازشریف اور مریم نواز اس مؤقف کے روزِ اول ہی سے مخالف رہے ہیں۔ نوازشریف کی تقریر سے بھی اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں اس وقت بھی دو تین امور زیرِ بحث ہیں۔ اے پی سی میں حکومت مخالف گیارہ جماعتوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے حکومت کے ساتھ ساتھ حکومت کو لانے والوں کو بھی للکارا ہے۔ خفیہ ملاقاتیں کرنے والے مقتدر حلقوں کا خیال تھا کہ ساری اپوزیشن ہمارے ایجنڈے پر چلے گی۔ گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنانے میں کردار ادانہ کرکے، جس سے گویا کہ ان طاقتور حلقوں کو جواب مل گیا ہے۔ تحریک انصاف اتنی طاقت کی حامل نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنا سکے۔ یہ بات بھی سمجھ سے ماورا ہے کہ جس طرح سے تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا نکتہ اپنے منشور میں شامل کرنے کے ساتھ پہلے 100 ایام کے اندر اندر اس پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا تھا، وہ اپنا یہ وعدہ بھول چکی ہے، اور اب گلگت بلتستان جیسے متنازع علاقے کو صوبہ قرار دینے کے لیے عزم کیے ہوئے ہے۔ گلگت بلتستان کو صوبہ قرار دینے سے پیشتر چار صوبوں کی اس فریاد پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جنہیں اپنے وسائل پر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن کے پیسے وفاق کے پاس رکھے ہوئے ہیں یا ان سے پھر براہِ راست کٹوتی کرلی جاتی ہے۔ پانچویں صوبے سے لے کر این ایف سی کو رول بیک کرنے، اٹھارویں ترمیم کے خاتمے پر مبنی بیان اور اس پر تبصرہ آرائیوں پر بھی ایک نظر ڈالی جانی چاہیے، پورے دو برس اس باب میں کیا کیا نہیں کیا گیا ہے؟ اس کے بعد سیاسی پارٹیوں سے پانچویں صوبے کی امید بھلا کس طرح سے رکھی جا سکتی ہے؟ حکومت جس سیاسی بحران کا شکار ہے، اس سے نکلنے کے لیے واحد حل سیاسی ہم آہنگی ہے۔ آئین کی پاسداری، پارلیمنٹ کو اس کی جائز اہمیت کے ساتھ ساتھ پالیسی سازی کا مکمل اختیار دینا، آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا، تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہنے اور عدلیہ کو کلی طور پر آزادی فراہم کرنے میں ہے۔ دوسری صورت میں ایک دوسرے کے پیچھے آنے والی حکومتیں اس بحران یا اس سے بھی کہیں بڑے بحران کا شکار ہوتی رہیں گی، جس کا نتیجہ ملک اور اس کے عوام ہی بھگتتے رہیں گے۔‘‘
ترجمہ: اسامہ تنولی