یادداشت کمزور ہونا بڑھاپا نہیں، بیماری ہے

الزائمر پر تازہ پیش رفت

عالمی یوم الزائمر کے موقع پر نیورولوجی سوسائٹی پاکستان کے زیر اہتمام سیمینار

’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمہیں بچّے کی شکل میں نکالتا ہے۔ پھر تمہیں بڑھاتا ہے کہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ، پھر اور بڑھاتا ہے کہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ۔ اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو۔ وہی ہے زندگی دینے والا اور وہی ہے موت دینے والا۔‘‘ (غافر، 67)۔
قرآن مجید میں خالقِ کائنات مختلف انداز سے مگر بلاغت کے ساتھ انسانی زندگی سمجھاتا ہے کہ انسان کا وجود میں آنا، پیدائش کا طریقہ، طاقت پکڑنا، بچپن، پھر جوانی، اس کے بعد ادھیڑ عمر ہوتے ہوئے بڑھاپے کا آجانا لازمی ہے۔ اب ان مدارج کے بعد موت کی ترتیب کی وضاحت کہ کوئی پہلے تو کوئی بعد میں۔ یہ انسان کے لیے مقرر کردہ نظام کی تشریح ہے جو تبدیل نہیں کی جاسکتی، اور یہ نظام کسی بڑے نظام کا آئینہ دار ہے جسے انسان سمجھ نہیں پارہا۔
۔ 1906ء میں جرمن ماہر نفسیات لوئیس الزائمرکے تجربات سے بوڑھے افراد میں دریافت ہونے والی دماغ کی اس بیماری کو اُسی کے نام یعنی الزائمر سے موسوم کردیا گیا۔یہ بنیادی طور پر یادداشت کے مرض ڈیمینشیا کی بدترین شکل ہے جو پاکستان میں اموات کی وجوہات میں چھٹے نمبر پر ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے اس بیماری کے پھیلاؤ اور اہمیت کے پیش نظر ہر سال21ستمبر اس کے نام کردیا۔ دنیا بھر میں اس بیماری سے آگہی کے لیے مختلف این جی اوز، سوسائٹیاں اور تنظیمیں اپنے دائرے میں مختلف سرگرمیاں منظم انداز سے ترتیب دیتی ہیں۔ امسال عالمی یومِ الزائمرز کے موقع پر پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے زیر اہتمام آغا خان اسپتال کے تعاون سے ’الزائمرز پرتازہ پیش رفت‘ کے عنوان سے ایک ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔ ویبینار کا مقصد یادداشت، سوچنے و معذورکرنے والی اِس جان لیوا بیماری اور اس کے علاج کی جانب ہونے والی پیش رفت و طریقہ کار کو فروغ دینا تھا۔ ویبینار میں پاکستان سمیت 3 ممالک سے 9 ماہرینِ دماغ و اعصاب نے مختلف موضوعات پر تازہ تحقیق پیش کی۔ ’پاکستان میں ڈیمینشیا کا بڑھتا بوجھ‘ کے عنوان سے ایسوسی ایٹ پروفیسر لیاقت کالج آف میڈیسن ڈاکٹر عبدالمالک نے کہاکہ اس مرض کا شکار عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں اور پاکستان کی آبادی میں اس وقت 4.3 فیصد عوام 60 سال سے زائد عمر کے ہیں، اور دستیاب ڈیٹا کے مطابق اُن میں 10فی صد افراد الزائمر کا شکار ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان میں بھی ڈیمینشیا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے کے امکانات ہیں، اس کے لیے زیادہ سے زیادہ عوامی آگہی درکار ہے۔
انڈین اکیڈمی آف نیورولوجی کے صدر، نئی دہلی سے ڈاکٹر من موہن نے عالمی پس منظر میں الزائمرزکے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہاکہ الزائمرز کے 50 ملین مریض دنیا بھر میں سامنے آچکے ہیں جن کی تعداد 2050ء تک 152 ملین ہونے کا امکان ہے۔ جرمن ماہر نفسیات لوئیس الزائمر نے 1906ء میں اس بیماری کو سب سے پہلے تلاش کیا، آج ہر گزرتے منٹ میں اس کا ایک مریض سامنے آرہا ہے، بڑھتی عمر اس بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے، جبکہ جدید تحقیق کے نتیجے میں اس بیماری کے تین مزید رسک فیکٹر الکحل کا استعمال، فضائی آلودگی اور دماغ کو پہنچنے والی چوٹ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ امریکہ سو ارب ڈالر ڈیمینشیا کے مریضوں کی نگہداشت و علاج کے لیے خرچ کررہا ہے۔
سنگاپور سے ڈاکٹر کیرا جون نے الزائمرز میں ڈپریشن کے علاج کے حوالے سے ہونے والی نئی تحقیق پیش کرتے ہوئے بتایا کہ الزائمرز کے رسک فیکٹرز میں ڈپریشن، ہائپر ٹینشن، مٹاپا، تمباکو نوشی بھی شامل ہیں۔
ڈپریشن کے علاج کے لیے ’ورٹی اوکسیٹائن‘ پر ہونے والی اب تک کی تمام اسٹڈیز مؤثر ثابت ہوئی ہیں، پاکستان میں بھی اس دوا کی اسٹڈی ڈیٹا اینالائسز کے مرحلے میں ہے جو ڈپریشن کو قابو کرنے میں انتہائی کم سائڈ ایفیکٹس کے ساتھ خاصی مددگار ثابت ہوگی۔آغا خان اسپتال کے صدر شعبہ نیورولوجی ڈاکٹر محمد واسع نے الزائمرزکے علاج کے حوالے سے کہاکہ الزائمرزکا علاج طویل ہوتا ہے، جو بروقت نہ شروع نہ ہو تویہ مرض 6-7 سال میں انتہائی شدت اختیار کرلیتا ہے۔ ادویہ موجود ہیں جو کہ صرف مرض کی رفتار کو کچھ سال پیچھے کرتی ہیں اگر مریض شروع سے زیر علاج ہو۔ انہوں نے کہاکہ اس بیماری میں دوا کے ساتھ سب سے اہم کام گھر والوں کا ہوتا ہے جو مریض کی توجہ سے نگہداشت کرکے مرض کو پیچیدگی و معذوری کی جانب لے جانے سے روکتے ہیں۔ اس کے لیے مریض کے گھر والوں کی کونسلنگ کی جاتی ہے کہ وہ بے حد ادب و احترام کے ساتھ مریض کی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔
سینئر پروفیسر ڈاکٹر اعجاز وہرہ نے پینل ڈسکشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ مریض کی نگہداشت کے لیے ہمیں خاندان اور سوشل نیٹ ورک کو مضبوط کرنا ہوگا کہ اولادیں ہی اپنے والدین کا خیال رکھیں۔ ہمیں اولڈ ہومز کی ضرورت نہیں۔ معروف ماہرِ نفسیات و صدر شعبہ نفسیات جناح اسپتال پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہاکہ ٹریٹمنٹ گیپ کی وجہ سے عوام اس کو مرض کے بجائے بڑھاپے کے اثرات جان کر ڈاکٹر سے رجوع ہی نہیں کرتے، دوسری جانب پاکستان میں مرض کے مطابق اس کے بحالی مراکز بھی موجود نہیں ہیں۔
آغا خان اسپتال سے ڈاکٹر ساجد حمید نے اس مرض کی ابتدائی تشخیص کے لیے دنیا بھر میں بطور اسکریننگ ٹول منی مینٹل اسٹیٹ ایگزامنیشن کی تفصیل و افادیت بتاتے ہوئے کہاکہ دس منٹ کے اس ٹیسٹ میں 11سوالات سے مریض کی یادداشت، پہچان، توجہ، حساب کرنے کی ابتدائی صلاحیت دیکھی جاتی ہے۔ ڈاکٹرسلیم اللہ نے الزائمرز کو روکنے کے حوالے سے بتایا کہ اس بیماری کو روکنے یا دور کرنے کے لیے بچوں کی اچھی ابتدائی تعلیم بھی اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے صدر بولان میڈیکل کالج کوئٹہ سے ڈاکٹر سلیم باریچ نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس موضوع پر سی ایم ای اور تربیتی پروگرامات کی ضرورت ہے، جس کے ساتھ ساتھ مریضوں کے لیے بھی ایک کاسٹ ایفیکٹو حل دینا ہوگا۔
پس یہ جان لیں کہ بڑھاپا اپنے ساتھ جو چیزیں لاتا ہے اُن میں ممکنہ طور پر دماغ کی ایک بیماری الزائمرز بھی ہوسکتی ہے۔ اس بیماری کے اثرات سے دماغ آہستہ آہستہ کمزور اور سست ہوتا چلا جاتا ہے، جس کے اظہار کے لیے مریض کی یادداشت متاثر ہوتی نظر آتی ہے اور وہ معمولی کام بھی انجام دینے سے قاصر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اکثر اس غلط فہمی میں ہوتے ہیں کہ بھول جانا یا کنفیوژ ہوجانا، یا کوئی چیز رکھ کر بھول جانا بڑھاپے کی علامت ہے، مگر ایسا نہیں۔یہ بڑھاپے کی نہیں بلکہ توجہ نہ دینے پر ایک جان لیوا بیماری کی علامت ہے جسے الزائمرز کہتے ہیں۔ اکثر آپ نے سُنا ہوگا کہ کچھ حکیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ بڑھاپے میں اپنے دماغ کو جوان رکھنا چاہتے ہیں تو گری دار خشک میوہ جات جیسے مونگ پھلی، اخروٹ، پستہ، بادام، چلغوزے اور کاجو وغیرہ کھانا اپنی عادت بنالیں۔ مگر جان لیں یہ حکیمی نسخہ ہوسکتا ہے مگر تاحال کئی مریضوں پر کیے گئے طبی تجربات کے بعد ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ خشک میوہ جات یادداشت بڑھاتے ہیں۔ تاہم یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ بچوں کی ابتدائی عمر میں اچھی تعلیم یا زیادہ سے زیادہ دماغی ایکسرسائز یا ایسے کام جن میں دماغ کا استعمال زیادہ ہو، وہ دماغ کو مضبوط رکھنے کا سبب ضرور ہیں۔ پاکستان میں، جہاں کروڑوں شہری غربت کا شکار ہیں اور علاج معالجے کی مناسب سہولیات تک ہر شہری کو بروقت اور مکمل رسائی حاصل نہیں ہوتی، ڈیمینشیا اور الزائمرز کے مریضوں کی اکثریت خاص طور پر برے حالات کا شکار رہتی ہے جنہیں گھر میں بھی عزت، توجہ و نگہداشت نہیں مل پاتی، اور باہر تو بحالی کے ادارے ہیں ہی نہیں۔