مسلمانوں کو دورِ حاضر میں درپیش مسائل اور امتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور انہیں ایک لفظ میں سمونا مقصود ہو تو بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ’’تفرقہ‘‘ … قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایت بلکہ حکم ہے کہ ’’ولاتفرقو‘‘… مگر اس دوٹوک حکمِ ربی کے باوجود امت کا معاملہ عجیب ہے کہ خالق و مالک کے حکم کے اعتراف، فرقہ بندی کے ہمہ اقسام مضمرات کے ادراک، اتحاد و اتفاق کی برکات پر لاکھوں صفحات سیاہ کیے جانے اور بے شمار خطبات کی سماعت کے باوجود پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے، جسدِ ملّت علاج اور اس سے نجات پر آمادہ ہے نہ تیار… ہر کوئی اس میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی خود کو بری الذمہ قرار دے کر تمام تر ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی روش اپنائے ہوئے ہے، اس روش کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں ’’امتِ مسلمہ‘‘ کا وجود ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ حکیم الامت، شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے اسی کیفیت پر اپنے دلی اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا:۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اختلافِ رائے کو امت کے لیے باعثِ رحمت قرار دیا گیا ہے، مگر ہمارے یہاں اپنوں کی شب و روز کی کاوشوں اور غیروں کی مسلسل سازشوں نے اس رحمت کو زحمت اور انتشار و افتراق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مخالفت و مخاصمت کا ذریعہ بنادیا ہے ۔ رسولِ رحمت، خاتم النبیین، محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ؐ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں دینِ حق کی تکمیل کی عظیم خوش خبری سناتے ہوئے امت کو ہر طرح کے اسبابِ تفاخر کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھ کر نجات کی واحد راہ تقویٰ کو قرار دیا تھا، مگر آج رنگ، نسل، علاقہ، زبان، وطن، قبیلہ، ذات، برادری، ارادتوں، عبادتوں اور فرقوں سمیت نہ جانے کون کون سے تعصبات اس امت میں راہ پا چکے ہیں، ہادیِ برحقؐ نے جس جس تعصب سے بچنے اور دور رہنے کی ہدایت اپنے پیروکاروں کو فرمائی تھی آج وہ سب امت کے پیروں کی زنجیر بن چکے ہیں۔ ہر ہر مسلمان عشقِ مصطفیؐ کا دعویدار تو ہے مگر رسول اللہؐ کی تعلیمات و ہدایات کو زندگیوں کا حصہ بنانے پر کوئی تیار نہیں۔یہی وہ کرب انگیز کیفیت ہے جو پروفیسر ڈاکٹر اختر حسین عزمی کی زیرنظر تصنیف ’’آدابِ اختلاف اور اتحادِ امت‘‘ کا موضوع ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اختر حسین عزمی پیشے کے لحاظ سے ہی نہیں، اپنی گفتار اور کردار کے لحاظ سے استاد، داعی اور مبلغ ہیں، لاہور کے گورنمنٹ کالج ٹائون شپ میں شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے نئی نسل کو دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ آپ نہایت خوشگوار اور محبت کرنے والی شخصیت ہیں، مثبت طرزِ فکر اور تعمیری سوچ جن کی شناخت ہے، دلوں میں امید کی شمع جلانا اور مایوسی سے نجات دلانا ان کی زندگی کا مشن ہے۔ مختصر یہ کہ ان کا شمار ’’جن سے مل کے زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ‘‘ میں ہوتا ہے۔ قبل ازیں علم کے پہاڑ، مفسرِ قرآن مولانا امین احسن اصلاحی کی شخصیت، افکار اور خدمات پر ان کا ایک مبسوط مقالہ شائع ہوچکا ہے، اب ’’آدابِ اختلاف اور اتحادِ امت‘‘ کے نام سے ان کی جامع تصنیف وطنِ عزیز کے باوقار اشاعتی ادارے اسلامک پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔ کتاب کا انتساب، دست و بازو اور ٹانگوں تک سے محروم مگر اشاعتِ دین کے لیے بے پناہ متحرک، ناقابلِ یقین صلاحیتوں کی مالک ایک شخصیت کے نام ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اللہ داد نظامی مرحوم کے نام… جنہوں نے اپنی جسمانی معذوری کو خدمتِ دین کے کام میں رکاوٹ نہ بننے دیا، جن کے بار بار اصرار پر میں نے یہ کتاب لکھنا شروع کی اور میں نے لکھنے میں دیر کردی… جب کہ انہیں جانے کی جلدی تھی اور
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی!۔
کتاب کے آغاز میں مختلف مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کی تقاریظ شامل کی گئی ہیں جن سے ان اہم اہلِ علم و فکر حضرات کی جانب سے مصنف کے مؤقف کی تائید و توثیق ہوتی ہے، اور یہ آرا کتاب کی اہمیت و افادیت میں اضافے کا سبب بھی ہیں۔ ’’حدیثِ دل‘‘ میں مصنف خود کتاب کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’کتاب کا موضوع محققانہ اور علمی نوعیت کا ہے لیکن میں نے اسے دلائل سے زیادہ بوجھل ہونے سے شعوری طور پر بچانے کی کوشش کی ہے، کیونکہ میرے مخاطب علماء سے زیادہ کالجوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ و تلامذہ اور وہ ’’نیم ملا‘‘ ہیں جو عوام کے لیے خطرۂ ایمان بنے ہوئے ہیں، اور ان کے لیے ہلکی پھلکی تحریر ہی مؤثر رہتی ہے۔ اس لیے دلائل سے زیادہ تاریخی حکایات اور روزمرہ کے واقعات کا سہارا لیا ہے۔ اگرچہ علماء کے لیے یہ واقعات نئے نہیں ہوں گے، لیکن ان کو سوچنے کا زاویہ تبدیل کرنے پر ضرور آمادہ کریں گے۔
ان واقعات کے بیان میں یہ بات ملحوظ رکھنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی فرقے، تنظیم، شخصیت سے منسوب کسی بھی منفی بات یا واقعے میں اس کا نام نہ لیا جائے، اِلاّیہ کہ واقعے کے بیان کی حقیقی افادیت اس کے نام کا تقاضا کررہی ہو۔ باقی مثبت پہلو سے متعلق شخصیات اور مسالک کا نام ضرور لکھا ہے تاکہ ان کی قدر افزائی ہو اور یہی سنتِ نبویؐ ہے۔‘‘
مصنف نے کتاب کے موضوع کے مطابق نہایت محنت اور عرق ریزی سے لوازمہ فراہم کیا ہے جس سے ان کی وسعتِ مطالعہ اور مشاہدے کی گہرائی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ کے ہزاروں اوراق کھنگال کر اسلام کے دورِ اوّل سے ماضیِ قریب تک کے ممتاز علماء کی زندگی سے ایسی روشن عملی مثالیں کشید کی ہیں کہ کس طرح ہمارے بزرگ اختلافِ فکر و نظر کے باوجود اتحاد و اتفاق کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور امت کے اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتے تھے۔
کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جو مزید فصول میں منقسم ہیں۔ ابواب کے موضوعات کی اہمیت کا اندازہ ان کے عنوانات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے جو کچھ یوں ہیں: (1) فرقہ پرستی کے نقصانات ،(2) آدابِ اختلاف، (3) حقیقتِ اختلاف و رواداری، (4) شیعہ سنی اختلاف، (5) علاج۔ آخری باب اس لحاظ سے بہت زیادہ اہم ہے کہ مصنف نے مرض کی محض تشخیص اور نشاندہی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کا مؤثر و شافی علاج بھی تجویز کیا ہے۔
کتاب نہایت عمدہ کاغذ پر، مضبوط جلد، دلکش رنگین سرورق اور گرد پوش کے ساتھ اعلیٰ معیار ِطباعت کا حسین مرقع ہے۔