توکل

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت سبیعتہ اسلمیؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا: ۔
’’تم میں سے جو مدینہ میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو کوشش کرے کہ اسے مدینہ میں موت آئے، اس لیے کہ جسے مدینہ میں موت آئی، میں قیامت کے روز اس کے لیے شفیع یا گواہ ہوں گا‘‘۔
(طبرانی فی الکبیر)

توکل کا مفہوم

توکل علی اللہ یہ ہے کہ انسان اللہ پر ہی بھروسہ کرے، اسی پر اعتماد رکھے اور اپنا معاملہ اسی کے سپرد کردے، ہر معاملے میں اسی سے مدد طلب کرے۔ یقین کرے کہ اللہ کی قضاء و قدر نافذ ہے اور تمام انبیاء کی طرح دنیاوی کاموں، کھانا، لباس، رہائش اور دشمن سے بچنے کے لیے کوشش کرنا ضروری ہے… توکل کا محل قلب ہے۔
امام قشیریؒ فرماتے ہیں:۔
’’ظاہری عمل، قلبی توکل کے منافی نہیں ہے۔ جب آدمی کا یقین ہو کہ تقدیر اللہ عزوجل کی طرف سے ہے، اگر انسان پر تنگی آئے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر سہولت ہو تو بھی اللہ کی جانب سے ہے۔‘‘

توکل کی ضرورت

کشمکشِ حیات میں انسان مختلف تکالیف و آلام سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ پریشانیاں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی۔ ان حالات میں انسان زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنے اور دوسروں کے لیے نفع رسانی کا اہم کردار ادا نہیں کرسکتا، اس کی مادی اور روحانی قوتیں معطل ہوجاتی ہیں۔ وہ ایک بے قیمت چیز اور ایک جنس کا سُد بن کر رہ جاتا ہے جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ انسان کی زندگی اسی وقت خوش گوار ہوسکتی ہے اور وہ اسی صورت میں اپنا مکمل کردار ادا کرسکتا ہے جب اسے سکونِ نفس، اطمینانِ قلب، راحت ِ جان اور عافیت ِبدن حاصل ہو، اور اس کے لیے اُسے اللہ پر اعتماد کرنا ہوگا۔ اس کے متعلق حسنِ ظن رکھنا ہوگا، اسی کی ذات پر توکل کرنا ہوگا اور اپنے تمام معاملات اسی کو سونپ دینے ہوں گے۔ حدیث ِقدسی میں ہے:
’’میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔‘‘
پھر توکل علی اللہ ایک ایسی ضرورت ہے کہ عالم و عامل، مردوزن، حاکم و محکوم اور برنا وپیر سب اس کے محتاج ہیں۔ ان سب کو ایک شفیق مگر زور آور ہاتھ کی ضرورت ہے جو ایک طرف تو ان کی پیش قدمی میں ان کا معاون ہو اور دوسری طرف ان کے آلام و مصائب کو کم کرے۔

دعوت ِتوکل

اسلام نے صفت ِ توکل سے متصف ہونے کی دعوت بڑی وضاحت سے دی ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ توکل کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور اس خدائے زندہ پر بھروسہ رکھو جو کبھی نہیں مرے گا۔‘‘ (فرقان 58)۔
توکل ایمان کے ثمرات میں سے ہے۔
’’اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔‘‘ (ابراہیم۔11)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اللہ سے خوش گمانی اس کی عبادت ہے۔‘‘ (ابودائود، ترمذی، حاکم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوںکی مانند ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ وہ متوکل ہوں گے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے، جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دیتا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ نکل جاتے ہیں، شام کو شکم سیر ہوکر واپس آتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)۔
ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلتے وقت فرمایا کرتے تھے: ’’اللہ کے نام سے، میں نے اللہ پر توکل کیا، اے میرے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں گمراہ ہوجائوں یا گمراہ کیا جائوں۔ لغزش کھائوں یا پھسلایا جائوں، ظلم کروں یا ظلم کیا جائوں، میں کسی پر جہالت کا مظاہرہ کروں یا میرے خلاف جہالت و نادانی کا اظہار کیا جائے۔‘‘
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص گھر سے نکلتے وقت بسم اللہ توکلت علی اللٰہ ولاحول ولاقوۃ بااللٰہ پڑھے اسے کہا جاتا ہے تجھے ہدایت دی گئی، تیری کفایت کی گئی، تجھے بچالیا گیا اور شیطان تجھ سے دور کیا گیا۔‘‘

توکل اور اسباب

توکل علی اللہ کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ انسان ذرائع و اسباب سے کام لینا چھوڑ دے، بلکہ صحیح توکل یہ ہے کہ انسان اپنے کام کے لیے مناسب تدابیر اور تمام ممکنہ اسباب و ذرائع اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سبب اور مسبب، عمل اور نتیجہ میں ربط کو ظاہر فرمایا۔
انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسباب و ذرائع کو اپنائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مکلف قرار دیا ہے اس کا فطری تقاضا ہے کہ انسان اسباب و ذرائع کا محتاج ہے۔ اسباب کو ترک کرنا، فطرت کے خلاف چلنا ہے اور امر الٰہی کی صریح مخالفت ہے۔ قرآن مجید میں جابجا اسباب کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں چند آیات بطور مثال پیش کی جاتی ہیں۔
’’تم زمین کی راہوں پر چلو پھر اور خدا کا دیا ہوا رزق کھائو۔‘‘ (المک: 15)۔
’’جہاد کے لیے ہتھیار لے لیا کرو، پھر یا تو جماعت جماعت ہوکر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو۔‘‘ (النساء:71)۔
’’اور جہاں تک ہوسکے فوج کی جمعیت کے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو۔‘‘ (الانفال:60)۔
’’اور زادِراہ لے لیا کرو اور بہترین زادِراہ تقویٰ ہے۔‘‘ (البقرہ: 197)۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو مخاطب کرکے مندرجہ ذیل حکم دیا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کو بچاسکیں تاکہ وہ عذابِ الٰہی سے نجات پائیں:۔
’’تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو۔‘‘ (ہود: 81)۔
اسی قسم کے موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’میرے بندوں کو راتوں رات لے کر چلے جائو اور فرعونی ضرور تمہارا تعاقب کریں گے۔‘‘ (الدخان 23)
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج معالجہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! دوا کیا کرو۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں پیدا کی جس کی شفا نہ بنادی ہو (یعنی ہر مرض کی دوا اور شفا بنائی ہے۔)‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باوجودیکہ سیدالمتوکلین تھے، پھر بھی آپ ہر کام کی مکمل تیاری کرتے تھے۔ دشمن سے مقابلے کے لیے مقدور بھر تیاری فرماتے، فتح و ظفر کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاتے، خود محنت اور کوشش فرماتے، دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔ آپؐ نے کبھی بھی مقصد ِ پیش نظر کے لیے ضروری اسباب کو ترک نہیں فرمایا، اس لیے کہ ترک ِاسباب اس نظام سے بے رخی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زندگی کے لیے وضع فرمایا ہے، اور نظامِ حیات سے بے توجہی کرکے کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ایک شخص بارگاہِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہوا۔ اُس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی اونٹنی کو مسجد کے دروازے کے پاس باندھے بغیر یوں ہی چھوڑ دے۔ اس نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا:۔
’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ آپؐ نے فرمایا: اسے باندھ اور پھر اللہ پر توکل کر۔‘‘ (ترمذی نے حسن اور طبرانی و بیہقی نے عمرو بن ابیہ الضمری سے روایت کی ہے)۔
توکل تو اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے کہ انسان اسباب اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کے قوانین و احکام کی پیروی کرے، پھر اللہ پر اعتماد کرے، اپنا معاملہ اس کو سونپ دے اور پھر نتائج اسی کے حوالے کردے۔ اایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔

ترجو النجاۃ ولم تسلک مسالکھا
انّ السفینۃ لاتجری علی الیبس

ترجمہ: ’’تم نجات کی امید لگائے بیٹھے ہو مگر تم نجات کی راہوں پر نہیں چلے، کشتی کبھی خشکی پر نہیں چلا کرتی۔‘‘
ترجمہ: محمد ظہیر