اصل مجرموں کو بچالیا گیا؟
تحریک انصاف کی اتحادی ایم کیو ایم کی تاریخ دہشت گردی کی تاریخ ہے، اس کی شناخت دہشت گردی ہے، اور بدقسمتی سے اس کی دہشت گردی ریاست کی سرپرستی میں تاریخی طورپر جاری رہی۔ ایم کیو ایم کے ہاتھوں شہر کراچی میں بلدیہ فیکٹری کا سانحہ انتہائی ہولناک، خوفناک، دل ہلا دینے والا صرف ایک واقعہ تھا، کراچی میں ایم کیو ایم نے اس طرح کی سینکڑوں دہشت گردیاں کی ہیں جس پر یقیناً کتاب لکھی جانی چاہیے تاکہ آئندہ آنے والی نسل کو معلوم ہوسکے کہ ایم کیو ایم نے ریاست کی سرپرستی میں اپنے وقتی مفادات کے لیے کس طرح سے روشنیوں کے شہر کو منظم انداز میں برباد کیا، اور لگتا ہے بدقسمتی کا سلسلہ آج بھی اسی طرح برقرار ہے اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کے فیصلے میں ایم کیو ایم کی قیادت اور اس کے اہم رہنمائوں کو بچا لیا گیا ہے، کیوںکہ شہر کراچی میں رہنے والا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ سانحہ ایم کیو ایم کے کسی انفرادی گروہ، شخص یا دو شخصیات کا ڈیزائن کردہ نہیں تھا، بلکہ اس میں ایم کیو ایم کے ذمہ دار ملوث رہے ہیں، اور بھتہ خوری کے منظم دھندے میں ’’نہ‘‘ کرنے کی سزا فیکٹری اور اس میں موجود انسانوں کو جلا کر دی گئی تھی۔
عدالت کا بھی یہی کہنا ہے کہ ابتدا میں آتشزدگی کو حادثہ قرار دینے اور اس کی ذمہ داری فیکٹری مالکان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس واقعے کی سچائی تو شہر کا بچہ بچہ جانتا تھا۔ نہ جانے کیوں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ جان سکے۔ انہیںاُس وقت معلوم ہوا یا کوئی نئی پالیسی بنی کہ اس واقعے کے ایک سچ کو تو سامنے لایا جائے، اور مالکان کی گرفتاری اور ان کے بیانات کی روشنی میں پھر یہ انکشاف ہوا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی منظم سازش تھی، اور آگ حادثاتی طور پر نہیں لگی تھی بلکہ بھتہ نہ ملنے کی وجہ سے جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔
اب جو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سنایا ہے اُس میں مزدوروں کو زندہ جلا دینے کے الزام میں گرفتار ایم کیو ایم کے 2 ملزمان زبیر عرف چریا اور عبدالرحمان عرف بھولا کو سزائے موت سنائی گئی ہے، اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں نامزد چار دیگر ملزمان رؤف صدیقی، اقبال ادیب خانم، عمر حسن قادری اور عبدالستار کو عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا ہے۔ جن ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ان میں شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد شامل ہیں۔
آگ لگنے کا یہ واقعہ 11 ستمبر 2012ء کی شام حب ریور روڈ پر واقع علی انٹرپرائزز نامی گارمنٹس فیکڑی میں اچانک پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں وہاں کام کرنے والے 259 مزدور جل کر ہلاک اور 50 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ واقعات کی جو تفصیلات جے آئی ٹی کی صورت میں سامنے لائی گئی ہیں اس میں اہم بات یہ ہے کہ آگ ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے حکم پر بھتے کی عدم ادائیگی پر لگائی گئی، اور اس مقدمے میں فارنسک شواہد، کیمیکل رپورٹس کے علاوہ استغاثہ نے 400 گواہ بھی پیش کیے، تو پھر سوال یہ ہے کہ حماد صدیقی نے کس کے حکم پر یہ آگ لگائی؟ اس سوال کے جواب میں خاموشی ہے۔ واقعہ کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایم کیو ایم کی ماضی میں ریاستی سرپرستی میں بھتہ خوری کا تسلسل تھا۔ مذکورہ واقعے کی تفصیلات یہ ہیں کہ فیکٹری مالکان سے ایم کیو ایم کی جانب سے 20 کروڑ روپے بھتے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ملزم زبیر چریا فیکٹری میں ہی ملازم تھا، جس نے ایم کیو ایم بلدیہ سیکٹر کے انچارج عبدالرحمان بھولا کے ذریعے تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کو اطلاع فراہم کی تھی کہ فیکٹری کو جرمنی سے ایک بڑا ٹھیکہ ملا ہے، جس کے بعد سے پہلے بھتے کے مطالبے شروع ہوئے، جو مالکان کے انکار پر دھمکیوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ گیارہ ستمبر کی شام فیکڑی کے تمام خارجی راستے بند کرکے کیمیکل کے ذریعے آگ لگائی گئی۔ فیکٹری کے اندر ایک منزل کو لکڑی کے فرش کے ذریعے دو فلورز میں تقسیم کیا گیا تھا، کھڑکیوں اور روشن دانوں پر لوہے کی گِرل نصب تھی اور ہنگامی حالت میں فیکٹری سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین دم گھٹنے اور جل کر ہلاک ہوئے۔ اکاؤنٹنٹ عبدالمجید نے اپنے بیان میں جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ واقعے والے روز رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب شاہد بھائیلہ نے دفتر سے فائل لانے کے لیے کہا جو گودام کے ویئر ہاؤس کے قریب واقع تھا۔ اسی دوران اُس نے ایک عجیب سی بُو محسوس کی جو اس سے قبل کبھی محسوس نہیں کی تھی، وہ دفتر سے باہر آیا تو اس نے آگ کی چنگاریاں دیکھیں اور پلک جھپکنے میں شعلے بلند ہوگئے، وہ خوف زدہ ہوگیا اور انتظامیہ کے دفاتر کی طرف بھاگا۔ ڈائریکٹر اسٹاف کے ساتھ پہنچا اور حکم دیا کہ مین سوئچ آف کردیں تاکہ شارٹ سرکٹ سے بچا جا سکے۔ اس نے بتایا کہ وہاں گرمائش اس قدر تھی کہ کھڑا ہونا دشوار تھا۔ پروڈکشن منیجر محمد منصور نے بھی اس بیان کی توثیق کی اور جے آئی ٹی کو بتایا کہ 11 ستمبر کو وہ ارشد اور شاہد بھائیلہ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عبدالمجید چلّایا کہ فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے، جب دفتر سے باہر آئے تو آگ پھیل چکی تھی، عبدالمجید کو فائر بریگیڈ لانے کے لیے بھجوایا گیا جو ڈیڑھ گھنٹہ گزرنے کے باوجود نہیں پہنچی۔ فیکٹری کے گیٹ کیپر ارشد محمود نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ رات کو تقریباً آٹھ بجے فیکٹری کے فنشنگ ڈپارٹمنٹ میں ملازم زبیر عرف چریا سے ملا۔ اُس وقت زبیر پانچ دیگر لوگوں کے ساتھ تھا جن میں وسیم دہلوی بھی شامل تھے، جبکہ دیگر کو وہ نہیں جانتا۔ زبیر نے کہا کہ انھیں واش رومز کی طرف لے جاؤ۔ کچھ دیر کے بعد زبیر بھی آگیا اور اس نے چرس بھری سگریٹ دی۔ چونکہ فیکٹری میں سگریٹ پینا منع ہے تو میں ڈر گیا کہ کوئی رنگے ہاتھوں پکڑ کر انتظامیہ کے حوالے نہ کردے۔ زبیر نے سیاہ رنگ کے لفافے اپنے دوستوں کو دیے (جن میں کوئی مواد موجود تھا)، جو زبیر نے ویئر ہاؤس میں پھینکے… دس سیکنڈ میں آگ بھڑک اٹھی۔ تمام افراد ویئر ہاؤس سے نکل گئے۔
خبر کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ارشد محمود نے 15 سے 20 ملازمین کے ساتھ آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ قابو سے باہر ہوگئی۔ اس نے دوبارہ دو تین منٹ کے بعد زبیر کو دیکھا۔ جب آگ دوسری منزل پر پہنچ گئی تو اس نے مالکان کو یہ کہتے سنا کہ سامان نہ بچاؤ، لوگوں کی زندگیاں بچاؤ۔ جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں ارشد محمود نے مزید کہا کہ وہ فیکٹری کے دوسرے بلاک کی طرف دوڑا، لیکن سیکنڈ فلور پر سیڑھیوں کا راستہ بند تھا جبکہ کینٹین کی طرف جانے والا دروازہ بھی بند تھا، کسی نے اس کو کینٹین کی چابی دی اور جب اس نے دروازہ کھولا تو حیران ہوا کہ زبیر اور کچھ اجنبی موجود تھے۔ پروڈکشن منیجر محمد منصور نے بھی اپنے بیان میں اس صورت حال کی تصدیق کی اور کہا کہ فیکٹری ورکرز کاشف اور شانی نے زبیر اور وسیم دہلوی کو چند اجنبیوں کے ساتھ گودام میں دیکھا جہاں آگ بھڑکی ہوئی تھی اور کچھ ملازمین نے انھیں چھت پر بھی دیکھا۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ فیکٹری کے دروازے بند نہیں رہتے تھے ماسوائے گودام کے، جہاں سے ڈینم کے سامان کی منتقلی ہوتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فیکٹری سے محفوظ نکلنے والے مزدوروں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
اس مقدمے میں ابتدائی طور پر علی انٹرپرائزز کے مالکان عبدالعزیز بھائیلہ، ان کے دو بیٹوں ارشد اور شاہد بھائی سمیت جنرل منیجر اور چار چوکیداروں پر غفلت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، تاہم اس مقدمے نے اُس وقت دوسرا رخ اختیار کیا جب 2015ء میں رینجرز کی جانب سے ہائی کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی تھی۔ اس عمل کو دہشت گردی قرار دیا گیا۔ پھر 2016ء میں دوبارہ تحقیقات کے بعد پولیس نے دوبارہ مقدمہ درج کیا۔ اسی سال کے آخر میں سیکٹر انچارج ایم کیو ایم رحمان بھولا کو بیرونِ ملک سے گرفتار کرکے لایا گیا۔
۔2017ء میں پولیس نے بھولا کے خلاف ضمنی چارج شیٹ فائل کی تھی۔ بی بی سی کے مطابق عبدالرحمان عرف بھولا کے بیان کے بعد سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی کا نام مقدمے میں شامل کیا گیا تھا، رحمان بھولا نے مجسٹریٹ کے روبرو بیان میں کہا تھا کہ حماد صدیقی کے حکم پر اس نے زبیر چریا کو آگ لگانے کے لیے کہا تھا۔ اس کے بعد اسے معلوم ہوا کہ رؤف صدیقی نے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے اور اس مقدمے کے خاتمے کے لیے 40 سے 50 ملین روپے طلب کیے ہیں۔ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب نے دلائل دیے کہ رؤف صدیقی نے دباؤ ڈال کر فیکٹری مالکان کے خلاف ہی مقدمہ درج کرایا۔ ملزم عبدالرحمان بھولا نے بھی بیان میں اعتراف کیا تھا کہ رؤف صدیقی اور حماد صدیقی نے متاثرین اور مالکان کے درمیان معاملہ حل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور سیٹلمنٹ کے لیے فیکٹری مالکان سے چار، پانچ کروڑ روپے وصول کیے۔ پھر فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ نے بھی اپنے بیان میں رؤف صدیقی کا نام لیا تھا۔ لیکن رؤف صدیقی ان دنوں ضمانت پر رہا رہے۔ ستمبر 2019 ء میں جے آئی ٹی کے سامنے علی انٹرپرائزز کے مالکان ارشد بھائیلہ اور شاہد بھائیلہ نے دبئی میں بیان ریکارڈ کروایا، کیونکہ دونوں بھائی اس واقعے کے چند ماہ بعد دبئی منتقل ہوگئے تھے۔ بیان کے مطابق واقعے سے دو تین ماہ قبل مئی، جون 2012ء میں شاہد بھائیلہ نے ایم کیو ایم بلدیہ سیکٹر کے انچارج اصغر بیگ کے بھائی ماجد بیگ سے پروڈکشن منیجر منصور کے دفتر میں ملاقات کی تھی۔ ماجد نے کہا کہ سیکٹر انچارج اب ہم سے کروڑوں روپے لینے کی بات کررہے ہیں۔ بھائیلہ کے مطابق انھوں نے اس کو ’بھتے میں اضافے کی کوشش‘ سمجھ کر نظرانداز کیا۔ اسی عرصے میں اصغر بیگ کو ہٹاکر رحمان بھولا کو بلدیہ سیکٹر کا انچارج مقرر کیا گیا۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ایک روز فیکٹری میں رحمان بھولا نے کار کے سامنے آکر دھمکی دی کہ بھتے کا معاملہ حل کریں اور ایم کیو ایم کی کراچی میں تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی سے رابطہ کریں۔ اس نے 20 کروڑ روپے یا فیکٹری میں حصہ دینے کی بات بھی کی۔ ملزم رضوان قریشی نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ پارٹی کے مرکزی رہنما حماد صدیقی نے فرنٹ مین رحمان بھولا کے ذریعے 20 کروڑ روپے بھتہ مانگا تھا۔ فیکٹری مالکان نے اس سے بلدیہ کے سیکٹر انچارج اصغر بیگ کو آگاہ کیا جو اپنے بھائی ماجد بیگ سمیت انھیں عزیز آباد میں نائن زیرو لے گئے جہاں وہ کراچی تنظیمی کمیٹی یعنی کے ٹی سی کے سربراہ حماد صدیقی اور فاروق سلیم سے ملے اور بتایا کہ مالکان پارٹی کے ہمدرد ہیں، اور انھیں بھتے کے بارے میں آگاہ کیا۔ اسی دوران ان میں تلخ کلامی ہوئی، حماد صدیقی اور فاروق نے اس کو ’پارٹی پالیسی‘ قرار دیا اور مطالبے سے دست بردار ہونے سے انکار کردیا۔ کچھ دن بعد حماد صدیقی نے سیکٹر انچارج اصغر بیگ کو معطل کردیا اور جوائنٹ سیکٹر انچارج رحمان بھولا کو سیکٹر انچارج بنا دیا، اور اُسے 20 کروڑ روپے بھتہ وصول کرنے کا حکم دے دیا۔ اس طرح یہ کیس آگے بڑھتا گیا اور پھر رواں سال 2 ستمبر کو عدالت نے بلدیہ فیکٹری کیس میں پراسیکیوٹر اور ملزمان کے دفاعی وکلا کے حتمی دلائل کے لیے 17 ستمبر کی تاریخ مقرر کی تھی، جس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ فیصلہ بھی 17 ستمبر کو ممکن ہے۔ تاہم عدالت کی جانب سے مذکورہ کیس کی سماعت کو 22 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کراچی کی تاریخ میں ایم کیو ایم کی سفاکی کا بہت بڑا واقعہ تھا، جس نے ہر صاحبِ دل کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اور اسی پس منظر میں جماعت اسلامی کراچی کی قیادت اور جماعت اسلامی کا مقامی کارکن ہر ہر سطح پر متاثرین کے ساتھ رہا، جس کا اعتراف متاثرین کئی مواقع پر کرتے بھی رہے ہیں۔ اس سانحے کے حوالے سے فیصلے کے بعد امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے لواحقین و متاثرین جن میں خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے اور وہ فیصلے کے خلاف اپنے احساسات و جذبات اور شدید غم و غصے کا اظہار کررہے تھے، وہ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہوئے رورہے تھے کے ساتھ ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مجرموں کے خلاف انسداددہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ زندہ جلنے والے 259افراد کے لواحقین اور متاثرین کی امیدوں اور توقعات کے مطابق نہیں کیا گیا۔ لواحقین اور متاثرین کو امید تھی کہ 8سال کی تاخیر کے بعد آنے والے فیصلے میں اتنے بڑے سانحے کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ کو بھی سزا دی جائے گی۔ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو جن کی ایما پر جلا دیا گیا اور جن لوگوں نے فیکٹری کو گھیر کر لوگوں کو باہر نہ آنے دیا ان کو بھی سزا ملے گی مگر فیصلے میں ایسا نہیں ہوا۔ اس سے ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مقدمے میں متاثرین کو مکمل انصاف دلائیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے ایک اور اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ لواحقین اور متاثرین کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھا گیا ہے۔ جرمنی کی کمپنی کی جانب سے متاثرین کے لیے دیئے گئے 52کروڑ روپے بھی تاحال ان کو نہیں ملے، اس پر سندھ حکومت نے قبضہ کیا ہوا ہے اور حق داروں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ رقم تمام متاثرین میں یکمشت تقسیم کی جائے اور ان کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو اعلانات کیے تھے ان پر فی الفور عمل درآمد کیا جائے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سانحہ بلدیہ کیس 8سال تک چلتا رہا اس میں ملوث لوگوں کے نام بار بار سامنے آتے رہے وہ لوگ آج بھی منظور نظر ہیں، مختلف پارٹیوں اور حکومتوں میں موجود ہیں اور کچھ تو واشنگ مشین میں دھل کر صاف ہوگئے ہیں، جن دو افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے وہ تو سامنے کے کردار تھے مگر جن کے کہنے پر ان ظالموں نے یہ کام کیا ان منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ کرداروں کو تحفظ فراہم کیا جا تا رہا اور آج بھی وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ حماد صدیقی کے بارے میں کچھ لوگوں نے بار بار کہا کہ وہ بے گناہ ہیں، عدالتی فیصلے میں بھی ان کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔ سانحہ میں زندہ جلنے والے افراد کے لواحقین اور متاثرین آج سوال کر رہے ہیں کہ مفرور قرار دینے سے کیا مراد ہے اور ان کے بارے میں عدالت نے کیا فیصلہ کیا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سانحہ بلدیہ ایک دلخراش واقعہ ہے اور آج بھی ہم سب دکھی ہیں آج کے فیصلے سے عدالتی نظام میں انصاف کے حصول میں غیر معمولی تاخیر کا ایک پہلو بہت نمایاں ہوا ہے۔ اس لیے ہمارے عدالتی نظام کی بھی اصلاح ہو نی چاہیئے اور لوگوں کو جلد انصاف ملنا چاہیئے۔ ملک میں قصاص اور دیت کا قانون موجود ہے اس کے مطابق فیصلے ہونے چاہیئے۔ شہر کراچی کے مظلوم آج بھی غم اور تکلیف میںغم سے نڈھال ہیںاور8سال تک فیصلے کے منتظر رہنے کے بعد بھی مظلوم مکمل انصاف سے محروم ہیں اور ان کی نظریں عدالت عالیہ کی طرف ہیں۔
یہ سوال آج بھی موجود ہے کہ کیا سانحہ بلدیہ کے متاثرین کو پورا انصاف مل گیا ہے؟کیا اصل مجرم صرف رحمان بھولا، زبیرچریا تھے؟ کیا ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت اس میں ملوث نہیں تھی؟ اگر تھی تو انہیں کیوں بچایا گیا؟ یہ سوالات تاریخ میں یقیناً اپنے جواب کی تلاش میں گردش کرتے رہیں گے۔ تاوقتیکہ مظلوموں کو مکمل انصاف نہیں مل جاتا؟