کیا قومی سیاست میں ایک موڑ ثابت ہوگی؟
عمران خان حکومت کا تیسرا پارلیمانی سال شروع ہوچکا ہے۔ پہلے دو سال حکومت کا نظم و نسق سمجھنے میں گزر گئے، اور باقی ماندہ مدت منشور ایک جانب رکھ کر اگلے عام انتخابات کے لیے خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے ہر وہ کام کرکے مکمل کرے گی جس پر وہ ماضی کے حکمرانوں پر تنقید کرتی آئی ہے۔ ان دو سال میں حکومت پارلیمنٹ میں کوئی قابلِ ذکر قانون سازی نہیں کرسکی، اب سر پر پڑی ہے تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کی جارہی ہے۔ حکومت نے یہ بھی اب طے کرلیا ہے کہ جب تک سینیٹ میں اکثریت نہیں مل جاتی اُس وقت تک مشترکہ اجلاس میں ہی قانون سازی ہوگی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر حر ف بہ حرف عمل کرتے ہوئے منی لانڈرنگ ترمیمی بل منظور کیا گیا ہے، اس قدر وفاداری دکھائی گئی کہ بل پیش کرتے ہوئے ایوان کو بتایا گیا کہ یہ قانون سازی ایف اے ٹی ایف کی ہدایت کی روشنی میں کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد سمیت کم و بیش اپوزیشن کی کوئی ترمیم بھی بحث کے قابل نہیں سمجھی گئی۔ ایسا غیر پارلیمانی رویہ اسپیکر کے عہدے کے لیے کبھی بھی قابلِ تعریف نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کے ردعمل میں اپوزیشن واک آئوٹ کرگئی۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے انسدادِ منی لانڈرنگ بل کی منظوری ایک اہم پیش رفت ہے جس کی منظوری حکومت کی ذمہ داری تو تھی ہی، لیکن حزبِ اختلاف بھی پارلیمان کا حصہ ہے، اسے بھی اپنی عددی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، مگر اس کے بیشتر ارکان غیر حاضر رہے۔ پیپلزپارٹی نے بارہ بلوں کی حمایت کا عندیہ دیا ہوا تھا، اُس کے ارکان اسی لیے غیر حاضر رہے۔ اپوزیشن کی عددی قوت میں کمی کے باعث حکومت ہر بل منظور کرا سکتی تھی مگر اس کے باوجود اس نے کسی بھی بل میں ترمیم پیش کرنے دی اور نہ بحث کی اجازت دی، بلکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی خاموش حمایت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ لہٰذا جہاں قانون سازی پارلیمانی تاریخ کا حصہ بنی ہے، وہیں اپوزیشن کے ساتھ اسپیکر کے رویّے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کا احتجاج اور سوال دونوں بے جا نہیں ہیں، اسپیکر سیکرٹریٹ نے بھی یہ بات محسوس کی ہے، اسی لیے ترجمان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ اسپیکر نے غیر جانب دار رہ کر آئینی ترامیم کا عمل مکمل کرایا ہے۔ بہرحال انہیں جو کرنا تھا وہ انہوں نے کرلیا، وضاحتیں اب چلتی رہیں گی۔ اپوزیشن نے احتجاج کا راستہ اپنایا اور پھر واک آئوٹ کرکے حکومت کے لیے راستہ صاف کردیا کہ وہ جس طرح چاہے قانون سازی کرے۔ اپوزیشن کی عدم موجودگی میں قانون سازی ہوئی اور اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل2020ء، انسدادِ دہشت گردی تیسرا ترمیمی بل 2020ء، اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2019ء اور اسلام آباد وقف املاک بل 2020ء، سرویئنگ اینڈ میپنگ ترمیمی بل 2020 کثرتِ رائے سے منظور کرلیے گئے۔ مشترکہ اجلاس میں کُل 8 بل منظور ہوئے ہیں۔ ان میں اسلام آباد متروکہ وقف املاک بل 2020ء، انسداد منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل 2020ء، سروے اینڈ میپنگ ترمیمی بل 2020ء، پاکستان میڈیکل کمیشن بل 2020ء، پاکستان میڈیکل ٹریبونل بل 2020ء، انسداد دہشت گردی بل 2020ء، معذور افراد کے حقوق کا بل 2020ء اور اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2020ء بھی منظور کرلیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے قانون منظور کرکے حکومت نے ایک سنگِ میل تو عبور کرلیا لیکن اس کے ساتھ ہی قومی اتفاقِ رائے کی منزل کھو دی ہے۔
اسلام آباد سے اہم ترین خبر یہ ہے کہ کچھ روز قبل ’’محمود و ایاز‘‘ کی ملاقات بھی کرائی گئی۔ تمام پارلیمانی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین ایک جگہ جمع کیے گئے، جہاں سب نے اپنا اپنا سیاسی مقدمہ پیش کیا۔ اس مجلس میں کون کون شریک تھا اور کیوں شریک تھا؟ شیخ رشید احمد نے نام لیے ہیں، تاہم ضروری ہے کہ جن کے نام لیے گئے ہیں وہ خود ہی سامنے آئیں اور شیخ رشید احمد کے دعوے کی تردید یا تصدیق کریں، اگر خاموش رہے تو خاموشی تصدیق ہی سمجھی جائے گی۔ اس ملاقات میں یہ سوچ پختہ ہوئی ہے کہ سیاسی حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، تاہم فیصلہ یہی ہے کہ حکومت پانچ سال چلے گی، اور اگلے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے مساوی موقع میسر رہے گا، کوئی لاڈلہ نہیں ہوگا۔ بہرحال حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو بھی رویہ اختیار کرنا تھا، کرلیا، اب گیند اپوزیشن کی کورٹ میں ہے کہ وہ کیا ردعمل دیتی ہے۔
ردعمل دکھانے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلائی گئی تھی۔ اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس، جس سے سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی آن لائن خطاب کیا، بظاہر ملکی سیاست میں ایک اہم موڑ نظر آتی ہے۔ حکومت کے پہلے دن سے اپوزیشن کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ حکومت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے، لیکن بے پناہ مہنگائی اور معاشی زبوں حالی کے باوجود اس کے خلاف مہم جوئی کے بجائے اسے دو سال برداشت کیا۔ اب اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی پوری طرح ثابت ہوچکی ہے اور ان سے نجات ضروری ہوگئی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس اسی سوچ کا مظہر ہے۔ 26 نکات پر مشتمل اعلامیے میں حکومت کو دس دن کا الٹی میٹم دیا گیا اور اگلے ماہ اکتوبر سے تحریک شروع کرنے اور جنوری میں لانگ مارچ اور دھرنے، جبکہ مناسب وقت پر پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس مقصد کی خاطر ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کے نام سے سیاسی اتحاد تشکیل پایا ہے۔ وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات کا مطالبہ سرفہرست ہے، انتخابی اصلاحات کا نیا قانون بنانے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات الگ سے ہیں۔ میثاقِ جمہوریت پر نظرثانی کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ کانفرنس سے سابق وزیراعظم نوازشریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین پر عمل کرنے والے کٹہروں میں کھڑے ہیں یا جیلوں میں ہیں، یہ فیصلہ کن موڑ ہے اور ہمیں وہ فیصلے کرنا ہوں گے جن کی ملک کو ضرورت ہے۔ سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے حکومت مخالف تحریک میں سب سے پہلے خود جیل جانے کے عزم کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو کا مؤقف تھا کہ کٹھ پتلی نظام مسلط کرنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سلسلہ مزید نہیں چل سکتا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن جماعتوں سے فوری استعفے کا مطالبہ کیا مگراس پر اتفاقِ رائے نہ ہوسکا۔ اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ 1973ء کے آئین، 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور صدارتی نظام رائج کرنے کا منصوبہ کسی طور قبول نہیں۔ قرارداد میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، غیرجانب دار ججوں کے خلاف ریفرنسوں کے خاتمے، آغاز حقوقِ بلوچستان پر عمل یقینی بنانے اور گلگت بلتستان میں مداخلت سے پاک انتخابات کرانے کے مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کُل جماعتی کانفرنس پر ردعمل دیا کہ کسی کو ’این آر او‘ نہیں ملے گا اور احتساب جاری رہے گا۔
کُل جماعتی کانفرنس میں اپوزیشن نے عوام کی بات کی اور نہ حکومت نے اپنے ردعمل میں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا، دونوں عوام کی نبض کی رفتار سے ناواقف نظر آئے۔ آج حالات یہ ہیں کہ نجی اداروں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ دہاڑی دار مزدور و محنت کش طبقے کی کس مپرسی کا اندازہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو نہیں ہے۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ سبزی تک عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ کُل جماعتی کانفرنس میں جماعت اسلامی شریک نہیں ہوئی، تاہم اپوزیشن جماعتوں کے ہم خیال رہنما اسفند یار ولی خان، اختر مینگل، اسرار اللہ زہری بھی کُل جماعتی کانفرنس کے تانگے سے منزل سے پہلے ہی اتر گئے۔ کانفرنس میں جے یو آئی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز دی، جسے پذیرائی نہیں ملی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں میں اتفاق تھا کہ جمہوریت چلنے دی جائے، تاہم کچھ فیصلے ہوئے کہ تحریک چلائی جائے اور استعفوں کا آپشن آخری ترجیح ٹھیرا۔ ایک تنقید یہ بھی کی گئی ہے کہ کُل جماعتی کانفرنس میں ملک کی اقتصادی صورتِ حال اور عوام کے مسائل کے علاوہ امن و امان جیسے اہم نکتے پر کوئی بات ہی نہیں ہوئی، حتیٰ کہ سانحہ موٹر وے پر مذمتی قرارداد بھی نہیں آئی۔ پیپلزپارٹی کی کُل جماعتی کانفرنس پر سیاسی تجزیہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کی نظر امریکی صدارتی انتخابات پر ہے، اس لیے عوامی تحریک کے لیے اکتوبر سے جنوری تک کا وقت مقرر کیا گیا کہ نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات ہونے ہیں، اور جنوری میں منتخب صدر اوول آفس میں بیٹھیں گے، لہٰذا انہیں اپنی اہمیت سے آگاہ رکھا جائے۔ مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اپنے اس اعلان اور پروگرام پر متفق رہ سکے گی؟ کیونکہ ماضی میں قائم ہونے والے سیاسی اتحاد نہیں چل سکے، ہر بڑی جماعت اتحاد کی ٹرین سے اپنا ڈبہ الگ کرتی چلی آئی ہے، لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی بلدیاتی انتخابات کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں تاکہ جو بھی جیتے اُسے قابو کرلیا جائے۔
ملک میں عام انتخابات کے دو سال بعد ایک بار پھر انتخابات کا عمل شروع ہوا چاہتا ہے، اس سال دسمبر میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں، اور اگلے سال مارچ میں یقینی طور پر سینیٹ کے انتخابات ہوں گے، سینیٹ کے نصف ارکان فروری میں ہی ریٹائر ہوجائیں گے، ان کی جگہ مارچ میں نئے سینیٹر منتخب کیے جائیں گے۔ روایت یہی رہی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات اب تک خفیہ رائے شماری کے تحت ہوتے رہے ہیں، تاہم اِس بار وفاقی حکومت نے اس طریقہ کار کو تبدیل کرکے اوپن بیلٹ کا طریقہ متعارف کرانے اور اس کے لیے آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئے قانون کے مسودے کی وفاقی کابینہ منظوری دے چکی ہے۔ 1973ء کی آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے خفیہ رائے شماری کا طریقہ طے کیا تھا، اور اب تک یہی طریقۂ انتخاب رائج رہا، مگر حکومت اس میں تبدیلی چاہتی ہے۔ خفیہ رائے شماری عملًا ووٹروں کی خرید و فروخت اور بدعنوانی کے فروغ کا ایک بڑا ذریعہ بن گئی۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات فروری 2018 ء میں اس کے باعث نہایت حیران کن نتائج سامنے آئے اور صوبہ خیبر پختون خوا میں سینیٹ کے لیے ووٹرزکی خریدوفروخت 80 کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ تحریک انصاف کی بھی بعض خواتین ارکان اپنا ووٹ بیچنے میں ملوث رہی تھیں۔ اسی لیے تحریک انصاف سینیٹ کے انتخاب سے قبل انتخابی عمل کے لیے نئی قانون سازی کرنا چاہتی ہے۔
یہ تو قانون سازی کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کی طرح سینیٹ کے انتخابات میں مثبت نتائج حاصل کرنا اصل ہدف ہے۔ یہ حقائق بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں صرف تین نشستیں رکھنے والی جماعت اپنے دو سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ فروری 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں جس پارٹی کا ایک رکن بھی صوبائی اسمبلی میں نہیں تھا اس کی جانب سے بھی امیدوار لایا گیا۔ یوں ہارس ٹریڈنگ کا کھیل سینیٹ کے انتخابات میں عروج پر رہا۔ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ خریدنے اور ہارس ٹریڈنگ2002ء میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت جلاوطن تھیں، اور صوبائی اسمبلی کے ارکان نے اپنی مرضی سے فیصلے کیے، یہی عمل2006ء میں بھی دہرایا گیا، اور اُس وقت ایم ایم اے کے سینیٹرز کے انتخاب پر بھی انگلیاں اٹھی تھیں، اس کے بعد2009ء میں سینیٹ کے انتخابات ہوئے جس میں ریکارڈ توڑ ہارس ٹریڈنگ ہوئی، تب اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ قاضی محمد فاروق نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو الیکشن کمیشن کی سفارشات پیش کیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ کا طریقہ متعارف کرایا جائے اور آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کی جائے، اور سینیٹ کے ارکان کا انتخاب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخابات کی طرز پر عوام میں ڈویژن کے ذریعے کروایا جائے۔ اُس وقت کے وزیر قانون ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان اور صدر آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن کے مؤقف کی تائید کی تھی۔ صدر آصف علی زرداری نے رائے دی کہ سینیٹ انتخابات میں سودے بازی ختم کرکے شو آف ہینڈ کا طریقہ رائج کیا جانا چاہیے۔ اب حکومت نے سینیٹ کے انتخابات کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا جو فارمولا وضع کیا ہے اس کے مطابق سینیٹ کے بیلٹ پیپرز پر ووٹرز کے نام درج ہوں گے اور اس کے آگے امیدوار کا نام ہوگا ،اور ووٹر کو لازمی طور پر پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا۔ یہ طریقہ کار عالمی جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ یہ بات کہی جارہی ہے کہ سینیٹ کے ارکان کے انتخابات کے لیے وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے جو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخابات کے لیے آئین میں درج ہے۔
ایف اے ٹی ایف قانون سازی اور غیر مرئی ہاتھ
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت جس طرح قانون سازی کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، اس میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے اوپر بھی غیر مرئی ہاتھ ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس حکومت سے زیادہ ارکان ہیں، اگر اپوزیشن کے تمام ارکان اجلاس میں شریک ہوتے تو حکومت کبھی بھی اپوزیشن کو نظرانداز کرکے قانون سازی نہیں کرسکتی تھی۔ جس طرح کا رویہ اجلاس کے لیے اپوزیشن نے اختیار کیا اس سے اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے حوالے سے اسی رویّے کی توقع ہے۔ قانون سازی کے مرحلے میں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں سنجیدہ نہیں تھیں۔ معاملہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق تھا، لہٰذا یہ سیاسی جماعتیں بالکل بھی رسک نہیں لینا چاہتی تھیں کہ مبادا آقا ہی ناراض ہوجائیں، کیونکہ حکومت نے تو واضح طور پر کہا کہ وہ ایف اے ٹی ایف کی ہدایت کے مطابق قانون سازی کررہی ہے۔ بہرحال اپوزیشن خانہ پری کے لیے اجلاس میں گئی، اور حکومت کے لیے ماحول آسان بنانے کے لیے واک آئوٹ بھی کردیا۔ اپوزیشن کا واک آئوٹ ایک روایت ہے، اور ایسا ماحول ہر اپوزیشن ہر حکومت کو دیتی آرہی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا اکبر چترالی کا جامع تبصرہ ہے کہ ’’یہ اجلاس اغیار کو خوش کرنے کے لیے بلایا گیا تھا تاکہ عالمی بینک، آئی ایم ایف جیسے اداروں کو خوش اور مطمئن کردیا جائے۔ جس طرح قانون سازی کی گئی ہے اس سے عوام کی رائے کو مسترد کیا گیا ہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ عوام کی رائے کو ذلیل کیا گیا اور غلامی کی زنجیریں پہنائی گئی ہیں، ملک کی خودمختاری دائو پر لگائی گئی ہے۔ ہمیں یہ داغ مٹانا ہوگا، اب تو کوئی بھی اٹھ کر ہم سے کہے گا کہ فلاں بندہ ہمارے حوالے کردو، اور ہم پابند ہوں گے۔ اسی طرح وقف املاک کے قانون کا معاملہ ہے، اس کے منتظم کو لامتناہی اختیارات دے دیے گئے ہیں اور اس کے فیصلے کو ملک کی کسی بھی آئینی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ نیب سے بھی زیادہ اختیارات ہیں جو اسے دیے گئے ہیں۔‘‘