درندہ صفت مجرم کی گرفتاری میں حکومتی ناکامی
جماعت اسلامی کا احتجاج
سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے پر ُامن دھرنا
سانحہ موٹر وے کو دو ہفتے گزر گئے مگر اس کا درندہ صفت مرکزی ملزم عابد تادمِ تحریر روپوش اور پولیس کی گرفت سے آزاد ہے۔ اعلیٰ ترین سطح سے نیچے تک حکمران اور پولیس حکام تسلسل سے دعوے کررہے ہیں کہ ملزم کے گرد جال بچھا دیا گیا، گھیرا تنگ کردیا گیا ہے، وہ بہت جلد پکڑ لیا جائے گا، مگر ابھی تک یہ تمام دعوے نقش بر آب ہی ثابت ہورہے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملزم چھلاوہ بن چکا ہے جو بار بار کی کارروائیوں میں تاحال پولیس کے جال میں پھنسنے سے انکاری ہے، اور ہر بار تنگ گھیرا توڑ کر اس کے آہنی ہاتھوں سے پھسل کر غائب ہوجاتا ہے، یوں پولیس کی ہر کارروائی پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے فقدان اور نااہلی پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جا رہی ہے، بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ پولیس اور حکمران طبقے ہی میں موجود ملزم کے بعض سرپرست اُس کو تحفظ فراہم کررہے ہیں کہ اس کی گرفتاری سے بہت سے پردہ نشینوں کے چہروں سے بھی نقاب اترنے کا اندیشہ ہے، چنانچہ وہ اپنا آزمودہ تاخیری حربہ آزما رہے ہیں کہ یہ سانحہ بھی دیگر بہت سے سنگین معاملات کی طرح وقت کی گرد تلے دب جائے گا۔ بڑی حد تک یہ پالیسی کامیاب بھی نظر آرہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں کا موضوع بننے والا یہ معاملہ اب آہستہ آہستہ برقی ذرائع ابلاغ کی آخری غیر اہم خبروں اور ورقی ذرائع ابلاغ کے صفحہ آخر کی ایک یا دو کالمی سرخی کی حیثیت حاصل کرگیا ہے، یوں وہ دن قریب محسوس ہورہے ہیں جب مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کے الفاظ میں یہ اندوہناک سانحہ بھی ’’مٹی پائو… روٹی کھائو‘‘ کی صورتِ حال سے دوچار ہوکر طاق نسیاں ہوجائے گا، کہ حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں کو کُل جماعتی کانفرنس کی شکل میں نئی مصروفیت ہاتھ آگئی ہے۔ جماعت اسلامی البتہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے خاصی سنجیدہ ہے، چنانچہ سانحے کی اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے جماعت ہی کے حلقہ خواتین نے ملک کے مختلف شہروں میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کرکے اس ظلم کے خلاف مؤثر صدائے احتجاج بلند کی تھی۔
لاہور میں اس ضمن میں پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہرے کی قیادت حلقۂ خواتین کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ثمینہ سعید، صدر وسطی پنجاب ربیعہ طارق، صدر لاہور ڈاکٹر زبیدہ جبیں، اسلامی نظریاتی کونسل اور قومی اسمبلی کی سابق رکن ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، مرکز فلاح خاندان کی ڈائریکٹر عافیہ سرور اور دیگر ممتاز رہنمائوں نے کی۔ جماعت اسلامی لاہور کے امیر میاں ذکر اللہ مجاہد نے اس موقع پر اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ بچوں اور خواتین سے زیادتی کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، ایسے درندوں کو بروقت نشانِ عبرت بنایا جائے اور انہیں قرآن و سنت کے مطابق سزائیں دی جائیں تو ایسے روزافزوں واقعات کا سدباب ممکن ہے۔ انہوں نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، جرائم اور تشدد کے رجحان کو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ حکومت معاشرے کو ان جرائم سے پاک کرنے اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سرِ عام شرعی سزائیں نافذ کرے۔
سانحے کو ایک ہفتے سے زائد گزر جانے اور حکمرانوں کی جانب سے زبانی دعووں کے باوجود کسی عملی اقدام سے گریز کے طرزعمل کے بعد جماعت اسلامی نے 17 ستمبر کو وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے پُرامن احتجاجی دھرنے کا اہتمام کیا جس کی قیادت امیر جماعت سینیٹر سراج الحق نے خود کی، ان کی معصوم بیٹی فاطمہ سراج بھی اس اہم احتجاج میں اُن کے ہمراہ تھیں۔ ان کے علاوہ جماعت کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، وسطی پنجاب کے امیر جاوید قصوری، سیکرٹری بلال قدرت بٹ، شمالی پنجاب کے امیر طارق سلیم، سیکرٹری اقبال احمد خاں، جمعیت اہلِ حدیث کے رہنما ابتسام الٰہی ظہیر، جے آئی یوتھ کے صدر زبیر احمد گوندل اور جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد بھی دھرنے کی قیادت کرنے والوں میں شامل تھے۔ دھرنے میں خواتین اور بچوں کی بہت بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ دھرنے کے شرکاء پہلے پنجاب اسمبلی کے سامنے فیصل چوک میں جمع ہوئے، جہاں سے مارچ کرتے ہوئے وہ ایوانِ وزیراعلیٰ کلب روڈ کے سامنے شاہراہ قائداعظم پہنچے، اور دھرنا دیا۔
دھرنے کے شرکاء سے اپنے کلیدی خطاب میں سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ دو سو ستر دن گزرگئے، عوام وزیر اعلیٰ پنجاب سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے اب تک کچھ سیکھا ہے یا ابھی سیکھ رہے ہیں؟ اگر دو سال میں بھی آپ کچھ نہیں سیکھ سکے توآپ جیسے نااہلوں کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھے مہینوں میں 322 بچوں اور بچیوں پر جنسی حملے ہوئے۔24گھنٹوں میں جنوبی پنجاب میں 11 بچوں پر حملے ہوئے اور چار بچوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ پی ٹی آئی کے دو سال میں جرائم کی شرح میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس طرح بھٹو کی حکومت میں 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، موجودہ حکومت میں کشمیر انڈیا کا حصہ بن گیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ اس حکومت میں مالی، اخلاقی و نظریاتی کرپشن میں اضافہ ہوا۔ زینب الرٹ بل پاس ہوئے ایک سال گزر گیا لیکن آج تک اس کا نوٹیفکیشن تھانوں تک نہیں پہنچایا گیا۔ ہم نے زینب الرٹ بل میں ترمیم پیش کی کہ پھانسی کی سزا ہونی چاہیے، مگر کسی جماعت نے ساتھ نہیں دیا اور کہا کہ یہ وحشت اور بربریت ہے۔ میں وزیراعظم سے پوچھتا ہوں کہ جو سزا اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے مقرر کی آپ اس کا نام لیتے ہوئے کیوں گھبراتے ہیں؟ جو سزا وزیراعظم نے تجویز کی ہے تو کیا اس کے بعد وہ شخص اس معاشرے سے انتقام نہیں لے گا؟ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس صورت میں عظیم بنائے گا جب یہاں اللہ کا نظام قائم ہوگا۔ عوام حکمرانوں کے دین پر چلتے ہیں، آج حکمران ٹھیک ہوجائیں تو معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خوشحالی اور نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے لیے عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے مزید کہا کہ حکومت اور دو بڑی جماعتیں میچ فکسنگ کرتی ہیں۔ تینوں بڑی جماعتیں بین الاقوامی ایجنڈے پر ایک ہیں، اور مل کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کے قانون بناتی ہیں۔ یہ پارٹیاں ایف اے ٹی ایف کے لیے قانون سازی پر ایک ہوسکتی ہیں تو جنسی درندوں کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے کیوں متحد نہیں ہوتیں؟ حکمران اپنے بنگلوں اور ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تبدیلی لائے ہیں۔ عوام جب بھی حکمرانوں سے تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں حکمران کسی چیف سیکرٹری،آئی جی یا پولیس آفیسر کو تبدیل کردیتے ہیں۔ تبدیلی چھوٹے ملازمین کے تبادلوں سے نہیں، حکمرانوں کو بدلنے سے آئے گی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ جس پاکستان میں بچے اور بچیاں محفوظ نہیں ہیں، ایسے ماحول میں حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے 22 کروڑ عوام، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے تحفظ کی بات کرتی ہے۔ ایک بہن حکومت اور ریاست سے اپنی حفاظت کے واسطے دیتی رہی مگر حکومت اور ریاست ایک بے بس بیٹی اور بہن کو تحفظ نہیں دے سکیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ معاشرے کو آئندہ ایسی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے شرعی سزائیں نافذ کی جائیں اور سانحہ موٹر وے کے مجرم جنسی درندوں کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے۔
جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے کا واقعہ نہایت افسوسناک اور پاکستان کے لیے شرمناک واقعہ ہے، اور ملک کے ماتھے پر بدنامی اور کلنک کا ٹیکہ ہے۔ آج پورا ملک صدمے کی کیفیت میں ہے۔ مائیں، بہنیں، بیٹیاں سراپا احتجاج ہیں مگر موم بتی مافیا کہیں چھپ گیا ہے، انہیں یہ ظلم اور زیادتی نظر نہیں آرہی۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ حکومت و پولیس کے مؤقف نے قوم کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ہم اس ملک کی حفاظت نہیں کرسکتے، خواتین گھروں سے نہ نکلیں۔ پاکستان میں لاقانونیت کا راج ہے، مسلسل سانحات بڑھ رہے ہیں۔ پہلے شریف خاندان نے پنجاب کو اپنی جاگیر بنائے رکھا اور اب عمران خان نے پنجاب کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بنا لیا ہے۔ آج عملاً پنجاب میں کوئی حکمرانی نہیں، بیڈ گورننس کی انتہا ہے۔ پہلے سال پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں لاہور میں شہبازشریف لگ گیا ہوں اور دوسرے سال کہا کہ میرے سر پر خان کا ہاتھ ہے۔ چیف سیکرٹری، آئی جی، سی سی پی او بدل رہے ہیں، انتظامیہ کا ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ سول ملٹری بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ ناکام ہوئی ہے۔ حقیقت میں یہ نظام عمران خان کی شکل میں بدترین شکل اختیار گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے ملک کو غلامی کی طرف دھکیل دیاگیا ہے۔ ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کی دہلیز پر ڈھیر کردیا گیا۔ آج ہماری نئی نسل تباہ اور مستقبل تاریک ہے۔ پاکستان کا نظام اب انجینئرڈ، اسٹیبلشمنٹ کی ریاستی طاقت سے نہیں چل سکتا۔ پاکستان کے عوام کو انصاف چاہیے، حقوق کا تحفظ چاہیے۔ مجرموں کو سرِعام پھانسی دینی چاہیے۔ پاکستان کے مسائل کا حل اسلام کی حکمرانی ہے۔ جماعت اسلامی عوام کو منظم کرکے پاکستان سے ظلم کا خاتمہ کرے گی۔ ہم موٹر وے ظلم کا شکار قوم کی بیٹی کو بتا رہے ہیں کہ وہ تنہا نہیں، پاکستان کے 22کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیرالعظیم نے کہا کہ وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ نیب نے بڑے بڑے چوروں کو پکڑ لیا ہے، مگر عوام پوچھتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے چالیس چوروں میں سے کوئی ایک بھی کیوں نہیں پکڑا گیا۔ چوروں کا اس وقت سب سے بڑا ٹولہ آپ کے اردگرد موجود ہے۔ وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ ان کے اردگرد مافیا موجود ہے، مگر اس مافیا کو جانتے ہوئے بھی وزیراعظم نے اس سے جان نہیں چھڑائی، اور اس مافیا کو عوام کے جان و مال سے کھیلنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ وسطی پنجاب کے امیر جاوید قصوری نے کہا کہ لاہور کے واقعے نے پنجاب کے وزیراعلیٰ اور ان کی پوری ٹیم کی بدانتظامی اور نااہلی کو واضح کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ اگر پنجاب کے عوام کو جان و مال اور عزت کا تحفظ نہیں دے سکتے تو انہیں گھر چلے جانا چاہیے۔ عوام کو اس طرح کے بے بس اور بے حس وزیراعلیٰ کی ضرورت نہیں۔ آج لاہور کی شاہراہ قائداعظم پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں، اگر ہم اپنے کارکنوں کو وزیراعلیٰ ہائوس کے گھیرائو کی ہدایت کریں تو کارکن یہاں مستقل ڈیرے ڈال لیں گے، مگر ہم حکمرانوں کو سدھرنے کا ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ جنسی درندوں کو سرِعام پھانسیوں پر لٹکایا جائے تو ان جرائم کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مگر پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور نون لیگ ان مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے حق میں نہیں۔ آج اپنا جسم اپنی مرضی والا ٹولہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ امیر جماعت اسلامی لاہور میاں ذکر اللہ مجاہد نے کہا کہ حکمرانوں کی غیرت و حمیت کو جگانے کے لیے آج مال روڈ پر ہزاروں زندہ دلانِ لاہور آئے ہیں اور حکمرانوں سے ملک کی بیٹیوں کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ملک بھر میں درندگی کے واقعات بڑھ گئے ہیں، لاہور کے گلی محلوں میں وارداتیوں کے ڈیر ے ہیں۔ امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہوچکی ہے۔ جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ پولیس کو حکمرانوں کے پروٹوکول اور حفاظتی ڈیوٹیوں پر لگانا ہے۔ اگر پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور سیاسی مداخلت ختم ہوجائے تو جرائم کا سدباب ہو سکتا ہے۔