عہدِ حاضر کا ایک اہم مسئلہ پوری دُنیا میں جاری و ساری ہے کہ کسی بھی ملک میں اصل حکمران کون ہے؟ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے لے کر ایک اَن پڑھ تک، عوام و خواص میں عمومی طور پر یہ سوال کیا جانے لگا ہے اور کسی کو بھی دُنیا کے کسی بھی گوشے میں اِس کا کوئی قابلِ تسلیم و یقین جواب نہیں مل پارہا۔ دُنیا بھر میں گزشتہ سو برس میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، اور ان تبدیلیوں کو وجود میں لانے والے ہوں یا ان کی تعریف و توصیف کرنے والے… وہ بھی اس سوال کا نہ ماضی میں جواب دے سکے اور نہ آج کہ کسی بھی ملک میں اصل حکمران کون ہے؟ آج یہ کیفیت ہے کہ ہر طور اور طریق پر جو انتہائی جدید ترین اسلحہ سے لیس ممالک ہیں اور صنعتی طور پر فوقیت رکھتے ہیں وہاں بھی یہ سوال گردش میں ہے کہ حکمران کون ہے اور کیا واقعی وہ ملک حقیقی معنوں میں عام آدمی کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے رہا ہے؟ اس سوال کا ایک ہی مقصد ہے کہ عام آدمی طرزِ حکمرانی سے مایوس ہوچکا ہے اور اِس مایوسی نے اسے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں سکتا۔ باقی دنیا کو جانے دیجیے اور الگ رکھیے، اگر ہم پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو آج یہ سوال ہمارے دماغوں میں ہتھوڑے بجا رہا ہے کہ یہاں اصل حکمران کون ہے؟ ایک عام شخص جسے صرف اور صرف دو وقت کی روٹی اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے انتہائی مشکل طریق پر حاصل کرنا پڑتی تھی، اور آج تو وہ اِس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ خودکشی کررہا ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھا ہے، وہ بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ حکمران کون ہے؟ یہ ملک اِس بنیاد پر قائم ہوا تھا کہ یہاں اسلام کا نظام قائم کیا جائے گا۔ اگر ہم 14اگست 1947ء سے لے کر لمحہِ موجود تک دیکھیں تو آئین کی حد تک تو یقیناً ایسا ہی ہے کہ یہ ملک اِسلام کے نام پر قائم ہوا، اور یہاں اسلامی نظامِ حکومت قائم ہوگا، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ تمام بات صرف کتاب میں لکھی ہے، اور چونکہ مسلمانوں کا ملک ہے اِس لیے زبانی کلامی تو یہی کہا گیا اور کہا جارہا ہے کہ یہ اسلامی ملک ہے اور یہاں اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں گے۔ لیکن درحقیقت ایک دن بھی اِس ملک میں اسلامی نظام قانون و حکمرانی نافذ نہیں ہوسکا۔ یہاں ایسا نظام مسلط ہے جو نہ کسی طاقت ور مجرم کو سزا دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی مظلوم کی دادرسی کرسکتا ہے۔ کیا وجوہات تھیں اس پر بات ہونی چاہیے، لیکن اس پر کوئی بات نہ ماضی میں ہوئی اور نہ آج ہورہی ہے۔آج سیاسی نظام کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بحث جاری ہے، لیکن خفیہ اشارے پر قانون سازی ہوجاتی ہے، اصل موضوع پر بحث کو ایک طرف رکھ کر بات صرف اور صرف ذاتیات تک محدود کردی جاتی ہے۔ اگر کسی شخص کا نام لے کر کوئی بات کہی گئی ہے تو اس بات کو ادارے اور طبقات تک کیوں پھیلا دیا جاتا ہے! یہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوتا رہا اور ہورہا ہے؟ انگریز نے اس براعظم ہند و پاکستان (بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان) پر ڈیڑھ سو یا دو سو برس حکومت کی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریز کتنے تھے کہ انھوں نے اتنے بڑے براعظم پر اتنے عرصے تک بآسانی حکومت کرلی؟ انگریز نے اتنے عرصے جو حکومت کی تو اس کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا، اپنی غلطیوں سے سیکھا اور ان غلطیوں کو درست بھی کیا۔ جو قوانین رائج کیے ان کے مطابق قانون سب کے لیے برابر تھا، اس میں کسی کو کوئی فوقیت حاصل نہیں تھی، اور اگر کوئی استثنا کسی کو حاصل تھا تو وہ بھی پردے میں تھا۔ ہمارے قائدین نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک ملک کے لیے ایک دستور اور قوانین تیار نہیں ہوتے اُس وقت تک پاکستان میں غیر منقسم ہندوستان میں رائج قوانین ہی جاری رکھے جائیں گے۔ ہم نے پچھلے 73 برس میں کیا کیا؟ قوانین جو بنائے وہ اسلام کے نظامِ حکومت کے مطابق نہیں تھے، اور جو پرانے قوانین جاری رکھے اُن میں بے تحاشا اپنی مرضی و منشا کے مطابق ترامیم کرکے ان کا حلیہ ہی بگاڑ دیا، اور جو رعایتیں اور سہولتیں عوام الناس کو حاصل تھیں وہ چھین لی گئیں۔ یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے جس نے اب ہر خاص و عام کو پریشان کردیا ہے سوائے اُس چھوٹے سے گروپ کے، جو اپنے آپ کو صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری کائنات کا خالق و مالک سمجھتا ہے اور ہر کام صرف اور صرف اپنی مرضی و منشا کے مطابق چاہتا ہے، اور جو اس کی مرضی کے مطابق نہ چلے وہ قابلِ گردن زدنی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اصل مسئلہ باقی رہا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اصل حکمران کون؟ عالمی سطح پر بھی ایک پسِ پردہ مافیا ہے جودنیا بھر کے حکمرانوں کو ڈکٹیٹ کرتاہے اور سب اس کی تابعداری کرتے ہیں۔