منصوبے پر اٹھنے والے سوالات
حیات آباد پشاور میں گزشتہ دنوں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی بس میں اچانک آگ بھڑک اٹھنے کے بعد بی آر ٹی سروس کی معطلی کو ایک ہفتہ ہونے کے باوجود اب تک آگ لگنے کی وجوہات کا تعین نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے بس سروس کی بحالی میں تاحال مشکلات پیش آرہی ہیں۔ واضح رہے کہ دوسال کی تاخیر اور کرپشن کے سنگین الزامات کے تحت پشاور میں شروع ہونے والی میٹرو بس سروس کو گزشتہ دنوں اُس وقت تاحکم ثانی بند کردیا گیا تھا جب ایک بس میں حیات آباد کے ایک فیڈر روٹ پر آگ بھڑک اٹھی تھی جس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا، البتہ جس بس میں آگ لگی تھی اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ متذکرہ بس گزشتہ ایک ماہ کے دوران آگ کی لپیٹ میں آنے والی پہلی بس نہیں تھی، بلکہ اس سے پہلے بھی پندرہ بیس دنوں کے دوران اس سروس کی چار بسوں میں آگ لگنے کے واقعات پیش آچکے ہیں، جن میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ متاثرہ بسوں کو تکنیکی طور پر نقصان ضرور پہنچا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ان تمام بسوں میں آگ پچھلے حصے میں لگی جس کے باعث ان میں سوار افراد افراتفری میں اتار لیے گئے تھے۔ آخری بس میں آگ لگنے کی اطلاع پر صوبائی وزیر اطلاعات کامران بنگش دیگر متعلقہ حکام کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے تھے، جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آگ شاید شارٹ سرکٹ کی وجہ سے بس کی ہائبرڈ بیٹریوں میں لگی تھی جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ آگ لگنے کے پے درپے واقعات کے تناظر میں بی آرٹی بس سروس کو نہ صرف عارضی طور پر معطل کیا جارہا ہے بلکہ ان بسوں کی تکنیکی جانچ پڑتال کے لیے چین سے متعلقہ کمپنی کے ماہرین کو بھی فوری طور پر طلب کرلیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پشاور کے میگا پراجیکٹ بی آر ٹی کے افتتاح کے بعد سے بی آر ٹی کی پانچ بسوں میں حیات آباد، یونیورسٹی روڈ، چمکنی اور گلبہار اسٹیشنوں میں آگ لگ چکی ہے۔ اس متنازع منصوبے کا افتتاح گزشتہ مہینے 13 اگست کو وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ابتدا میں انھیں اس منصوبے پر تحفظات تھے مگر سابق وزیرِاعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک ہمیشہ اس کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔ انھوں نے اس موقع پر پرویز خٹک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم غلط تھے، پرویز خٹک ٹھیک نکلے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور خصوصاً خیبر پختون خوا حکومت کے گلے کی ہڈی بننے والے اور کئی مبینہ تنازعات کا شکار ہونے والے اس عوامی منصوبے کو پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ دورِ حکومت میں شروع کیا گیا تھا جس پر اخراجات کا ابتدائی تخمینہ48 ارب روپے لگایا گیا تھا، جو بعدازاں بار بار کی ترامیم اور کرپشن کے مبینہ الزمات کے تحت بڑھ کر 78ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک اچھا ٹرانسپورٹ نظام عام آدمی کا معیارِ زندگی بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے، اور اس منصوبے سے پشاور کے لوگوں کی فی کس آمدنی اور خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔ ان کاکہنا تھا کہ دہاڑی دار شخص کو اگر ایک جگہ کام نہ ملے تو وہ ٹرانسپورٹ کے ذریعے دوسری جگہ جا سکتا ہے۔ 10 روپے سے لے کر 50 روپے تک ٹکٹ کی جو رقم رکھی گئی ہے وہ سب برداشت کرسکتے ہیں۔ عمران خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انھیں خوشی ہے کہ اس منصوبے میں ماحول دوست بسیں استعمال کی جارہی ہیں جو بجلی اور ڈیزل سے چل سکتی ہیں۔ انھوں نے پشاور بی آر ٹی کو ملک کا سب سے بہتر میٹرو بس منصوبہ بھی قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان پشاور میٹرو کی تعریفوں کے پل باندھنے سے پہلے کھلے عام میٹرو سروس کو کرپشن کا ذریعہ اور اسے حقارت سے جنگلہ بس قرار دیتے نہیں تھکتے تھے، لیکن جب یہی منصوبہ اہلِ پشاور کے سروں پر تھوپا گیا تو عمران خان اس کے آگے نہ صرف بے بس نظر آئے بلکہ اب اس کے افتتاح کی تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شریک ہوکر ایک بار پھر قوم پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ بڑا لیڈر یقیناً وہی ہوتا ہے جو دھڑلے سے اپنی بات سے پھرنے کے فن کا ماہر ہو، جس پر انہیں سوشل میڈیا پر یوٹرن خان کے طنزیہ جملے اور تبصرے بھی سننے کو ملے، لیکن چونکہ وہ اب اس کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے انہوں نے ان اعتراضات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔
پشار بی آر ٹی پر گفتگو کرتے ہوئے قارئین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس منصوبے کے تحت پشاور میں عوام کے لیے لاہور، اسلام آباد اور ملتان کے میٹرو بس منصوبوں کی طرز پر آرام دہ سفری سہولت کی فراہمی کا وعدہ کیاگیا ہے جس کاآغاز خدا خدا کرکے گزشتہ دنوں طویل تاخیر اور اہلِ پشاور کے صبر کا سخت ترین امتحان لینے کے بعد ہوچکا ہے، لیکن سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے مصداق بی آر ٹی بسیں چالو ہو توگئی ہیں لیکن ان میں آگ لگنے کے پے درپے واقعات نے جہاں اس منصوبے کا بھرم کھول کررکھ دیا ہے، وہیں اس منصوبے میں اربوں روپے خرچ کرکے خریدی جانے والی بسوں میں سامنے آنے والی تکنیکی خامیوں سے اس منصوبے کا بھانڈا عین چوراہے میں پھوٹنے کے خدشات بھی ظاہرکیے جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ منصوبہ پشاور شہر کے بیچوں بیچ 27 کلومیٹر طویل خصوصی ٹریک پر تعمیر کیا گیا ہے جو پشاور شہر کے اہم علاقے کارخانو بازار سے شروع ہوکر چمکنی کے علاقے تک جاتا ہے۔ پشاور بی آر ٹی منصوبے کو چلانے اور دیکھ بھال کے لیے صوبائی حکومت ٹرانس پشاور نامی ریپڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لائی ہے۔ اس منصوبے کے تحت شہر میں سات روٹس پر بسیں چلیں گی جن میں ایک روٹ ’ایکسپریس کوریڈور‘ ہے جس پر شہر کے سات اہم مقامات پر شہریوں کے لیے اسٹاپ اور بس اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ اس رپیڈ بس سروس کا دوسرا بڑا روٹ ’اسٹاپ اوور‘ ہے جو ایکسپریس روٹ ہی کی طرح کارخانو بازار سے چمکنی تک گیا ہے، جس پر 30 چھوٹے بڑے اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ مین روٹس میں شامل ایکسپریس روٹ جو کارخانو بازار سے چمکنی تک 27 کلومیٹر طویل ہے اس پر سات بڑے تجارتی و تعلیمی مقامات بشمول کارخانو بازار، حیات آباد، پشاور یونیورسٹی، صدر، ڈبگری، لاہور اڈہ، خیبر بازار، ہشت نگری، جنرل بس اسٹینڈ اور چمکنی شامل ہیں۔ ٹرانس پشاور کے سربراہ فیاض احمد کے مطابق افتتاح کے بعد پہلے مرحلے میں دو مین روٹس پر 61 بسیں چلائی جارہی ہیں جن میں سے 25 بسیں ایکسپریس روٹ پر، جبکہ 36 بسیں اسٹاپ اوور روٹ پر چلائی جارہی ہیں۔
ٹرانس پشاور کے سربراہ فیاض احمد کے مطابق بی آر ٹی پشاور کو سات فیڈر روٹس سے منسلک کیا گیا ہے جن میں حیات آباد کے تین، جبکہ کوہاٹ چنگی، وارسک روڈ، چارسدہ روڈ اور باڑہ روڈ کا ایک، ایک روٹ شامل ہے۔ مین روٹ کے لیے 60 سے زائد بسیں مختص کی گئی ہیں، جبکہ 128 بسیں آف کوریڈور ہیں جو ان سات فیڈر روٹس سے مسافروں کو مین روٹ تک لائیں گی۔ ان بسوں میں معذوروں اور خواتین کے لیے خصوصی نشستیں رکھی گئی ہیں، جبکہ ان میں مفت وائی فائی کی سہولت بھی میسر ہے۔ اس کے علاوہ بی آر ٹی کے کوریڈور کے ساتھ ساتھ بائیسکل ٹریک بھی بنایا گیا ہے اور شہر کے مختلف اہم تجارتی، کاروباری اور تعلیمی مقامات کے ساتھ منسلک اسٹیشن پر 360 سائیکلیں رکھی گئی ہیں تاکہ مسافر بس سے اتر کر سائیکل کرائے پر لے کر اپنے کام کرسکیں اور واپس آکر ان سائیکلوں کو پارک کرکے دوبارہ بس کے ذریعے سفر کرسکیں۔ ان سائیکلوں کو بس مسافر ٹرانس پشاور کے پاس رجسٹریشن اور ممبرشپ کروا کے استعمال کرسکیں گے۔ ان سائیکلوں کے استعمال کے پہلے 30 منٹ مفت ہیں، جبکہ اس کے بعد ہر 30 منٹ کا پانچ روپے کرایہ وصول کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ابتدائی منصوبے کے مطابق بس سروس شروع ہونے کے بعد اس روٹ پر چلنے والی دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کو مرحلہ وار یہاں سے ختم کرنے کا کہا گیا تھا، اور اس ضمن میں حکومت کو ایک برس تک اس ٹرانسپورٹ کے مالکان کو معاوضہ ادا کرنا تھا تاکہ لوگ اس سروس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی کم پڑے، لیکن اس ضمن میں بھی تاحال کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی، بلکہ گزشتہ دنوں رکشہ ڈرائیورز یونین اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کا دروازہ یہ کہہ کر کھٹکھٹا چکی ہے کہ اس فیصلے سے لاکھوں افراد کے بے روزگار اور متاثر ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا انہیں بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔ بی آر ٹی حکام کے مطابق اس سلسلے میں متعدد ٹرانسپورٹ تنظیموں کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے، جبکہ چند کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں، اور مرحلہ وار کوشش کی جائے گی کہ پرانی ٹرانسپورٹ کو اس روٹ سے ختم کیا جائے، تاکہ نہ صرف ماحول میں آلودگی کم ہو بلکہ شہر میں ٹریفک کے دباؤ میں بھی کمی آئے۔
مسلسل اسکینڈلز اور میڈیا کی تشہیر کا ذریعہ بننے والے پشاور کے اس میگا پراجیکٹ جس کاآغاز اکتوبر 2017ء میں اُس وقت ہوا تھا جب صوبے میں پی ٹی آئی حکومت کا دور ختم ہونے میں صرف چھے ماہ رہ گئے تھے، تب سے یہ منصوبہ مسلسل تنقید اور سوالات کی زد میں رہا ہے، جس کی رہی سہی کسر اس کی بسوں میں پے درپے لگنے والی آگ نے پوری کردی ہے۔ یہ منصوبہ اتنی تنقید کا ہدف ہرگز نہ بنتا اگر تعمیراتی کام کے افتتاح کے روز اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک یہ جھوٹا وعدہ نہ کرتے کہ یہ منصوبہ چند ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اس تاخیر کے متعلق صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ ابتدا میں اس منصوبے پر نہایت تیز رفتاری سے کام کیا گیا، تاہم ڈیزائن میں بار بار تبدیلیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا، اور اس کا اعتراف سابق وزیراعلی پرویز خٹک خود بھی کرچکے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق اس منصوبے میں تاخیر کی ایک وجہ اس کے ڈیزائن میں تبدیلی تھی جو ایشیائی ترقیاتی بینک کے کہنے پر کی گئی، لہٰذا بقول ان کے اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ یہ تبدیلیاں صوبائی حکومت کی خواہش پر کی گئیں۔ صوبائی حکومت جو اس منصوبے میں تاخیر اور اس کی لاگت میں ہونے والے اضافے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، کی اپنی معائنہ ٹیم گزشتہ سال جاری کی جانے والی 27 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ اس منصوبے کو جلد بازی میں شروع کیا گیا، اس کی منصوبہ بندی ناقص تھی اور اس کا ڈیزائن بناتے وقت سنگین نوعیت کی کوتاہیاں برتی گئیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ 018 2ء میں پشاور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو سے کہا تھا کہ بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کی جائیں، لیکن صوبائی حکومت نے اس فیصلے پر سپریم کورٹ سے حکم امتناع حاصل کرلیا تھا۔ بعد ازاں گزشتہ برس کے آخر میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے بی آر ٹی کی تحقیقات شروع کردی تھیں جس پر صوبائی حکومت کے اُس وقت کے ترجمان اجمل وزیر نے کہا تھا کہ قانونی ماہرین کی ٹیم اس کا جائزہ لے رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ صوبائی حکومت اس فیصلے کے بارے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرے، جس پر رواں برس فروری میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایف آئی اے کو اس منصوبے کی تحقیقات سے روک دیا تھا۔ اس تمام صورت حال کے تناظر میں اب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کتنا جلد بی آر ٹی بسوں میں لگنے والی آگ کا پتا چلا کر مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرنے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے میں شامل تجارتی پلازوں اور سائیکل ٹریکس کی تعمیر کب مکمل کرتی ہے، اور اس منصوبے سے متاثر ہونے والے تاجروں، لوکل ٹرانسپورٹ مالکان، ڈرائیوروں اور دیگر متعلقہ افراد کی دادرسی کب اور کیسے کرتی ہے، یہ صوبائی حکومت کا یقیناً سب سے اہم اور کڑا امتحان ہے۔