افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر مارکیٹوں کے قیام کا فیصلہ
وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر مارکیٹیں بنانے جارہی ہے۔ افغان سرحد پر 12 اور ایران سرحد کے ساتھ 6 مارکیٹیں تعمیر کی جائیں گی۔ ایران سرحد پوری کی پوری بلوچستان سے منسلک ہے۔ اس طرح یہ مارکیٹیں بلوچستان میں بنائی جائیں گی۔ البتہ افغانستان کے ساتھ سرحد خیبر پختون خوا کے ساتھ بھی لگتی ہے، چناں چہ یہ 12مارکیٹیں بلوچستان اور خیبر پختون خوا دونوں صوبوں میں افغان سرحد کے ساتھ بنائی جائیں گی۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان قدیم روایتی راستے موجود ہیں، جن پر صدیوں سے نقل مکانی، اور تجارتی، کاروباری اور عسکری آمد و رفت ہوتی رہی ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک اور دیگر یورپی ممالک کے لیے افغانستان کا راستہ ہند کے لیے موزوں رہا ہے۔ ان سرحدوں کی تزویراتی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدوں پر آمدورفت چنداں مشکل نہیں رہی ہے۔ خصوصاً افغانستان کی جانب سے پاکستان آمد پر کبھی کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے، باوجود اس کے کہ سرحد کے اُس پار سے پاکستان کے لیے بسا اوقات مسائل رہے ہیں۔ خانہ بدوش سال بھر آتے جاتے ہیں، بلا تعطل تجارت ہورہی ہے، دونوں ممالک و اطراف کے عوام معاشی اور تجارتی ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں۔ چناں چہ 16ستمبر 2020ء کو پاک افغان سرحد ’’بادینی‘‘ کے مقام پر ٹریڈ ٹرمینل کا وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے افتتاح کیا۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشراف ہمراہ تھے۔ سول و عسکری حکام، علاقے کے معتبرین اور تاجر بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔
پاک افغان سرحد پر طویل خندقیں کھودی گئی ہیں۔ بالخصوص یہ اقدامات دہشت گردوں کی سرحد کے اُس پار سے آمد روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔ بادینی کا یہ مقام بھی صدیوں پرانی روایتی گزرگاہ ہے، جسے نہ سہل بنایا جاسکا اور نہ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکا ہے۔ ضلع قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ سے ’’مرغہ فقیر زئی‘‘ کے بعد بادینی کا مقام آتا ہے۔ کوئٹہ سے بادینی سرحد کا فاصلہ محض دو سو کلومیٹر بنتا ہے۔ چمن سرحد کے بجائے یہ مقام لورالائی کے راستے ڈیرہ غازی خان اور ژوب کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان سے قریب پڑتا ہے۔ یعنی مال بردار گاڑیوں کے لیے یہ راستہ چمن کی نسبت بہت مختصر ہے، اور پنجاب اس سرحد کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک کے قریب ہوجاتا ہے۔ افغانستان کا صوبہ زابل بادینی سے متصل ہے۔ زابل کے بعد مختصر فاصلے پر صوبہ غزنی اور پکتیکا آتا ہے۔ چمن کی نسبت یہ راستہ کابل کے لیے بھی نزدیک ہے۔ اس قدر اہمیت کی حامل سرحد ی گزرگاہ قیام پاکستان سے آج تک نظرانداز ہے۔ اب ٹریڈ ٹرمینل کا افتتاح تو کرلیا گیا ہے، مگر عالم یہ ہے کہ بادینی سے مسلم باغ تک پکی سڑک موجود نہیں ہے۔ سرحد کے دونوں طرف کا بڑا علاقہ غیر آباد ہے۔ پہاڑی راستہ آمدورفت کو کٹھن بناتا ہے۔ اِس وقت تک مواصلاتی ربط موجود نہیں ہے۔ بادینی کو دوسرے شہروں اور صوبوں سے منسلک کرنے کے لیے حکومت کو کئی سال درکار ہیں۔ چناں چہ پہلے پہل بجلی، ٹیلی فون، پانی کی سہولیات اور لیویز تھانہ، کسٹم ہائوس کی تعمیر و فعالیت تیز رفتاری کے ساتھ ہونی چاہیے تھی۔
صوبائی حکومت کہتی ہے کہ مغربی روٹ کا منصوبہ ژوب، کوئٹہ اور چمن سے ہوتا ہوا گوادر اور کراچی تک جائے گا جس پر 400 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ چناں چہ بادینی سرحد کوئٹہ ژوب شاہراہ کے قریب ہی ہے، تو کیوں ناں اسے بھی سی پیک کا حصہ بنایا جائے، تاکہ فوری طور پر سرحدی علاقوں کے عوام کو معاشی و تجارتی فوائد حاصل ہوں اور معاشرتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو۔ بقول وزیراعظم کے، وفاقی پی ایس ڈی پی میں زیادہ فنڈز بلوچستان کے لیے مختص کیے ہیں، جنوبی بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے خصوصی پیکیج مرتب کرنے کا کہا ہے۔ ویسٹرن کوریڈور شروع کرنے اور کراچی چمن شاہراہ دو رویہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کرنے کا بھی کہہ چکے ہیں۔ ویسے تو پورا بلوچستان خصوصی پیکیج کامستحق ہے، کہ پورا صوبہ ہی گوناگوں مسائل اور سہولیات کے فقدان کا شکار ہے۔
بادینی سمیت ٹریڈ ٹرمینل اور بارڈر مارکیٹوں کی بات تو ہوئی ہے، مگر بدقسمتی سے بارڈر مارکیٹ اب تک چمن سرحد پر بھی نہیں بن سکی ہے۔ لہٰذا اس جانب پیش رفت اعلانات سے بڑھ کر جنگی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ بلوچستان کی افغانستان کے ساتھ بارہ سو سے زائد کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ صوبے کے سات اضلاع کوئٹہ، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، پشین، ژوب، نوشکی اور چاغی کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ لگتی ہیں۔ صوبے میں باقی اہم سرحدی گزرگاہوں پر بھی بارڈر مارکیٹیں بنانی چاہئیں۔ اسی طرح ایران کے ساتھ 900کلومیٹر طویل سرحد پر بھی یہی ٹریڈ ٹرمینل جلد سے جلد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
بادینی ٹریڈ ٹرمینل کے افتتاح کے بعد بلوچستان اسمبلی کے18ستمبر کے اجلاس میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں صنعتی زون کے قیام کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے کہا گیا کہ صوبے کے وسائل کو صنعتی ترقی اور انسانی وسائل کے فروغ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ غیر پیداواری منصوبوں کو ترک کرکے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں صنعتی زون قائم ہوں۔ عالمی معیار کے ٹیکنیکل و تربیتی ادارے قائم ہوں۔ گویا حاضر وقت صوبے میں سی پیک کے تحت کوئی صنعتی زون، بارڈر مارکیٹ موجود نہیں ہے۔