پاکستان کو کوئی عاجلانہ اور غیر مقبول فیصلہ اُٹھانے سے گریز کرنا چاہیے
اسلام آباد کی فضائوں اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں ایک بار پھر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس بلایا جارہا ہے جس میں ان علاقوں کے مستقبل کے حوالے سے سرتاج عزیز رپورٹ کو جھاڑ پونچھ کر منظرعام پر لایا جانا مقصود ہے۔ اطلاع ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی نقشے کی تائید میں ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے کی منظوری لی جائے گی۔ اس فیصلے کے بعد گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی متنازع حیثیت ختم ہوجائے گی، اور یوں ان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے اپنا جواز کھو دیں گے۔ ظاہر ہے کہ ایک ملک میں دو صدر، دو وزرائے اعظم اور دو سپریم کورٹ نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں حکومتی نمائندوں کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ جلد ہی گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بناکر اسے وفاقی قانون ساز اداروں میں نمائندگی دی جائے گی۔ یہ بازگشت ایسے وقت میں گونجنے لگی ہے جب گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کا مرحلہ بہت قریب ہے، اور وفاق کی تین بڑی جماعتیں حکمران جماعت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) یہاں قسمت آزمائی کرنے جارہی ہیں۔ اس دوران وفاقی وزیر امورِ کشمیر علی امین گنڈا پور نے اسلام آباد میں اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو جلد ہی پاکستان کا آئینی حصہ بناکر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔ وزیر امورِ کشمیر نے یہ وضاحت نہیں کی کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات صوبائی طرز پر ہوں گے اور ان انتخابات کا حتمی مرحلہ سینیٹ میں نمائندگی کی صورت میں سامنے آئے گا، یا گلگت بلتستان میں قومی انتخابات کے ساتھ ہی قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کا انعقاد ہوگا؟ گلگت کو صوبہ بنانے کی بات انتخابی اسٹنٹ بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کی آبادی کے ایک معقول حصے کے لیے صوبائی اسٹیٹس اور قومی ایوانوں میں نمائندگی ایک پُرکشش تصور ہے۔ ہر حکومت عوام کے دلوں کے تار چھیڑ کر انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے مہدی شاہ حکومت کے قیام سے پہلے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس ایکٹ منظور کرکے صوبے کے خواب دکھاکر انتخاب جیتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے سرتاج عزیز کی کمیٹی میں اس خواب کے خدوخال اس حد تک واضح کیے کہ اس خواب کی تعبیر چند قدم کی دوری پر دکھائی دینے لگی۔ وفاقی وزیر امورِ کشمیر برجیس طاہر اور آصف کرمانی نے خوش نما دعووں کی ایسی رنگ آمیزی سے صوبے کے خواب کی تعبیر کو حاصل ہوئے بغیر ہی دلربا اور خوش نما بنادیا، اور یوں مسلم لیگ (ن) انتخابات جیت گئی اور مہدی شاہ کی جگہ حافظ حفیظ الرحمان نے حکومت سنبھالی۔ اب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرح پی ٹی آئی وفاق کی حکمران ہے اور قمرالزمان کائرہ اور چودھری برجیس طاہر کی طرح گلگت بلتستان کے عوام کا دل لبھانے کی ذمہ داری بہ لحاظِ عہدہ علی امین گنڈاپور کی ہے۔ سو انہوں نے ہو ا میں ایک تیر چلا دیا ہے۔
اگر معاملہ اسی حد تک ہے تو پھر انتخابات میں سیاسی اعلانات، پُرکشش نعرے اور محیرالعقول دعوے معمول کی بات ہے۔ اگر معاملہ اس سے آگے کا ہے تو پھر حالات ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں، اور اس مرحلے پر اسلام آباد کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں جتنا کہ سمجھا جارہا ہے۔ یہ تاریخی اور پیچیدہ معاملہ ہے، اور ہماری بقا تاریخ سے جڑے رہنے میں ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ تاریخ اور تاریخی سیاق وسباق سے مسئلے کو کاٹ کر نئی بِنا ڈالی جائے۔ وہ مسئلہ کشمیر کی تاریخی جہات اور حیثیت سے دامن چھڑانے اور پہلو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان اور کشمیری عوام کی طاقت کا راز مسئلے کے قانونی اور تاریخی پہلوئوں میں مضمر اور پوشیدہ ہے۔
گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا یہ کوئی نیا اعلان ہے اور نہ ہی اس متنازع علاقے کی حیثیت کو عملی طور پر تبدیل کرنے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ گلگت بلتستان کو مرحلہ وار وفاقِ پاکستان کا حصہ بنانے کی کوششیں عرصۂ دراز سے جاری تھیں اور گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس ایکٹ کی منظوری اس راہ کا سنگِ میل تھا، جس میں اس علاقے کے صوبے کے خدوخال پہلی بار بہت واضح ہوکر سامنے آئے تھے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو دو الگ یونٹوں کی شکل میں بحال رکھنے سے ان دو علاقوں کا مستقبل بھی دو الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں علاقوں کو ایک نیم خودمختار ڈھانچے کے دو یونٹوں کی شکل دی جاتی، مگر ہوا اس کے اُلٹ، کہ دونوں علاقوں کو ایک دریا کے دو کنارے بناکر رکھ دیا گیا۔ اس تقسیم کے دوران آزادکشمیر میں کسی حد تک سیلف رول کا آغاز ہوا، اور یہاں ایک نیم خودمختار ڈھانچے کی حامل حکومت قائم ہوئی۔ یہاں صدر، وزیراعظم، سپریم کورٹ اور اسمبلی جیسے ادارے قائم ہوئے۔ اس کے برعکس گلگت بلتستان میں عوام کو ووٹ کا حق بہت دیر سے ملا، جس نے وہاں کے عوام میں احساسِ محرومی پیدا کیا۔ اس تناظر میں جس نے بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت کی اُسے وہاں کے عوام کے حقوق کا مخالف سمجھا گیا، حالانکہ صوبائی اسٹیٹس کی مخالفت کا مقصد حقوق کی مخالفت ہرگز نہیں تھا۔
اسلام آباد میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی سوچ وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوتی گئی، اس دوران 5 اگست 2019ء کو بھارت نے تنازعے کی حرکیات کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ بھارت نے اپنے طور پر تنازعے کی بچی کھچی حیثیت ہی ختم کردی۔ اس صورتِ حال نے پاکستان اور چین کے کان کھڑے کردیے اور انہوں نے بھی اپنا کلہ مضبوط کرنے کے لیے متبادل راستوں کے انتخاب کے بارے میں سوچ بچار شروع کی۔ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد چین ایک متحرک کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے، اور اب بھارت اور پاکستان کی کشمکش عملی طور پر چین بھارت کشمکش میں ڈھلتی جارہی ہے۔ چین اقصائے چن کی صورت اس تنازعے کا ایک خاموش فریق تھا، مگر مودی نے اسے خاموشی اور خوابیدگی ترک کرکے سب سے فعال فریق بنادیا ہے۔ اب چین اور بھارت کی فوجیں لداخ میں آمنے سامنے ہیں۔ پاکستان اس کشمکش میں سائیڈ رول ادا کررہا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تصادم کی نوبت آتی ہے تو پاکستان تیسرے فریق کے طور پر اپنا حصہ ادا کر ے گا۔ اس صورتِ حال میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی طرف حتمی پیش رفت کی باتیں ہی عام نہیں بلکہ آزادکشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں تنازع کشمیر پوری ریاست جموں وکشمیر کا نام ہے، اور یہ مقدمہ پوری ریاست کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ریاست اس وقت تین حصوں پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان تقسیم ہے۔ تینوں حصوں کو اقوام متحدہ اور باقی دنیا بھی متنازع سمجھتی ہے۔ بھارت وہ تنہا فریق ہے جو اپنے مقبوضہ علاقے کو اٹوٹ انگ، جبکہ صرف چین اور پاکستان کے زیرانتظام علاقوں کو نہ صرف یہ کہ متنازع، بلکہ انہیں اپنے تصوراتی اور یک طرفہ اٹوٹ انگ کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس چین اور پاکستان دونوں اپنے زیرانتظام علاقوں سمیت پوری ریاست کو متنازع قرار دے رہے ہیں اور کشمیر کے مستقبل کے سوال پر ان علاقوں کا مستقبل بھی زیربحث لانے پر آمادہ ہیں۔ بھارت یک طرفہ فیصلے کرکے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا نشان بن گیا ہے۔ کشمیری پہلے ہی اس سے برگشتہ اور متنفر تھے، اب وہ مزید دور ہوگئے ہیں۔ پاکستان اپنے تمام تعلقات ختم کربیٹھا ہے۔ چین بھارت کو آنکھیں ہی نہیں بلکہ اپنا زورِ بازو بھی دکھا رہا ہے۔ ایک ایک کرکے ہمسائے بھارت کا دامن چھوڑتے جارہے ہیں۔ بھارت کی یہ حالت بتارہی ہے کہ اس کا فیصلہ مقامی سطح پر بری طرح پٹ گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ ایک غیر مقبول اور غیر معقول فیصلہ ہے۔ ایسے غیر مقبول فیصلے کے ردعمل میں پاکستان کو کوئی عاجلانہ اور غیر مقبول فیصلہ اُٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ مانا کہ پانچ اگست کے بعد طاقت اور کشمکش کا مدتوں سے جاری کھیل اب جنوبی ایشیا سے پورے ایشیا تک پھیل گیا ہے، پہلے کشمیر کو صرف جنوبی ایشیا کا فلش پوائنٹ کہا جاتا تھا، اب چین کی سرگرم تائید کے بعد یہ پورے ایشیا کا فلش پوائنٹ بن گیا ہے، اور یوں کشمیر ایک گریٹ گیم کا مرکز بن گیا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی اختلافات صرف کشمیر تک محدود نہیں تھے بلکہ یہ اختلافات بھارتی حدود پر بھی ہیں، مگر چین اور بھارت کی حالیہ کشیدگی کی وجہ ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت کی تبدیلی ہے۔ یہ حقیقت تنازع کشمیر کی اہمیت اور مرکزیت کوظاہر کررہی ہے۔ چین کا خطے میں جاری کشیدگی میں شامل ہونا صرف ایک ملک کی شرکت نہیں، بلکہ اس کا مطلب اور دائرہ دونوں بہت وسیع ہوں گے۔ یوں کھیل زیادہ بڑا ہوگیا ہے۔ اس بڑے کھیل کو لڑنے کے لیے زیادہ خوداعتمادی، عوامی تائید کے ذریعے زمین کو پیروں تلے رکھنے اور بین الاقوامی فورمز اور وہاں پہلے سے موجود مقدمات کی فائلوں اور تاریخی دستاویزات کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے… نہ کہ عجلت اور بوکھلاہٹ کی، کہ جس میں ایک غلط فیصلے کے جواب اور ردعمل میں دوسرا غلط فیصلہ کرکے خود کو حالات کی دلدل میں لاکھڑا کیا جائے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے عوام کو حقوق دینے اور مطمئن کرنے کے لیے بھارت کے غیر مقبول فیصلوں کے ردعمل پر مبنی پالیسی اپنانے کے بجائے ان علاقوں کے عوام اور لیڈرشپ کو اعتماد میں لے کر خوداعتمادی پر مبنی پالیسی بنانا چاہیے۔ کل تک پاکستان بھارت سے پنجہ آزمائی میں تنہا تھا، اب پانچ اگست کے بعد چین بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ ایسے میں کون سی اُفتاد آن پڑی ہے کہ بھارت کے ہر عمل پر اسی انداز، اسی لہجے اور دہن میں ردعمل دکھایا جائے!۔