سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒصدی کے مجدد

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ وہ واقعی اس صدی کے مجدد تھے ، اس صدی میں اللہ تعالیٰ نے تجدید و احیائے دین کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف شخصیات کو منتخب کیا، اللہ تعالیٰ نے ان چنیدہ اور منتخب داعیانِ دین میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم سے اپنے دین کی غیر معمولی خدمت لی، اپنی رضا و خوشنودی کے لیے غیر معمولی کام کرنے کا شرف بخشا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تجدید احیائے دین کا کیا کام کیا ہے؟ ہمیں یہ مطالعہ کرنے، جائزہ لینے، اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جس طرح انہوں نے اپنے وقت کے مسائل اور تقاضوں کو سمجھا اور اپنے اسباب و وسائل اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے ایک لائحہ عمل، ایک منصوبہ، ایک طریقہ کار اختیار کرکے اپنی منزل کی طرف مسلسل مستقل مزاجی کے ساتھ ہر قسم کے گرم وسرد حالات اور نشیب و فراز میں اپنی منزل کی طرف گامزن ہی نہیں رہے، بلکہ پوری جماعت اسلامی،اور پوری امتِ مسلمہ کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی جب اورنگ آباد حیدرآباد دکن انڈیا میں ولادت ہوئی اُس وقت تک انگریز حکومت پورے ہندوستان کو مکمل طور پر فتح کرچکی تھی۔ پوری تعلیم یافتہ نسل انگریزوں کے مطلوبہ رنگ میں رنگ چکی تھی اور وہی تہذیب و ثقافت اختیار کرچکی تھی۔ پورا عدالتی نظام، تعلیمی نظام، انتظامیہ، تجارت، زراعت، زمینداری اور فوجی نظام مکمل طور پر اپنی ضروریات و ترجیحات اور اغراض و مقاصد اور مفادات کے اعتبار سے تبدیل کردیا تھا۔ ہر طرف انگریز کا طوطی بول رہا تھا۔ کیا مسلمان کیا ہندو، ہر قوم اور ہر مذہب والے انگریزی سرکار کی رحمتوں اور برکتوں کے گن گا رہے تھے انگریزی حکومت کے قصیدے لکھے جارہے تھے جنہیں آج بھی تاریخ کی مستند کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کی منسوخی اور جہاد کے حرام ہونے تک کے فتوے دئیے۔ انگریز سرکار نے متحدہ ہندوستان میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے یہاں کی ہر اُس چیز کو فنا کردیا جو اُن کے اقتدار کے لیے کبھی بھی معمولی سا بھی خطرہ بن سکتی تھی۔ اس اعتبار سے مسلمانوں اور اسلام کی ایک ایک چیز کو تبدیل کردیا گیا۔ اب جس چیز کو انگریزی سرکار اچھا کہتی، مسلمانوں کی قیادت اور تعلیم یافتہ لوگوں کی غالب اکثریت اُس کی حامی ہی نہیں بلکہ دیوانی ہوجاتی۔ اس طرح انگریز سرکار نے مسلمانوں کو بھی مکمل طور پر مفلوج اور بانجھ کردیا، لیکن مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ

تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اس قلب ماہیت (تبدیلی) کا الزام ہم صرف انگریز سرکار پر نہیں لگا سکتے، بلکہ مغلیہ سلطنت کی خامیوں، کوتاہیوں، اور بحیثیتِ مجموعی گزشتہ کئی صدیوں کے ملوکانہ اور شاہی نظاموں نے اس کی صاف ستھری تعلیمات کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ انگریز سرکار نے تو اسی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دے کر گرا دیا تھا۔
اس انتہائی نازک صورتِ حال میں سید مودودیؒ مرحوم نے عقائد و ایمانیات کی اصلاح و تطہیر اور تزکیہ کے لیے کی جانے والی مصلحین و مبلغین کی اصلاحی کاوشوں کا بغور مطالعہ کیا، جسے آپ نے بعد میں اپنی کتاب ’’تجدید احیائے دین‘‘ میں انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ تحریر کردیا ہے۔1937ء کے لگ بھگ آپ نے اسکولوں اور مدارس کے بچوں کو سامنے رکھ کر ’’دینیات‘‘ تحریر فرمائی۔ اس طرح دارالاسلام پٹھان کوٹ کی مسجد میں عام دیہاتی مسلمانوں کے لیے جو خطباتِ جمعہ دئیے وہ ’’خطبات‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔
عقائد و ایمانیات کی اصلاح وتطہیر کے لیے آپ نے عقل، فہم و فراست اور دماغ کو اپنا اولین ہدف قرار دیا کہ اللہ ایک ہے، وہی مختارِ کل ہے، وہی اکیلا پوری کائنات کو چلا رہا ہے۔ یہ عقائد آپ نے انتہائی سادہ الفاظ اور سلیس اسلوب میں بار بار لکھے ہیں تاکہ معقول اور مدلل عقائد انسان کے دماغ سے ہوتے ہوئے اُس کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائیں، کیونکہ ایمان تو وہی ہے جو دل میں اتر جائے، جم جائے (الایمان ماوقر فی القلوب:ایمان وہ ہے جو دلوں میں جم جائے۔ امام رازی:تفسیر کبیر)
ایمان باللہ، ایمان بالرسول، ایمان بالآخرۃ، اور ایمان بالغیب (اَن دیکھے کو دیکھے بغیر ماننا)کے سلسلے میں سید مودودیؒ کا یہ معقول، مدلل، مربوط و منضبط اسلوبِ تحریر و تقریر ہی تھا جس نے جوانوں، نوجوانوں، بوڑھوں، مرد وزن سب کے دل و دماغ کو مفتوح کرلیا۔
عقائد و ایمانیات کا تزکیہ اور فکری تطہیر جماعت اسلامی کی تشکیل کے چار بنیادی اہداف میں سے دو اہداف کی صورت میں لکھے گئے ہیں کہ
1۔ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی بندگی اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرو۔
2۔ دورنگی اور منافقت چھوڑ دو اور اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسری بند گیاں جمع نہ کرو۔
(دستور جماعت اسلامی پاکستان۔ روداد جماعت اسلامی حصہ اول دوئم)
عقائد و ایمانیات کی اصلاح و تطہیر اور تزکیہ کے سید مودودی ؒمرحوم کے کام میں غور و فکر اور تدبر کرنے پر یہ بڑی حکمت نظر آتی ہے کہ آپ کی تحریر و تقریر میں ان انتہائی درجے کی گمراہیوں بلکہ شرک و کفر کے اعمال پر سطحی اور وقتی غیظ و غیض اور اشتعال نظر نہیں آتا، البتہ اصلاح و تزکیہ کے کام اور عمل میں ایک گہری سوچی سمجھی حکمت عملی کارفرما نظر آتی ہے۔ آپ نے اہلِ سنت والجماعت، مسلمانوں کے مسلمہ اصول، قرآن کریم، سنت رسول اللہ صلی اللہ وسلم، اجماع صحابہ و فقہا اور قیاس کو اپنی ساری اصلاحی کاوشوں کا محور و مرکز اور ماخذ قرار دیا۔
یہ اصلاحی کام پلِ صراط کی تیز دھار سے زیادہ تیز، اُس سے زیادہ باریک، اُس سے زیادہ نازک، اس سے زیادہ خطرناک کام تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے آپ نے اسے بحسن و خوبی انجام دیا، حتیٰ کہ گواہی دینے والوں نے گواہی دی ہے کہ سید مودودیؒ کے اصلاحی و تجدیدی کاموں کے اثرات دور دور تک پھیل گئے ہیں، جو ان کے شدید مخالف تھے اب وہ بھی وہی کچھ اختیار کرچکے جس کی دعوت سید مودودیؒ دے رہے تھے۔
علامہ محمد اقبالؒ، محمد علی جناحؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم تھا کہ تینوں کی کاوشوں کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی شرفِ قبولیت سے نوازا۔
لیکن بہرحال تینوں قائدین نے جس منزل کی طرف سفر شروع کیا تھا وہ سفر جاری ہے۔ آج بھی عقائد و ایمانیات کی اصلاح وتطہیر اور تزکیہ کا بہت سا کام باقی ہے۔
یورپ میں سائنسی ایجادات و اختراعات اور صنعتی انقلاب کے ساتھ معاشرتی اور ثقافتی انقلاب بھی آیا۔ صدیوں سے قائم جاگیرداروں، سیاسی قیادت اور مذہبی قیادت کی تثلیت کو وہاں کے خواص اور عوام میں سے سوچنے سمجھنے والوں نے چیلنج کردیا کہ جاگیرداری و خاندانی بادشاہوں کے ظلم و ستم کے ستائے انسانوں نے اس عہدِ رفتہ کی ہر چیز سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ پاپائیت اور مذہبی اجارہ داری کے خلاف نفرت کا ایسا لاوا اُبل پڑا کہ مذہب (عیسائیت و یہودیت)کے نام سے لوگ نفرت کرنے لگے، اور یہ تصور عام کردیا کہ انسانوں میں نفرت کی بنیادی وجہ مذہب اور مذہب کے اجارہ دار ہیں جو اپنے مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے عوام و خواص کو مذہب کے نام پر لڑاتے ہیں۔
مذہبی پیشواؤں نے مذہب (عیسائیت و یہودیت)کو یورپ میں کس کس طرح اپنی گھٹیا حیوانی خواہشات اور دنیاوی مفادات کے لیے استعمال کیا، اس کی ایک مستند جھلک سید مودودیؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان گھٹیا اغراض کی تکمیل کے لیے بادشاہت اور پاپائیت کا بہت ہی گہرا گٹھ جوڑ تھا۔ یورپ کے سوچنے سمجھنے والے دانشور و مفکرین جب عوام کو بیدار کرنے لگے تو وہ بھی افراط وتفریط کا شکار ہوگئے، اور انہوں نے مکمل طور پر انسانی زندگی سے مذہب کو نکال دینے کی جدوجہد کی۔ آج یورپ ہی نہیں پوری دنیا میں اس سوچ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ہمارے جدید تعلیم یافتہ ، دانشور اور مفکرین کی اکثریت شعوری یا لاشعوری طور پر اسی سوچ کی گرفت میں ہے۔ یہی سکۂ رائج الوقت ہے۔

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

(علامہ محمد اقبال)
علامہ اقبالؒ مذہب و سیاست کی وحدت، یگانگت اور لازم و ملزوم ہونے کا جو پیغام شاعری میں دے رہے تھے وہی پیغام سید مودودیؒ اپنی نثر کے ذریعے پھیلا رہے تھے۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے ہر حصے کے ہر صفحے پر یہ سوچ موجود ہے۔ اُس دور میں حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور ان کے ہم خیال علماء کی بڑی تعداد کانگریس کے متحدہ قومیت کے نظریے کی حامی تھی، اس لیے وہ قیام پاکستان اور مسلم لیگ کی مخالفت کررہے تھے، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا: ۔

عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمدؒ چہ بوالعجبی است
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است

(ارمغانِ حجاز :محمد اقبالؒ)
ترجمہ(از پروفیسر یوسف سلیم چشتی): ’’علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ’’مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عجمی لوگ ابھی تک دینِ اسلام کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوئے، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ دیوبند (دارالعلوم )کے (حضرت مولانا) حسین احمد (مدنیؒ) مسلمانوں کو ایسی تلقین کرتے جو سراسر اسلام کی روح کے خلاف ہے۔
یعنی جو شخص مسلمان ہوکر یہ کہتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کی بنیاد وطن ہے، یا مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت بنا سکتے ہیں، یا کافر و مسلم دونوں مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں، وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بلاشبہ بے خبر ہے‘‘۔
نوجوان محققین اکثر پوچھتے ہیں کہ کس طرح کے تحقیقی موضوع پر کام کریں؟ اس تحریر میں صرف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے کئی موضوعات کی طرف اشارہ کرچکا ہوں کہ محققین ان پر تفصیلی تحقیقی کام کریں۔ ’’دین و دنیا کی جدائی اور سیاست اور مذہب کی تفریق‘‘ یہ بھی ایک اہم تحقیقی موضوع ہے جس پر مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سید مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ ان کاوشوں میں کس حد تک کامیاب ہوسکے ہیں؟ آج پاکستان، امتِ مسلمہ اور دنیا میں کیا فکر غالب ہے؟ کیوں غالب ہے؟ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ جماعت اسلامی پاکستان میں اسلام کی مکمل دعوت کے ساتھ میدانِ سیاست میں اتری، اس فکر کے تناظر میں جماعت اسلامی کی پوری سیاسی جدوجہد کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں جماعت اسلامی پاکستان اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کرسکتی ہے۔ الحمدللہ، جماعت اسلامی پاکستان میں ہر سطح پر یہ مطالعہ اور جائزہ لیا جاتا ہے، اور محققین اور مفکرین اپنی تجاویز اور مشورے مرکزی شوریٰ سے لے کر ضلعی شوریٰ تک ہر مقام پر پیش کرتے ہیں، اور ان پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں۔ بہرحال

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

یورپ میں شہنشاہیت اور پاپائیت کے خلاف جو بغاوت ہوئی ہے اُس میں آزادی اور انسانی حقوق کے علَم بردار کئی سائنس دانوں، دانش وروں اور فلاسفہ (فلسفیوں) کو بھی شدید ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ کئی کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ اس کے نتیجے میں انسانی حقوق کے علَم برداروں میں شہنشاہ اور اس کی افواج اور درباریوں، اور ان کے حاشیہ برداروں اور پشتی بان پاپائیت کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی۔ اس کے لیے یہ تصور عام ہوگیا کہ چرچ اور پادری نہ صرف اس حریت اور حقوق کی تحریک کے مخالف ہیں، بلکہ وہ مذہب میں کسی معقولیت اور استدلال کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس لیے وہ سائنس دانوں کے جدید سائنسی افکار و نظریات کے خلاف انتہائی جذباتی ردعمل ظاہر کررہے ہیں۔
سید مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں بے شمار مقامات پر قرآن کی متعلقہ آیات کے تناظر میں وضاحت کی ہے کہ اسلام کی کوئی تعلیم، عقیدہ و نظریہ اور عمل سائنس کے خلاف نہیں ہے، البتہ عقلی دلائل سے ثابت ہوگیا ہے کہ خود سائنس کو ان حدود میں رکھنے کی ضرورت ہے، جہاں سائنس کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں وہاں انسان اپنی فکر و نظر اور عقیدے کا سفر جاری رکھنے کے لیے وحی و رسالت کا محتاج ہے۔ اس سلسلے میں سید مودودیؒ کی کتب ’’تنقیحات‘‘،’’تفہیمات‘‘، ’’رسائل و مسائل‘‘، ’’مولانا سید مودویؒاور مریم جمیلہ کی باہمی مراسلت‘‘ مطبوعہ لاہور 1979ء، ’’ہندوستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب‘‘ اور “الجہاد فی الاسلام‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
سورہ انفطار کی آیت نمبر 1تا3کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ’’سورہ تکویر میں فرمایا گیا کہ سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی، اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ سمندر کو پھاڑ دیا جائے گا۔ دونوں آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے اور یہ بات نگاہ میں رکھی جائے کہ قرآن کی رو سے قیامت کے روز ایک زبردست زلزلہ آئے گا جو کسی علاقے تک محدود نہ ہوگا، تو سمندروں کے پھٹنے اور ان میں آگ بھڑک اٹھنے کی کیفیت ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ پہلے اُس عظیم زلزلے کی وجہ سے سمندروں کی تہ پھٹ جائے گی اور ان کا پانی زمین کے اندرونی حصے میں اترنے لگے گا جہاں ہر وقت ایک بے انتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے۔ پھر لاوے تک پہنچ کر پانی اپنے ان دو ابتدائی اجزاء کی شکل میں تحلیل ہوجائے گا جن میں سے ایک یعنی آکسیجن جلانے والی اور دوسری یعنی ہائیڈروجن یعنی بھڑک اٹھنے والی ہے۔ اور یوں تحلیل اور آتش افروز کا ایک مسلسل ردعمل شروع ہوجائے گا، جس سے دنیا کے تمام سمندر میں آگ لگ جائے گی۔ یہ ہمارا قیاس ہے، باقی صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔
(تفہیم القرآن جلد 6، سترہویں اشاعت، دسمبر 1987ء)
سید مودودیؒ نے اپنی جوانی میں سائنس کا بھرپور مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے سائنسی ایجادات و اختراعات سے بھرپور استفادہ کی دعوت دی، البتہ سائنس کے نام پر کسی بھی قسم کی مرعوبیت اور ذہنی غلامی کو قبول کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ وہ کسی بھی معاملے میں رائے قائم کرنے کے صحیح علمی طریقے کے حوالے سے لکھتے ہیں:۔
’’جن کی حقیقت: اس سورہ کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ جنوں کی حقیقت کیا ہے، تاکہ ذہن کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔ موجودہ زمانے کے بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جن کسی حقیقی چیز کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ بھی پرانے زمانے کے اوہام و خرافات میں سے ایک بے بنیاد خیال ہے۔ یہ رائے انہوں نے کچھ اس بنا پر قائم نہیں کی ہے کہ کائنات کی ساری حقیقتوں کوجان چکے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ جن کہیں موجود نہیں ہیں، اور ایسے علم کے دعوے وہ خود بھی نہیں کرسکتے ہیں، مگر انہوں نے بات اختیار کرلی ہے کہ کائنات میں بس وہی کچھ موجود ہے جو ان کو محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے محسوسات کا دائرہ اس عظیم کائنات کی وسعت کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہیں رکھتا جو سمندر کے مقابلے میں قطرے کی نسبت ہے۔ یہاں جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ محسوس نہیں ہے وہ موجود نہیں ہے، اور جو موجود ہے اسے لازمی ہونا چاہیے وہ دراصل خود اپنے ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے۔ یہ طرز فکر اختیار کرلیا جائے تو ایک جن ہی کیا انسان کسی ایسی حقیقت کو بھی نہیں مان سکتا جو براہ راست اس کے تجربے یا مشاہدے میں نہ آتی ہو، تو اس کے لیے خدا تک کا وجود قابلِ تسلیم نہیں ہے کجا کہ وہ محسوس حقیقت کو تسلیم کرلے‘‘۔
(تفہیم القرآن جلد 6۔ صفحہ 109،110)
اسی طرح سید مودودیؒ نے تفسیر قرآن میں بار بار یہ حقیقت ذہن نشین کروا دی کہ حواسِ خمسہ، محسوسات اور سائنسی تجربے کا ایک دائرے میں سائنس سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نومسلمہ مریم جمیلہ مرحومہ اپنی کتاب میں سید مودودیؒ کے سارے علمی سرمایہ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’مولانا زندگی بھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی کامیابیوں میں گہری دلچسپی لیتے رہے، 20 جولائی1969ء کو جب چاند پر پہلا انسان اترا تو مولانا مودودیؒ نے کہا ’’چاند پر آدمی کا اترنا بہرحال سائنس کی ترقی کاکمال ہے، اس کمال کا اعتراف نہ کرنا ایک علمی اور اختلافی بخل ہے۔‘‘ (ہفتہ روز ایشیاء، لاہور، 25 جولائی 1969ء صفحہ 3، بحوالہ ماہنامہ ہمقدم سید مودودی نمبر، جدید ترقی و تمدن اور مولانا مودودی۔ صفحہ :76،71اکتوبر 2019ء)