۔’’حقوق کراچی مارچ‘‘۔

کراچی کے عوام کو نیا سیاسی کٹھ پتلی بندوبست منظور نہیں

کراچی کا امتیاز صرف پاکستان کا سب سے بڑا اقتصادی شہر ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ عالمِ اسلام کا بھی ایک اہم شہر ہے۔ اس کے مسائل تاریخی طور پر موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایک منظم منصوبے کے تحت ان کو حل کرنے کی کبھی کوشش نہیںکی گئی، اور اس کو عالمی قوتوں کی خواہش کے مطابق مقامی ایجنٹ تسلسل کے ساتھ برباد کرتے آئے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس کو برباد کرنے والے اسلام آباد کے حکمران بھی ہیں، سندھ کے حکمران بھی ہیں اور اس شہر کے مشہور’’ اپنے لوگ‘‘ بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کا کہنا درست ہے کہ یہاں کے شہری اپنے آپ کو بے یارو مددگار محسوس کرتے ہیں، جنہیں حکومتی نظام سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے۔ انتظامی صورتِ حال یہ ہے کہ مارکیٹوں اور محلوں کے گٹر ابلے ہوئے ہیں، کیچڑ اور گندگی میں لاکھوں انسان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام عملاً ختم ہوگیا ہے، آدھے سے زیادہ کراچی استعمال کے پانی کو ترستا رہتا ہے جبکہ ٹینکر مافیا راج کررہا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے لوڈشیڈنگ، اووربلنگ اور تیز میٹر کا عذاب الگ ہے۔ حالیہ بارشوں نے DHA سے سرجانی اور اورنگی ٹائون تا کورنگی لانڈھی پورے نظام کو ایکسپوز کردیا ہے۔ شہر پر اقتدار برقرار رکھنے والی تینوں جماعتیں اہلِ کراچی کو کچھ نہیں دے سکیں۔ اور اب جب اس نااہلی اور تباہی کا شور اٹھا تویہ تینوں جماعتیں اکٹھی ہوگئیں اور نام نہاد پیکیج پر سیاسی شعبدے بازی شروع کردی ہے، اور اس وقت ہر شخص جس کا تعلق ہو یا نہ ہو کراچی کراچی کررہا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ کہنا اور سوال اٹھانا بھی ٹھیک ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہے کہ ڈیڑھ سال پہلے وزیراعظم کا اعلان کردہ 162 ارب روپے کا پیکیج کہاں گیا؟ وفاقی حکومت نے دو سال میں کراچی کو کیا دیا ؟ 2500 ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے شہر کے ڈوبے ہوئے لوگوں کے نقصان کا ازالہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جبکہ اسی دوران کے الیکٹرک کو 5 ارب روپے دیئے گئے ہیں۔ یہ سوال اہم ہے اور اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی میدانِ عمل میں ہے کہ صوبے کا 90 فیصد بجٹ دینے والا شہر کیوں برباد ہے؟ سندھ کے کرپٹ حکمران کراچی کو صوبے کا حصہ کیوں نہیں سمجھتے ؟ کراچی کے نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کیوں ہیں؟ 30۔ 35 سال سے کراچی کے سیاہ و سفید کے مالکوں نے شہر کے بنیادی مسائل مردم شماری، شناختی کارڈ، بجلی، پانی، علاج، تعلیم، ٹرانسپورٹ، کوٹہ سسٹم کے لیے کیا کیا؟
جماعت اسلامی کراچی کو اس کا حق دلانے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہے، اور اس کی تحریک اب زور پکڑتی جارہی ہے، اور اس حوالے سے اس کی پشت پر پورا ملک کھڑا ہے۔
اسی تسلسل میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق بھی کراچی پہنچے۔ ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’کراچی ملک کی معاشی اور نظریاتی شہ رگ ہے۔ پورا شہر تباہ حال اور پریشان ہے۔ بجلی، گیس اور پانی کا بحران ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ناکام ثابت ہوئی اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے بھی دو سال میں کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ایم کیو ایم وفاقی حکومت کے فیصلوں میں شریک ہے اور دوسری طرف بھرپور احتجاج بھی کررہی ہے۔ اسلام آباد کی اے پی سی میں کراچی کے مسائل پر بھی بات ہونی چاہیے تھی۔ موجودہ حکومت نے فوج کو بھی متنازع بنادیا ہے، اور یہ جو غلط کام کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا اور بالکل ٹھیک اور درست کہنا تھا کہ ان تینوں حکمران پارٹیوں نے کراچی کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ وزیراعظم بارش میں شہر ڈوبنے کے کئی دن بعد آئے اور 1100ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ کراچی کی آبادی کو تو مردم شماری میں درست شمار نہیں کیا گیا، پہلے کراچی کی درست آبادی کا تو اعلان کیا جائے۔ سرکاری سطح پر وعدہ کیا گیا تھا کہ کراچی کے 5فیصد بلاکس کھول کر درست تعداد کا پتا کیا جائے گا، مگر یہ وعدہ تاحال پورا نہیں ہوا۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں با اختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے مسائل اور جائز حق کے لیے 27 ستمبر کو شاہراہ قائدین پر ایک بڑے اور تاریخی مارچ کا اعلان کیا ہے۔ میں تمام شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے حق کے لیے گھروں سے نکلیں۔ محرومیوں کے خاتمے اور مسائل کے حل کی جدوجہد میں شریک ہوں۔
اس سے قبل جماعت اسلامی کے تحت شہر کے بلدیاتی مسائل کے حل اور کراچی کے جائز، قانونی وآئینی حقوق کے حصول کے لیے جاری ’’حقوق کراچی تحریک‘‘ اور 27 ستمبر کو شاہراہ قائدین پر ہونے والے ’’حقوق کراچی مارچ‘‘ کے سلسلے میں شہر بھر میں سیکڑوں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے جن میں کے الیکٹرک کے ستائے ہوئے عوام نے بڑی تعداد میں شر کت کی۔ پورے شہر میں مظاہروں سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور مقامی ذمے داران نے خطاب کیا۔ مرکزی مظاہرہ بعد نماز جمعہ نعمان مسجد لسبیلہ چوک پر ہوا جس سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے خطاب کیا۔ مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں ہینڈ بل تقسیم کیے گئے اورکراچی کے شہریوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے پُرجوش نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر شرکا نے بینر اور پلے کارڈ بھی اٹھائے ہوئے تھے جن پر ’’غاصبانہ ایکٹ نہیں… بااختیار شہری حکومت‘‘، ’’ہم تین کروڑ ہیں، ڈیڑھ کروڑ نہیں، جعلی مردم شماری نامنظور‘‘، ’’کے الیکٹرک کی لوٹ مار بند کرو، قومی تحویل میں لو‘‘، ’’میرٹ کا قتلِ عام کوٹہ سسٹم ختم کرو‘‘، ’’کراچی کے نوجوانوں کو ملازمتیں دو‘‘ کے نعرے درج تھے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی کے تحت 27ستمبرکوکراچی کے عوام کے جائز حقوق کے حصول کے لیے ’’حقوق کراچی مارچ‘‘کا انعقاد کیا جائے گا۔
جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ کراچی کو پیرس، لندن، نیویارک بنانے کا فریب نہ دو، بلکہ کراچی کو کراچی بنادو، اس کی روشنیاں اور ترقی لوٹا دو، ہمارا شہر ہمیں واپس کر دو۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس شہرکو پہلے بھی جماعت اسلامی نے ترقی دی، اب بھی اس کا مسئلہ جماعت اسلامی ہی حل کرسکتی ہے۔ بارش ہو یا کوئی اور مسئلہ، بغیر اقتدار کے بھی خدمت جماعت اسلامی کی سرشت میں ہے۔ اب اہلِ کراچی کو بھی اپنے حقوق کے لیے اپنا بھرپورکردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر اہلِ کراچی چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی نئے ڈھکوسلے اور فریب میں آئے بغیر اپنا اور اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ ہو، یہاں بااختیار شہری حکومت ہو، میرٹ کا قتلِ عام نہ ہو، کے الیکٹرک کی لوٹ مار بند ہو، کراچی کے نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں تو انہیں حافظ نعیم الرحمٰن کی اپیل پر 27ستمبرکو ’’حقوق کراچی مارچ‘‘ میں شریک ہونا چاہیے تاکہ وہ بتاسکیں کہ ہمیں کراچی کے نام پر نیا سیاسی کٹھ پتلی تماشا و بندوبست منظور نہیں ہے، اور ہم جماعت اسلامی کی قیادت میں شہر کو چمکتا دمکتا بنانا چاہتے ہیں۔