خادم سیرت ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی مرحوم کی رحلت

علم و فضل کی دنیا کا ایک اور لائٹ ٹاور ہمیشہ کے لیے بجھ گیا، تحقیق کی دنیا مزید سُونی ہوگئی، کردار کی جیتی جاگتی تعبیر استعاروں اور تلمیحات کے سمندر میں کھوگئی۔ سیرت کا خادم، قلم کا مجاہد اور تہذیب کا ایک اور محافظ رخصت ہوگیا۔
کاغذات کے مطابق 26 دسمبر 1944ء کو اترپردیش میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی 15 ستمبر 2020ء کو علی گڑھ میں رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
تصور میں اگر کسی شخصیت کا علمی رعب اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ اکٹھی آجائے تو ایک ہی صورت بنتی ہے، ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی… ورنہ کبھی علم کا رعب انسان کے اعصاب پر طاری ہوجاتا ہے، تو کہیں قہقہوں کا شور شخصیت کا وزن کم کردیتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ندوۃ العلماء سے 1959ء میں عالم، اور 1960ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب کی سند حاصل کی۔ اس سے قبل جامعہ ملیہ دہلی سے بھی بہ طور طالب علم وابستہ رہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے 1969ء میں ایم فل مکمل کیا اور 1970ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے استاد کی حیثیت سے منسلک ہوگئے۔ ادارے کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔
1975ء میں آپ کی پی ایچ ڈی کی تکمیل ہوئی، 1983ء میں شعبہ علوم اسلامیہ میں ریڈر ایسوسی ایٹ، اور 1991ء میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ڈائریکٹر شعبہ علوم اسلامیہ کی ذمے داریاں نبھائیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ’’شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل‘‘ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ آپ کو شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا اسحاق سندیلوی، مولانا عبدالحفیظ بلیادی صاحبِ ’مصباح اللغات‘ اور مولانا رابع حسنی ندوی جیسے جلیل القدر اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ سے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا، مگر پھر اپنے والدِ محترم کی تشویق سے سیرت نگاری کی جانب متوجہ ہوئے، اور پھر وہی آپ کی اصل پہچان بنی۔ آپ کی عربی، اردو اور انگریزی زبان میں متعدد کتب شائع ہوئیں اور مختلف موضوعات پر جن میں سیرتِ طیبہ سب سے نمایاں ہے، آپ کے پانچ سو کے قریب مقالات مختلف جرائد میں شائع ہوئے۔ آپ کے مضامین پاک و ہند کے سب ہی اہم مجلات کی زینت بنتے رہے، مگر خاص طور پر ہندوستان میں ’معارف‘ اور ’تحقیقاتِ اسلامی‘، اور پاکستان میں مختلف جامعات کے مجلات کے ساتھ ساتھ شش ماہی ’السیرہ عالمی‘ میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ سیرتِ نبویؐ کے موضوع پر آپ کی تیس سے زائد مستقل تصانیف میں مصادر سیرتِ نبویؐ، تاریخ تہذیبِ اسلامی، عہدِ نبویؐ میں تنظیم ریاست و حکومت، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خواتین، ایک سماجی مطالعہ، عہدِ نبویؐ میں تمدن، مکی اسوۂ نبوی، معاشِ نبوی، قریش وثقیف تعلقات شامل ہیں۔ آپ کے خطبات نے بھی شہرت حاصل کی۔ اس سلسلے کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف ایک اور بزرگِ من ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ؒ کے ذریعے ہوا۔ انہوں نے فرمائش کرکے ڈاکٹر صاحب کے کچھ مطبوعہ مقالات منگوائے تھے، تاکہ ان کی اشاعت کی کوئی صورت کی جاسکے۔ یہ مقالات عکسی نقول کی صورت میں تین چار جلدوں میں تھے اور موضوعاتی اعتبار سے مرتب شدہ تھے۔ کشفی صاحب نے کراچی کے اُس وقت کے ایک بڑے ناشر کو اشاعت کے لیے حوالے کردیے، مگر پھر ناشر صاحب کی ترجیحات میں خاصا انقلاب آیا، یوں وہ مرتب شدہ مسودات بھی ہاتھ سے جاتے رہے، مگر اس دوران راقم کو انہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور پڑھنے کا موقع ملا، یہ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب سے پہلا ذہنی رابطہ تھا۔ پھر اسی عرصے میں ان کی کتاب ’غزواتِ نبوی کی اقتصادی جہات‘ انڈیا سے شائع ہوئی اور ہم تک پہنچ گئی۔ اس نے تو صاحبِ تحریر کے علم کا اسیر کردیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، ڈاکٹر صاحب کے سحر سے راقم باہر نہیں آسکا۔
سترہ اٹھارہ برس قبل ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب ’مکی اسوۂ نبوی‘ شائع ہوئی۔ وہ خاصے کی چیز تھی۔ ڈاکٹر صاحب سے باوجود کہ کوئی رسم و راہ نہیں تھی مگر صرف خط کتابت کے ذریعے آپ نے نہ صرف اس کا ایک نسخہ دستخط کے ساتھ عطا فرمایا بلکہ اس کی پاکستان میں اشاعت کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ اور ہم نے ’القلم‘ کے تحت اس کی اشاعت کی۔ بعد میں ایک مؤقر ادارے سے اس کا ایک غیر اجازتی ایڈیشن بھی شائع ہوا اور مسلسل شائع ہورہا ہے۔
ہم نے اپنے ادارے ’دارالعلم والتحقیق‘ میں ڈاکٹر صاحب کے متعدد محاضرات منعقد کرائے۔ ان میں خاص طور پر مولانا سید زوار حسین یادگاری خطبات بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے کے انہوں نے سات خطبات ارشاد فرمائے، جن میں ایک خطبہ مسلسل تین روز جاری رہا۔ یہ تمام خطبات جلد ’خطباتِ کراچی‘ کی سیریز کے تحت شائع ہوںگے، ان شاء اللہ۔ ریجنل دعوۃ سینٹر کراچی میں بھی آپ کے متعدد لیکچر ہوئے، اس طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگوئوں کے ذریعے یہاں پاکستان میں بھی اپنے معتقدین کا حلقہ پیدا کیا، جو آج بھی ان کی خدمات سے استفادہ کررہا ہے۔
آپ کی ذہنی بیداری اور برجستگی صرف علمی معاملات تک محدود نہیں تھی، بلکہ مزاح اور لطائف کے مواقع پر بھی آپ اتنی ہی برجستگی کا مظاہرہ کرتے۔ اگر آپ کے بیان کردہ لطائف ہی نوٹ کرلیے جاتے تو ایک دفتر تیار ہوسکتا تھا۔ ایک بار فرمانے لگے کہ ہمارے استاد مولانا عبدالحفیظ بلیادی صاحبِ مصباح اللغات نے فرمایا کہ مولوی یاسین جب کسی دعوت پر جاتا ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کیوں حضرت، کیا کھایا نہیں جاتا؟ بولے: نہیں، کھاتا تو خوب ہوں، بلکہ معمول سے زیادہ کھالیتا ہوں، افسوس تو اُس پر ہوتا ہے جو بچ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں آپ کے نشاناتِ قدم پر چلنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔