اپنے عہد کا عظیم شاعر ڈاکٹر راحت اندوری

۔11 اگست 2020ء اردو شائقین ِ سخن کے لیے بہت الم ناک اور اندوہناک تھا، جب اردو کے عظیم شاعر ڈاکڑ راحت اندوری اپنے لاکھوں اورکروڑوں مداحوں کو چھوڑ کر اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ وہ اردو کے ہر دل عزیز شاعر تھے، اپنے منفرد لہجے میں اپنے اشعار میں بڑے بڑے حکمرانوں اور شاہوں کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آتے تھے۔ وہ اپنی بات احتجاج کے اشعار میں بلا کم و کاست بیان کرنے میں قدرت رکھتے تھے۔ ان کی معرکہ آرا نظم ’’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘ دہلی کے لال قلعے میں منعقدہ ایک مشاعرے میں بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی کی موجودگی میں پڑھی گئی تو وہ تلملا کر رہ گئے۔ اس نظم کو پورے ہندوستان اور دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی۔ بھارتی حکومت نے ان کی اس جرأتِ رندانہ پر تعدیبی کارروائی کے طور پر ان کے لیے لال قلعے کے دروازے بند کردیے۔ اس طرح وہ بھارتی حکمرانوں کے لیے ہمیشہ دردِ سر بنے رہے۔ جب بھارت کی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے رہنمائوں نے بھارت کے سیاسی ماحول کو مکدر کردیا اور امن اور آشتی کی فضائوں میں زہر گھولنا شروع کیا تو ڈاکٹر راحت اندوری نے اس پر اپنا شدید ردعمل دیتے ہوئے بڑے جنوں خیز انداز میں یہ اشعار پڑھنے شروع کردیے:۔

سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

ان کی شاعری میں احتجاج کی جھلک بہت نمایاں ہے، وہ سماجی رویوں کو ہدف بناتے تھے جس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں برملا کرتے، اور اپنا مافی الضمیر بلا کم و کاست بیان کردیا کرتے تھے۔ وہ سحر انگیز شاعر تھے، انھیں اپنا کلام نہایت ہی سلیقے اور قرینے سے پیش کرنے کا ڈھنگ آتا تھا، جسے وہ بڑے اسٹائلش انداز میں پیش کیا کرتے تھے۔ وہ محفل ِ مشاعرہ میں سامعین، حاضرین اور شائقینِ سخن سے مخاطب ہوکر کہتے ’’بھائی میرے اشعار کو سمجھنے کی کوشش مت کیجیے، بس شعر سنیے اور لطف لیجیے، بس یہ سمجھیے کہ یہ شعر راحت اندوری نے کہا ہے تو اچھا ہوگا‘‘۔ جب ان کے کہے ہوئے کسی شعر پر داد نہ ملتی تو شائقینِِ مشاعرہ سے مخاطب ہوکر کہتے ’’میں نے ابھی جو شعر پڑھا ہے وہ بہت اچھا ہے‘‘۔ اس طرح وہ اپنی ان ادائوںسے مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے، جیسے کہ ان کا یہ شعر ہے: ۔

بن کے حادثہ بازار میں آ جائے گا
جو نہیں ہوگا وہ اخبار میں آجائے گا

انھوں نے فلموں کے لیے بھی گیت نگاری کی ہے۔ مشہور فلم ’’منا بھائی‘‘ کے لیے ان کے لکھے ہوئے گیت بہت مقبول ہوئے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے علم سے فلم تک ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جوکبھی بھلائے نہیں بھولتے۔ وہ بہت ہنرمند شاعر تھے، اور غزل کی تاریخ کا جب بھی ذکر آئے گا ڈاکٹر راحت اندوری اردو غزل کے حوالے سے نہایت ہی معتبر مانے جائیں گے۔ ان کی شاعری کا دائرہ پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔
منور رعناکا شمار ہندوستان کے صفِ اول کے شاعروں میں ہوتا ہے، وہ راحت اندوری کے ہم عصر شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
راحت اندوری کی ان سے برسوں سے قرابت داری ہے، وہ راحت اندوری کے لڑکپن سے انھیں جانتے ہیں۔ منوررعنا راحت اندوری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’راحت نے اپنی زندگی کے دن بڑی عسرت میں گزارے ہیں، وہ سائیکل پر اپنے ذریعہ معاش کے لیے اندور کی سڑکوں پر سرگرداں رہتا تھا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ دور بھی دیکھا ہے جب راحت اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے ٹرکوں پر اپنے اشعار پینٹ کیا کرتے تھے۔ انھوں نے محنت مشقت کرکے اپنی تعلیم مکمل کی، انھوں نے انٹرمیڈیٹ کے بعد گریجویشن کیا اور پھر ایم اے اردوکرکے تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ انھوں نے برکت اللہ یونیورسٹی مدھیہ پردیش سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ وہ یونیورسٹی میں تقریباً پندرہ سال اردو غزل پڑھاتے رہے، جس کی وجہ سے اردو غزل کے مایہ ناز شاعر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے دو شادیاںکیں، ایک بیوی کا نام انجم ہے جو شاعرہ بھی ہیں، اور دوسری بیوی کا نام رہبر ہے۔