سیاست میں اختلافِ رائے حیاتِ سیاست ہے۔ مخالف رائے کو تباہ کرنے کی آرزو کرنے والا دور عارضی رہتا ہے۔ جو زمانہ تاریخ میں داخل نہ ہو، وہ چاہے کتنا طویل ہو، عارضی ہوتا ہے۔ ہر انسان کو رائے دینے کا حق ہے، رائے رکھنے کا حق ہے، زندگی گزارنے کا حق ہے۔ ہمارا مخالف ہی تو ہمارا ثبوت ہے، اور وہی ہماری تقویت بھی۔ اپنے اپنے مدار میں گردشیں کرنے والے لامحدود ستارے آسمانوں کی رونقیں ہیں۔ اسی طرح کثرتِ رائے زندگی کی رونق ہے۔ جس طرح ہم اپنی رائے کو معتبر سمجھتے ہیں، اسی طرح دوسرا انسان بھی اپنی رائے کو معتبر اور مستند سمجھتا ہے۔ اپنا احترام مقصود ہو، تو اختلافِ رائے کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ اگر میں رات کو آفتاب دیکھتا ہوں، تو مجھے اُس شخص کا بھی احترام کرنا چاہیے جو دن کو تارے دیکھتا ہے… ہر چند کہ دونوں باتیں بظاہر ناممکن ہیں۔
ہم اپنی خوش فہمی کو آگہی کہتے ہیں اور دوسروں کی آگہی کو غلط فہمی… تعجب ہے۔ یومِ حساب سے پہلے ہم ایک دوسرے کی عاقبت خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم خود کو جنت کا مکین سمجھتے ہیں اور دوسروں کو دوذخ کا ایندھن… حالانکہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔
ہم خود کو اہم بلکہ بہت ہی اہم سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے خیالات میں خود کو وی آئی پی سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری کم ظرفی ہے۔ سیاست میں ہم اپنی جماعت کو محبِ وطن سمجھتے ہیں اور دوسری جماعتوں کو غدار۔ اپنی رائے پر مغرور ہونے والے انسان صحتِ رائے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان پر اصلاح کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ انسان ہیں۔ خطا و نسیان، ظلم و جہالت کے پتلے!!
اختلاف کا احترام کرنا چاہیے۔ مخالف کی اصلاح محبت سے کی جائے، مروت سے کی جائے۔ مخالفت شعور میں نکھار پیدا کرتی ہے… بادِ مخالف بلند پروازی کا زینہ ہے۔ اختلاف ہی بے قراری پیدا کرتا ہے۔ اختلاف کے دم سے زندگی جمود سے نکل کر تحریک بنتی ہے۔ حرکت زندگی ہے، جمود موت۔ اختلاف انقلاب و ارتقا کا ذریعہ ہے۔
عظیم انسان اختلاف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی کا وسیع تر اختلاف زندگی کا حسن ہے، اور خالق نے زندگی کو اختلاف کے زیور سے مزین فرما کر اسے حسن بخشا ہے۔ ایک گھر میں پیدا ہونے والے اور ایک چھت کے نیچے پرورش پانے والے ایک اندازِ فکر نہیں رکھتے۔ ایک دسترخوان پر پلنے والے ایک جیسا ذائقہ نہیں رکھ سکتے۔ دنیا کی طرف رجوع کرنے والے اور آخرت پر نگاہ رکھنے والے الگ الگ رہیں گے۔ بھلا سونے والے اور جاگنے والے کیسے برابر ہوسکتے ہیں! ساری دنیا فوج نہیں بن سکتی کہ ایک ہی وردی میں ملبوس ہو۔ دنیا میں لباس الگ الگ رہے گا، مزاج الگ الگ ہوگا، رنگ الگ الگ ہوگا، عقیدے مختلف رہیں گے۔ دریا ہمیشہ رواں رہیں گے اور کنارے ساکن ہوں گے۔ پہاڑ بلند رہیں گے اور میدان کشادہ… کنجوس کا دل تنگ رہے گا اور سخی کی پیشانی کشادہ۔ ہمارے عقائد، ہمارے تخیلات اور ہمارے رجحانات ہمارے ملبوس کی طرح الگ الگ رہیں گے۔ ان ملبوسات کے اندر ہمارا وجود، حقیقی وجود… وجود واحد بے رنگ ہے، اس لیے ہم رنگ ہے۔ انسان انسان سے غیر نہیں، لیکن فکر اور عقیدہ الگ الگ…!!۔
ہر آنکھ میں آنسو یکساں ہیں، ہر دل کی دھڑکن ایک ہے، ہر ماں کی ممتا ایک۔ ہر مسافر ایک ہی سفر پر ہے اور تمام مسافر ہم سفر ہیں۔ ہر اثاثہ راہ میں لٹے گا۔ ہر آرزو ناتمام ہے۔ ہر آغاز ایک سے انجام پر ختم ہوگا۔ رنگا رنگ جلوے، ہمہ رنگ نظارے حسنِ اختلاف کے دم سے ہیں، اور یہ اختلاف اُس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک بے رنگ کا جلوہ نظر نہ آئے۔ بے رنگ روشنی کے سب رنگ ہیں۔ سات رنگوں کے جلوے دراصل سفید رنگ کے دلفریب روپ ہیں۔ کثرت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آتی، جب تک وحدت اشنائی نہ ہو۔ اور وحدت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آتی، جب تک کثرت شناسی نہ ہو۔ اختلاف حجاب ہے، اور یہ حجاب اُس وقت اٹھتا ہے جب اختلافات پیدا فرمانے والے کا فضل شاملِ حال ہو، نہیں تو نہیں۔
(دل دریا سمندر)
بیادِ مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔