اقوام متحدہ میں بھارت کی ایک اور ہزیمت

پاکستان کے منصوبہ سازوں کو جان لینا چاہیے کہ کشمیر کو اسپین اور فلسطین کی طرح سقوط سے بچانا ہے تو اس کے لیے مناسب وقت یہی ہے

کشمیر کے حوالے سے گزشتہ ایک برس کی بیلنس شیٹ مرتب کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مجموعی طور پر تو ہمیں کچھ کامیابیاں ملی ہیں مگر عملی طور پر تیزی سے بدلتی ہوئی زمینی صورتِ حال ہمارے لیے قطعی حوصلہ افزا نہیں۔
اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو عالمی ادارے کے ایجنڈے سے خارج کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں ’’بھارت اور پاکستان کے سوالات‘‘ کے ایجنڈا آئٹم کے تحت مسئلہ کشمیرکو مستقبل میں سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بھارت کے اس مطالبے کے جواب میں ایک رکن نے کہا کہ کوئی ریاست یک طرفہ طور پر اقوام متحدہ کا ایجنڈا تبدیل نہیں کرسکتی، صرف پندرہ رکنی کونسل کے اتفاقِ رائے سے ہی ایجنڈا تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ کوئی آئٹم ایجنڈے سے صرف اسی صورت میں ہٹایا جاتا ہے جب مسئلہ حل ہوجائے یا سلامتی کونسل کے اراکین متفقہ طور پر اس بات کا فیصلہ کریں۔
رواں ماہ کے اواخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس نیویارک میں منعقد ہورہا ہے، اور بھارت کو یہ خوف ہے کہ پاکستان گزشتہ برس کی طرح اِس بار بھی مسئلہ کشمیر کو شد ومد کے ساتھ اُٹھائے گا۔گزشتہ برس عوامی جمہوریہ چین تین بار سلامتی کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر اُٹھا چکا ہے۔ بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے انضمام کے فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر کی نوعیت بدل گئی ہے، اور اب اسے زیر بحث لانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
بھارت ہمیشہ سے اس کوشش میں رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے خارج کیا جائے، مگر اسے کبھی کامیابی نہیں ملی۔ اب بھی بھارت کی یہی کوشش تھی کہ اِس بار مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے نکال دیا جائے۔ خود بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوچکا ہے مگر وہ اپنی خواہش کو اقوام متحدہ پر مسلط کرنے کی یک طرفہ کوشش کررہا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ بھارت نے کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کیا، کشمیریوں کیِ خودارادیت کے جائز حق سے انکار کرتا رہا، مسئلہ کشمیر اُس وقت تک سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود رہے گا جب تک کہ کشمیری عوام کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت مسلمہ حقِ خودارادیت حاصل نہیں ہوتا۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت کی ہزیمت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ دنیا نے بدترین حالات میں بھی بھارت کی یک طرفہ اور من گھڑت کہانی کو من وعن تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایوانوں میں بھارت کے لیے مجموعی طور پر موافق فضا ہے کیونکہ اقوام متحدہ پر امریکہ کا اثر رسوخ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے، اور امریکہ اس وقت بھارت کا حامی اورموید ہے۔ اس کے باوجود سلامتی کونسل میں بھارت کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ کے مؤقف کو کوئی بھی تسلیم نہیں کررہا، اور مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ جنرل اسمبلی کے آمدہ اجلاس میں پاکستان کو پوری قوت کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ پیش کرکے اٹوٹ انگ کے فلسفے کی دھجیاں بکھیر دینی چاہئیں۔ بھارت کے خلاف جب تک ایک جارحانہ سفارتی مہم شروع نہیں ہوتی، اُس وقت تک وہ دفاعی پوزیشن میں نہیں جائے گا، کیونکہ تاریخی تنازعے کی نوعیت بدلنے کی کوشش سے حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔ بھارتی حکومت نے بارہ لاکھ غیر کشمیری باشندوں کو ڈومیسائل جاری کردئیے ہیں۔ ان میں دو لاکھ اسّی ہزار ڈومیسائل کشمیر ڈویژن، اور نو لاکھ پینتالیس ہزار جموں ڈویژن میں جاری کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے تین لاکھ افراد کو ڈومیسائل جاری کیے گئے تھے جن میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔ پاکستان اور اوآئی سی نے غیر کشمیری باشندوں کو ڈومیسائل کے اجراء کی مذمت کی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اب یوں لگتا ہے کہ بھارت 73 برس بعد اپنے اس حتمی مقصد کے قریب پہنچ گیا ہے جس کے لیے اتنے عرصے سے خاموش کوششیں جاری تھیں۔ وہ مقصد مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرکے اس کا تشخص مکمل طور پر بدلنا تھا۔ یہ روایتی سامراجی منصوبہ ہے اور دنیا میں بہت سے مقامات پر غاصب اور ظالم قوتوں نے یہ حربہ استعمال کرکے زمینی حقائق کو تبدیل کیا ہے۔ بھارت نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ وادی کشمیر کے مسلمان اسلامی تہذیب و ثقافت پر نہ صرف نازاں ہیں بلکہ وہ اپنے تاریخی ورثے کے ساتھ پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے کشمیری مسلمانوں کی اس سوچ اور رویّے کا واحد علاج یہی ہے کہ کشمیر کی زمینی حقیقت اور مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کردیا جائے۔ جب آبادی کا تناسب تبدیل ہوگا تو کشمیر کی پہچان اسلامی کے بجائے ہندو تہذیب قرار پائے گی، کیونکہ ثقافت اور شناخت کا تعلق لمحۂ موجود اور آبادی کے اس وقت کے تناسب سے ہوتا ہے۔ کشمیر میں کسی دور میں ہندوئوں کی اکثریت رہی ہے مگر آج اس ریاست کی پہچان مسلمان اور اسلام ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اسی طرح خدانخواستہ کل اگر آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی کوشش کامیاب ہوئی، تو ریاست کی شناخت ہندو تہذیب ہوکر رہ جائے گی۔ یہ وہ مقصد تھا جس کی جانب بھارت نے ماضی میں مرحلہ وار اور قدم بقدم پیش رفت کی، اور پانچ اگست(2019) کو مودی نے آخری چھلانگ لگا کر اس منزل تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اب بھارت اس منزل پرپہنچ گیا ہے جہاں وہ کشمیر کے قوانین کو بدل کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ یہ بھارتی انتہا پسندوں کا وہ خواب ہے جو وہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کے ساتھ ہی دیکھتے چلے آئے تھے۔ اس خواب کی تعبیر کی تلاش میں بھارت نے 73 برس بہت آہستہ روی سے سفر جاری رکھا۔ اب بھارت کو اس خواب کی تعبیر مل گئی ہے اور وہ بہت تیز رفتاری کے ساتھ کشمیر کے اسلامی تشخص کو ہندو شناخت میں بدل رہا ہے۔ اس کی پہلی شرط آبادی کے تناسب کی تبدیلی ہے۔ لاکھوں ہندوئوں کا ایک قانون کے ذریعے راتوں رات کشمیر کا شہری قرار پانا پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اب کشمیر کے فلسطین بن جانے کا انجام سامنے نظر آرہا ہے۔ اس انجام کے نتیجے میں کشمیریوں کا دربدر ہونا اور اس کے بعد خود پاکستان کی باری لگنا بھی بھارت کا حتمی مقصد ہے۔
مہا بھارت کا مقصد کشمیر کی انڈینائزیشن سے پورا نہیں ہوتا بلکہ اس مکروہ منصوبے کی تکمیل پاکستان کو شامل کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے کشمیری عوام نے حقیقت میں پاکستان کی جنگ لڑی ہے اور اب تک لڑ رہے ہیں۔ بھارت کے عزائم کو اس مقام پر روکا نہ گیا تو یہ عفریت کسی طور پر قابو نہیں آئے گا۔ پاکستان کے منصوبہ سازوں کو جان لینا چاہیے کہ بھارت نے ان کے لیے آپشن بہت محدود کردئیے ہیں۔ اب وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ کشمیر کو اسپین اور فلسطین کی طرح سقوط سے بچانا ہے تو اس کے لیے مناسب وقت یہی ہے۔ دیر ہوگئی تو کفِ افسوس مَلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔