ذرائع ابلاغ سماجی تربیت یا بربادی کا سبب
موٹر وے رنگ روڈ لنک روڈ پر 9 ستمبر کی شب قوم کی ایک بیٹی کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا، اسے نوکِ زبان پر لانے کی ہمت ہے نہ قلم ہی اس کی تفصیل لکھنے پر آمادہ ہے، تاہم ہمارے ذرائع ابلاغ خصوصاً برقی ذرائع ابلاغ صبح سے شام تک اس قدر تفصیل سے اس واقعہ اور اس سے متعلقہ دیگر واقعات و امور کی جزئیات بیان کرنے میں مصروف ہیں کہ جو منہ میں آتا ہے کہے چلے جا رہے ہیں اور انہیں روکنے یا سمجھانے والا بھی کوئی نہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کی بات میں خاصا وزن محسوس ہوتا ہے جو اس سانحے اور آئے روز ہونے والے اسی طرح کے اَن گنت دیگر واقعات کی ذمہ داری ابلاغیات کے انہی اداروں پر عائد کرتے ہیں کہ یہاں سے نشر ہونے والے مختلف پروگرام ڈرامے، گانے اور مباحث معاشرے کو بے راہ روی کی اندھی پگڈنڈی پر بگٹٹ دوڑائے لیے جا رہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ موٹر وے زیادتی کیس اور اس طرح کے دیگر ناقابلِ تصور واقعات ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان پروگراموں میں ماں باپ، بیٹا بیٹی، بہن بھائی اور میاں بیوی جیسے تمام مقدس رشتوں کے تقدس کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے، ہمسائے جو ماں باپ جائے کہلاتے تھے، ان کے اس تعلق کا احترام بھی ناپید ہورہا ہے، محرم اور نامحرم کے فرق کو کلیتاً ختم کردیا گیا ہے، جرائم کی بیخ کنی میں معاون و مددگار ہونے کے بجائے اس کے نت نئے طریقوں سے منفی ذہنیت کے حامل افراد کو روشناس کرایا جاتا ہے۔ یوں ہمارے یہ ذرائع ابلاغ جس انداز میں نئی نسل کی تربیت کررہے ہیں اس کے بعد معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح اور موٹر وے پر رونما ہونے والے سانحے جیسے واقعات کا تسلسل کیا ہماری اس تربیت کا فطری ردعمل نہیں؟ اور اس جلتی پر تیل کا کام سماجی ذرائع ابلاغ کررہے ہیں جنہیں مکمل طور پر بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت کے متعلقہ ادارے تاحال ان کے لیے کسی ضابطۂ اخلاق اور اس کے نفاذ کے کسی مؤثر طریقِ کار کا تعین تک نہیں کرسکے۔ یوں جس کا جس طرح دل چاہتا ہے ان کو استعمال کررہا ہے اور اپنے اپنے اچھے برے مقاصد ان کے ذریعے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کی کیا کوئی ذمہ داری نہیں؟
سانحہ موٹر وے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے کسی نیک جذبے کے تحت نہیں بلکہ خالصتاً بغضِ معاویہ میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس میں تحریک انصاف کی حکومت کے گزشتہ دو برس کے دوران ہونے والے خواتین و بچوں سے زیادتی کے واقعات کے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل خود نواز لیگ کے دورِ اقتدار کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی موجودہ حالات سے کوئی مختلف تصویر پیش نہیں کرتے، کہ قصور اور چونیاں میں بڑی تعداد میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا اسکینڈل اُسی دور میں سامنے آیا تھا۔ بہرحال نواز لیگ پنجاب کی ترجمان رکن اسمبلی محترمہ عظمیٰ بخاری نے اس ضمن میں جو وائٹ پیپر جاری کیا ہے اس کے مطابق: ’’جنوری 2019ء سے دسمبر تک پنجاب میں 1125 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 2019ء میں لاہور میں 123 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ سال 2020ء جنوری تا جون کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب میں رپورٹ ہوئی۔ پنجاب میں کُل 853 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے، اسی عرصے میں اسلام آباد میں 35 بچے، خیبر پختون خوا میں 91 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔ سال 2020ء جنوری تا جون کے دوران 1340 واقعات پولیس اسٹیشن میں رپورٹ ہوئے، جب کہ 7 واقعات رپورٹ نہ ہوئے، اور 7 ہی واقعات پولیس نے رپورٹ نہ کیے۔ 2019ء میں پنجاب بھر میں خواتین سے زیادتی کے 3 ہزار 387 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی عرصے میں غیرت کے نام پر 149 خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا، جب کہ تیزاب پھینکنے کے 36 واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔‘‘
محترمہ عظمیٰ بخاری نے تو دو سال کی رپورٹ جاری کی ہے، لیکن ہم صرف ایک دن کے اخبار کی خبریں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور منگل 15 ستمبر 2020ء کے شمارے میں آخری صفحے پر دو کالم میں ایک خبر شائع کی گئی ہے جس سے آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حالات کس قدر بگاڑ سے دوچار ہیں اور صورتِ حال کتنی گمبھیر ہوچکی ہے۔ نوائے وقت کی اس خبر میں ملک کے مختلف حصوں سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حافظ آباد کے علاقے پپلی میں اسٹاپ پر کھڑی خاتون کو ملزم شہباز لفٹ دینے کے بہانے چکمہ دے کر لے گیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ جھارانوالہ میں تیرہ سالہ لڑکے سے زیادتی کا مقدمہ علی اور شمریز کے خلاف درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا، فیصل آباد میں دو افراد نے بیمار والدہ کی دوائی لینے کے بہانے لڑکی کو بلا کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ متاثرہ لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ اس کی والدہ شوگر کی مریضہ ہیں، اسے فون کرکے ملزمان نے کہا کہ انہوں نے بیرون ملک سے شوگر کے مرض کے علاج کی دوائی منگوائی ہے، وہ یہ دوائی لے جائے۔ جڑانوالہ پولیس کے مطابق دونوں ملزموں زبیر اور اصغر نے لڑکی سے اجتماعی زیادتی کی۔ سمبڑیال میں سات سالہ حافظ قرآن بچے سے زیادتی کی گئی۔ جڑانوالہ کے جاوید ساکن 33 گ ب نے درخواست میں کہا کہ عظمت نے اس کے 10 سالہ بھتیجے کو باہر گلی میں کھیلتے ہوئے اپنے گھر لے جا کر زبردستی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ پولیس نے دو مقدمات درج کرلیے۔ گوجرہ کے محلہ سردار کالونی کے رہائشی حسن رضا ولد رفیق اور حسنین نے محلہ طفیل کالونی کے بوٹا مسیح کی بیٹی کو اُس وقت زبردستی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا جب وہ اپنے گھر میں سو رہی تھی۔ سٹی پولیس نے ملزموں حسن اور حسنین کو گرفتار کرلیا۔ سٹی پولیس کے اہلکار سرکاری گاڑی پر دونوں ملزمان کو ریمانڈ کے لیے لے کر جا رہے تھے کہ دونوں ہتھکڑیوں سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ صرف ایک اخبار میں ایک روز میں محض پنجاب کے بعض علاقوں میں ہونے والے سنگین جرائم کی ایک تصویر ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں اس قسم کے کتنے جرائم ہوئے اور پنجاب میں بھی کتنے ہی ایسے واقعات ہوں گے جن کی رپورٹ بچوں کے والدین یا اہلِ خانہ نے اپنی بدنامی کے خوف یا دیگر وجوہ سے درج کرانے سے گریز کیا ہوگا… اس کے باوجود جو کچھ رپورٹ ہوا، کیا وہی ہمارے معاشرے کے چہرے کی کالک اور حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے کافی نہیں! مگر کیا کسی صاحبِ اختیار و اقتدار نے سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی ہے؟
سانحہ موٹر وے کے بعد طرح طرح کی باتیں مختلف جانب سے سامنے آرہی ہیں، ایک درفنطنی خود وزیراعظم عمران خاں نے چھوڑی ہے کہ اس طرح کے جرائم میں ملوث مجرموں کو مردانہ صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ حالانکہ آئین و قانون میں اس کی کوئی گنجائش ہے، نہ ہی یہ مرض کا مؤثر علاج۔ اس کا نہایت شافی علاج وہی ہے جو قرآن و سنت میں تجویز کیا گیا ہے کہ غیر شادی شدہ مجرم ہو تو بھری مجلس میں سو کوڑے مارے جائیں اور شادی شدہ ہوکر اس جرم کا ارتکاب کرے تو لوگوں کی موجودگی میں لوگوں کے پتھروں سے سنگسار کردیا جائے۔ اسی کی ایک ذرا مختلف صورت وہ بھی ہے جو آج کل مختلف سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے پیش کی جا رہی ہے کہ سرِعام پھانسی دے کر لاش چوراہے پر لٹکا دی جائے۔ اس ضمن میں ایک عملی مثال دورِ حاضر میں جنرل ضیاء الحق دور میں لاہور میں پپو نامی بچے کے قاتلوں کو سرِعام پھانسی دینے کی موجود ہے، جس کے بعد طویل عرصے تک اس قسم کا جرم دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ تاہم بہترین صورت وہی ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اسے اختیار کرکے ہم نہ صرف دنیا میں ایسے سنگین جرائم سے معاشرے کو پاک کرسکتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ہم آئین میں کیے ہوئے اس عہد کو بھی پورا کریں گے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔
نہایت افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ سانحہ موٹر وے پر سب سے زیادہ شور مچانے والے بعض ارکان مجرموں کو عبرت ناک سزا دینے کی کھل کر مخالفت بھی کررہے ہیں، اس ضمن میں پیپلز پارٹی بحیثیت جماعت سخت یا عبرت ناک یا قرآن و سنت کے مطابق سزا کی ڈٹ کر مخالفت کررہی ہے، اور اس کے ارکانِ پارلیمنٹ نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کھل کر سرِ عام پھانسی دیئے جانے کی مخالفت کی ہے، جب کہ حکمران پارٹی میں اس ضمن میں واضح تقسیم سامنے آگئی ہے، وزیراعظم اور بعض دیگر وزراء اور قائدین ایک جانب انتہائی سخت اور عبرت ناک سزا کی بات کررہے ہیں تو فواد چودھری اور شیریں مزاری جیسے لوگ پوری ڈھٹائی سے اپنے وزیراعظم کی مخالفت میں بول رہے ہیں۔ گویا انہیں معاشرے سے سنگین جرائم کے خاتمے سے زیادہ اپنے بین الاقوامی آقائوں کی خوشنودی مطلوب ہے جو پاکستان پر پھانسی اور موت کی سزا کے خاتمے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔