سانحہ موٹر وے… حکومت کا امتحان
پاکستان تحریک انصاف کو مرکز اور پنجاب میں حکومت بنائے دو سال ہوچکے ہیں، مگر ابھی تک وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف بطور حکمران جماعت بیوروکریسی اور پولیس کے نظام کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپائی۔ وزارتِ عظمیٰ کا منصب ملنے سے قبل عمران خان ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ پولیس اور بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ ادارے کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اب سیالکوٹ موٹروے کیس حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے اور اس میں بہت سے سوالات بھی ہیں۔ ایسے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ ہر کیس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدعی مضبوط ہے تو کیس بھی آگے بڑھتا رہا، مدعی کمزور ہوا تو کیس بھی غائب۔ اس کیس میں حکومت جان بوجھ کر حقائق بیان نہیں کررہی، اور یہ سی سی پی او لاہور کے بیان کے ملبے تلے دب چکی ہے۔ یہ کیس جرم تو ہے، مگر سیاست سے بھی خالی نہیں رہا۔ حکومت کے لیے اس کیس سے باہر نکلنا بہت مشکل بن گیا کہ متاثرہ خاتون بیرونِ ملک رہتی ہیں، اور وہ سی سی پی او کے معافی والے بیان کو مسترد کرچکی ہیں، یوں یہ کیس حکومت کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ صوبہ پنجاب کے انتظامی نظام کا اپنا ایک کلچر ہے، اور ہر حکومت پولیس کے ذریعے صوبائی حکومت کا نظام چلاتی رہی ہے۔ ماضی میں بھٹو دور سے لے کر آج تک، پنجاب میں ہر حکومت پولیس پر انحصار کرتی رہی۔ ماضی میں پنجاب پولیس میں فضل حق (اردو کالم نگار ہیں اور بھٹو دور میں پنجاب میں آئی جی پولیس رہے ہیں)، جہاں زیب برکی، نثار احمد چیمہ، سردار محمد چودھری، حاجی حبیب الرحمٰن، خالد فاروق، ضیاء الحسن جیسے آفیسر رہے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں بہت نام کمایا۔ انہیں اگرچہ سیاسی سرپرستی ملی، تاہم وہ انتظامی امور سے خوب واقف بھی تھے۔ پنجاب میں غلام مصطفیٰ کھر دور میں پولیس نے ہڑتال کی تو انہیں ڈیوٹی پر واپس آنے کے لیے گھنٹوں پر محیط بہت مختصر سی مہلت دی گئی اور اعلان ہوا کہ جو مہلت کے وقت میں واپس آگیا وہ ڈیوٹی پر رہے گا، باقی خود کو ملازمت سے برطرف سمجھیں۔ گورنر کھر کی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی پنجاب پولیس ہڑتال ختم کرکے ڈیوٹی پر واپس پہنچ گئی تھی، لیکن بعد میں کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا، تاہم پولیس نظام حکومت کے لیے ایک ایسی بنیاد بن گیا کہ کوئی بھی حکومت اس کے بغیر چل نہیں سکی۔
تحریک انصاف کی قیادت تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی مگر وہ بے بس نظر آتی ہے، اور پنجاب میں بار بار پولیس افسران کی تبدیلی کے باوجود صورت حال سے مطمئن نہیں ہے۔ کسی بھی صوبے میں آئی جی پولیس کی تعیناتی اگرچہ مرکز کی جانب سے ہوتی ہے، مگر صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر مرکز فیصلہ نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین سیاسی کشمکش عروج پر تھی، اُس دور میں وزیراعلیٰ لاہور آنے پر وزیراعظم کا استقبال نہیں کرتا تھا، اُس دور میں مرکز اور سندھ، اور پنجاب میں آئی جی پولیس کی تعیناتی کا معاملہ ہمیشہ متنازع رہا، درجنوں آئی جی پولیس تبدیل ہوئے اور تعینات ہوئے، لیکن اِس وقت تو پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف حکومت میں ہے، اور پنجاب حکومت مرکزی حکومت کی بہترین دستِ راست ہے، اس کے باوجود دو سال میں پانچ آئی جی پولیس کا تبادلہ بہت بڑا سوال ہے۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے پانچویں آئی جی پولیس شعیب دستگیر کو تبدیل کردیا ہے، آئی جی پنجاب کی تبدیلی کے لیے عمر شیخ سی سی پی او لاہور کو ترجیح دی گئی ہے جنہیں وزیراعظم کے ایک مشیر کی سفارش پر لگایا گیا ہے، اور لاہور تعیناتی سے قبل وزیراعظم نے خود انٹرویو کیا ہے۔ وزیراعظم نے اس بارے میں ایک اہم ترین اجلاس بھی طلب کرلیا ہے۔ کابینہ میں وزیراعظم کا ووٹ آئی جی کی تبدیلی کے فیصلے کے حق میں تھا، ان کے نزدیک عمرشیخ سی سی پی او نے کوئی غلطی نہیں۔ اس آشیرباد پر اب مسلم لیگ (ن) کے لیے لاہور میں کوئی سرگرمی کرنا مشکل بن سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شاید مسلم لیگ(ن) کو اشارہ ہوا ہے کہ اگر وہ تبدیلی لاسکتی ہے تو لے آئے، بیوروکریسی اور پولیس اس کی سرگرمی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی، اور نیب کے باہر مسلم لیگ(ن) کا پتھرائو اسی لیے ہوا کہ پولیس نے رکاوٹ نہیں ڈالی، یہ بات وزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹ کی اور اس کا تدارک کرنے کے لیے پنجاب میں فیصلہ کیا گیا ہے۔ آئندہ اب مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں اور قیادت کی جب بھی عدالت میں پیشی ہوگی تو وہ ’’سوچ سمجھ‘‘ کر آئیں گے۔ پولیس افسر عمر شیخ کے بارے میں چونکہ مرکز نے فیصلہ کیا ہے اور صوبائی حکومت نے اس کی توثیق کی ہے، لہٰذا وہ اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔ ان کے خلاف میڈیا مہم کسی خاص مقصد کے لیے چلائی جارہی ہے، ایک خاص گروہ ہے جس نے مہم شروع کی ہے کہ پولیس فورس سیاست زدہ ہورہی ہے۔ یہ کام پنجاب میں آج سے نہیں، برسوں سے ہورہا ہے۔ تحریک انصاف پر اس لیے انگلی اٹھائی جارہی ہے کہ وہ تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی اور وہی کام کرنے لگ گئی ہے جو ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ تبدیلی کے نعرے کے خلاف تنقید کا جواب اپنے عمل سے دیں، مگر وہ اس میں ناکام نظر آرہی ہیں۔ ہوسکتا ہے جن توقعات کی بناء پر حکومت سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی پشت پر کھڑی ہے، کل کلاں اگر عمر شیخ بھی اس توقع پر پورا نہ اترے تو ان کے لیے پھر کیا حکم ہوگا؟ فی الحال تو انہیں ایک ہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کو کنٹرول کرنا ہے، وہ خود اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ ان سے عمران خان نے پوچھا آپ کا اتنا تجربہ ہے، بتائیں پنجاب پولیس کیسے ٹھیک ہوگی؟ پولیس کی پولیسنگ کی جائے کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جو بدانتظامی ہے اس کا فنانشل فائدہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے سامنے نوکری سے ہٹادیے جانے، وضاحت طلب کیے جانے اور شوکاز نوٹسز کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی، اگر کوئی پولیس افسر ایک کرائم پارٹنر کے ساتھ مل کر کوئی غلط کام کرتا ہو تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس کا تو ایک کروڑ روپے کا حصہ ہے، دوکروڑ حصہ ہے، اب اس پر اگر میں اسے نوکری سے ہٹادوں تو وہ کہتا ہے ہٹادو جی، میں تین ماہ بعد پھر بحال ہوجاؤں گا، دوکروڑ تو میرے گھر آگیا۔
عمر شیخ کی یہ بات سو فی صد درست ہے، کیونکہ لاہور میں قبضہ مافیا کو پولیس اور سیاست دانوں کی سرپرستی میسر ہے، نواب ٹائون سے لے کر ٹائون شپ تک قبضہ مافیا کی کہانی پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وائٹ کالر کرائم ہے اور اس کے پیچھے اچھی شہرت کے حامل سیاست دان ہیں، یوں کہہ لیں کہ لاہور قبضہ مافیا کا گڑھ ہے۔ لاہور کے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد عمر شیخ پاکستان پولیس میں ایک اہم کردار ہیں، جو متنازع بھی رہے اور انہیں تنزلی کی سفارش کا بھی سامنا رہا، اور اپنی ترقی کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ قانونی چارہ جوئی بھی کررہے تھے۔ عمر شیخ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ ان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹ ختم کی جائے۔ ان کی درخواست کے جواب میں حکومت نے بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں 4 سالہ تعیناتی کے دوران ان کی کارکردگی جائزہ رپورٹس میں تنزلی کی گئی ہے۔ اپنی درخواست میں عمر شیخ نے چونکا دینے والے انکشافات کیے تھے، حتیٰ کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کے اراکین کی دیانت داری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ سی ایس بی کے اراکین میں انسپکٹر جنرل پولیس شعیب دستگیر بھی شامل تھے جن کا سی سی پی او لاہور سے بغیر مشاورت تعیناتی کے فوراً بعد تبادلہ کردیا گیا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے بااثر اداروں کے ’’منظورِ نظر‘‘ لیکن جونیئر افسر کو گریڈ 21 میں ترقی دینے کے لیے ان پر ترجیح دی حالانکہ وہ افسر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں ایک ملزم اور سانحہ ساہیوال کا ذمہ دار تھا جس میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے ایک جعلی پولیس مقابلے میں ماں باپ اور بیٹی کو قتل کردیا تھا۔ عمر شیخ کی درخواست کے مطابق وہ سینیارٹی لسٹ میں نویں نمبر پر تھے، جبکہ 19 نمبر پر موجود افسر کو ترقی دی گئی اور انہیں ہٹانے کا پورا عمل اس افسر کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کیا گیا۔ سی سی پی او نے الزام عائد کیا کہ جونیئر افسر نے ’بااثر اداروں‘ کی ایما پر کچھ ایسے اقدامات کیے کہ انہیں باری کے بغیر بلاجواز ترقی دی گئی۔ سانحہ ساہیوال کے وقت جو افسر سی ٹی ڈی کی سربراہی کررہے تھے انہیں سروس سے معطل کرنے کے بعد مارچ 2019ء میں ہی عہدے پر بحال کردیا گیا تھا۔ درخواست میں لکھا تھا کہ مذکورہ افسر پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے رہنما میر مرتضیٰ بھٹو کی موت سے متعلق کیس میں بھی ملزم نامزد تھے اور 2009ء میں عدالت سے بری ہوئے تھے۔ سی ایس بی اراکین ان کے لیے بغض رکھتے ہیں اور ان کی ترقی کی مخالفت اس لیے کی کیوں کہ درخواست گزار نے ان کے بہنوئی کو تیل اسمگلنگ اسکینڈل میں مدد نہیں دی۔ اس درخواست پر پٹیشنر، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور دیگر کا مؤقف سننے کے بعد جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے گزشتہ ماہ فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے ان کی مشاورت کے بغیر عمر بن شیخ کا لاہور کے سٹی کیپٹل پولیس افسر (سی سی پی او) تعینات کرنے پر کام کرنے سے انکار اور وزیراعلی پنجاب سے ان کا کسی ’مناسب جگہ‘ پر تبادلہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ تاہم حکومت نے سی سی پی او کو ہٹانے کے بجائے شعیب دستگیر کی جگہ انعام غنی کو اس عہدے کی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں۔ پنجاب پولیس کے پچاس سے زائد افسران نے سبکدوش ہونے والے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے خلاف ’’توہین آمیز ریمارکس‘‘ دینے پر سی سی پی او عمر شیخ کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے تادیبی کارروائی اور فوری تبادلے کا مطالبہ کیا تھا۔ موٹروے پر گینگ ریپ کا شکار خاتون کے حوالے سے متنازع بیان دینے پر بھی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو شدید تنقید کا سامنا ہے جس پر حکومت کی جانب سے انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا جاچکا ہے۔
سانحہ موٹر وے… پولیس کی کارکردگی پر سوالات
سانحہ موٹر وے کے ملزمان کون ہیں۔ گمان یہ ہے کہ اس سانحے کا مرکزی ملزم عابد ملہی پولیس چھاپے کے دوران فرار ہوا۔ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) نے مرکزی ملزم کا ڈی این اے، ڈیٹا بیس میں میچ ہونے کی اطلاع سے تفتیشی ٹیموں کو بے خبر رکھا۔ فرانزک سائنس ایجنسی کے ساتھ سی ٹی ڈی، سی آئی اے، انویسٹی گیشن پولیس، اسپیشل پولیس یونٹ اور حساس ادارے تفتیش کررہے تھے۔ پی ایف ایس اے نے خود نمائی کے لیے نمونے میچ ہونے کی اطلاع وزیراعلیٰ آفس کو دی، جہاں سے آئی جی پنجاب کو آگاہ کیاگیا۔ اس دوران تمام ٹیموں کی سربراہی کرنے والے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شہزادہ سلطان کو بے خبر رکھاگیا۔ آئی جی پنجاب انعام غنی نے ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو سونپ دیا اور یہیں سے معاملہ خراب ہوا۔ جیو فینسنگ کے ذریعے عابد کی موجودگی شیخوپورہ کے گاؤں قلعہ ستار شاہ میں ایک ڈیرے پر ہوئی۔ یہ ڈیرہ کھیتوں میں ویران جگہ بنایا گیا تھا جہاں پر فصلیں کھڑی تھیں۔ سی ٹی ڈی کی ٹیم جی ایس ایم لوکیٹر کی مدد سے جیسے ہی ڈیرے کی حدود میں داخل ہوئی ملزم عابد علی گاڑیوں کو آتا دیکھ کر بیوی کے ساتھ کھیتوں میں فرار ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ انتہائی مطلوب ملزم کی گرفتاری کے لیے متعلقہ پولیس سے علاقے کی ناکہ بندی کیوں نہ کرائی گئی؟ اس کیس میں کام کرنے والی دیگر ٹیموں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ان پر اعتماد کیوں نہیں کیاگیا؟ سی ٹی ڈی نے اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے خود ہی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا اور مؤثر حکمت عملی نہ ہونے پرملزم فرار ہوگئے۔ معاملہ بگڑ جانے پر دوبارہ پہلے والی مشترکہ ٹیموں کو ٹاسک دے دیا گیا ہے۔
اس کیس میں کئی ابہام موجود ہیں، پہلا یہ کہ مدعی مقدمہ کیس سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے ہیں، ایف آئی آر میں درج متاثرہ خاتون کا نام ’ثنا‘ ظاہر کیاگیا، جب کہ میڈیکل رپورٹ میں ان کا نام صبا درج ہے۔ خاتون اور ان کے خاندان کی شناخت چھپانا بے شک معاشرتی مجبوری ہے، لیکن عدالت میں اس طرح کی خامیوں سے مقدمات کے فیصلوں پر اثر پڑتا ہے۔