جماعت اسلامی (حلقہ خواتین) کے تحت موٹر وے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور ملک بھر میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے افسوس ناک واقعات کے خلاف نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔جماعت اسلامی حلقہ خواتین پاکستان کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و سابق ایم این اے عائشہ سید، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سکینہ شاہد، نائب ناظمات شمالی پنجاب نزہت بھٹی، کوثر پروین اور رخسانہ غضنفر، ناظمہ ضلع اسلام آباد نصرت ناہید او سابق ایم این اے بلقیس سیف سمیت سیکڑوں خواتین نے شر کت کی مظاہرے میں شریک خواتین نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر خواتین اوربچیوں کے ساتھ زیادتیوں کے خلاف عبارات درج تھیں۔احتجاجی مظاہرے سے جماعت اسلامی اسلام آباد کے نائب امیر محمد کاشف چودھری اور ڈاکٹر طاہر فاروق نے بھی خطاب کیا عائشہ سید نے موٹروے پر خاتون سے اجتماعی زیادتی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی انہوں نے کہا کہ صنف نازک کے ساتھ درندگی کا یہ افسوسناک مظاہرہ انسانیت کے نام پر سیاہ دھبہ ہے، محفوظ اور پاکیزہ معاشرے کاقیام حکمرانوں کی اولین ذمے داری اور ہماری ضرورت ہے۔ امن وامان کا قیام، چادر و عصمت کاتحفظ اور فوری انصاف کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے، جس میں کوتاہی اور لاپروائی سے اس طرح کے بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تو بڑی شاہراہوں پر بھی خواتین کی عزت محفوظ نہیں رہی، امن و امان اور سلامتی و تحفظ کے ذمے دار ادارے کہاں ہیں؟ملک میں جنگل کا قانون اور بھیڑیوں کا راج ہے۔ بچوں اور بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں اگر ان جنسی درندوں کو بروقت نشان عبرت بنایا جاتا تو زیادتی کے واقعات کو بڑھنے سے روکا جاسکتا تھا، جنسی درندگی کرنے والے کو قرآن و سنت کے مطابق سزائیں دی جائے۔ معاشرے میں تیزی سے بڑھتا جنسی تشدد، جرائم، لاقانونیت قانون فافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیںجماعت اسلامی خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پورے ملک میں بچے، بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے مجرموں سمیت موٹر وے کے حالیہ واقعے اورکراچی میں 5سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اورقتل کرنے والے مجرموں کوکیفرکردار تک پہنچایا جائے، بچوں اور بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی وقتل کے مجرموں کوقانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے بِلاتاخیر سرِ عام پھانسی دی جائے، آئین ِ پاکستان کے آرٹیکل 35 کے مطابق شادی، خاندان،ماں اور بچے کی حفاظت کے حوالے سے ریاست اپنی ذمے داری پوری کرے، آئین کے آرٹیکل 37(g) کے مطابق حکومت عصمت فروشی، قمار بازی، ضرررساں ادویات کے استعمال، فحش لٹریچر اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت اور نمائش کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ملک میں حیا کا کلچر عام کیا جائے، ان گھنائونے اوراندوہناک واقعات کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں کے ساتھ روابط کے ذریعے پورے ملک میں ایسے اداروں، افراد کا سراغ لگائے جو فحاشی اور برائی پھیلارہے ہیں، فحش مواد اور فحاشی و عریانی کو فروغ دے رہے ہیں۔ میڈیا پر ہیجان پھیلانے کے بجائے اسلامی اقدار کو فروغ دیا جائے، بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں رہا شدہ مجرموں کا نام ای سی ایل میں ڈالاجائے اور اصل مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے کیسز کو ری اوپن کیا جائے، گزشتہ چند سال کے دوران بہت بڑی تعداد میں قوم کی بیٹیاں اور معصوم بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے اوربہیمانہ طریقے سے ان کی زندگیوں کا خاتمہ کیا گیا لیکن افسوس کہ حکومتیں اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ مجرموں کو شک کی بنیاد پر ریلیف دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی وارداتوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، کراچی کی مروہ، پشاور کی گل پانڑہ اور گجر پورہ میں موٹر وے پر خاتون کے ساتھ حالیہ زیادتی کااندوہناک واقعہ، یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے مقررین نے کہا کہ لاہور میں 2020ء کے پہلے 2 ماہ میں ہی زیادتی کے73 واقعات رپورٹ ہوئے اور رپورٹ نہ ہونے والے واقعات کی تعداد الگ ہے یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے، جو کہ معاشرے اور حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ خواتین کی عفت و عصمت کے تحفظ کو لا حق خطرات اور اس سر عام درندگی کے خلاف جماعت اسلامی حلقہ خواتین ملک بھر میں ہر فورم پر آواز اٹھائے گی معاشرے میں خواتین اور بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے جرائم اور مظالم کو روکنے کے لیے وہ تمام عوامل جو اس قسم کے واقعات کو پیدا کرنے کا سبب ہیں ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے حکومت اور میڈیا کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری عملی اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جبکہ تعلیمی اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا تربیتی نظام مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔