افغان بحران ، چیلنج و امکانات

دوحہ مذاکرات کو ایک بڑے سیاسی ’’بریک تھرو‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے

دوحہ میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا دور بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ ماضی میں دونوں فریق کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ بداعتمادی پائی جاتی تھی اور کوئی بھی فریق دوسرے کے وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ان مذاکرات کو افغان بحران کے حل میں ایک بڑے سیاسی ’’بریک تھرو‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اگرچہ یہ بحران کے حل کی ابتدا ہے، اور اس سے فوری طور پر بحران نہ تو حل ہونے والا ہے اور نہ ہی کسی جادوئی سیاست کا امکان ہے۔ افغان بحران ایک بڑا ہی پیچیدہ مسئلہ ہے، اور اس کے حل کے لیے جہاں ایک بڑی سیاسی مفاہمت درکار ہے وہیں ایک دوسرے کے سیاسی وجود کی قبولیت اور کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کا راستہ بھی تلاش کرنا اہمیت رکھتا ہے۔
دوحہ مذاکرات کی میز یا دربار کو سجانے کا ایک بڑا سہرا پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو بھی جاتا ہے۔ افغان طالبان کا اس طرح سیاسی میز پر افغان حکومت کے ساتھ بیٹھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس میز کو سجانے اور افغان طالبان کو راضی کرنے میں خود پاکستان کی سیاسی اور بالخصوص فوجی قیادت کی بڑی کوششیں شامل ہیں جو کئی برس سے جاری تھیں۔ پاکستان نے کئی بار امریکہ اور افغان حکومت کو باور کروایا تھا کہ افغان طالبان ہماری ڈکٹیشن پر نہیں چل سکتے، وہ اپنا ایجنڈا بھی رکھتے ہیں، اس لیے اس فکری مغالطے سے باہر نکلنا ہوگا کہ ہم افغان طالبان کے سیاسی و انتظامی فیصلوں پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ تھی کہ امریکہ سمیت بڑی طاقتوں نے یہ بات تسلیم کرلی تھی کہ اگر افغان طالبان کا امریکہ اور افغان حکومت سے مفاہمت کا راستہ نکل سکتا ہے تو اس کی سیاسی کلید پاکستان کے پاس ہے، اور وہی درمیانی راستہ نکال سکتا ہے۔
پاکستان نے افغان عمل کے لیے چار نکاتی لائحہ عمل دیا ہے:
(1) دونوں فریق ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں، کھلے و کشادہ دل سے بات چیت کو آگے بڑھائیں، فیصلہ سازی کی طرف بڑھیں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دیں۔
(2) یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان مذاکرات کے فیصلے افغانستان کے سیاسی مستقبل کا تعین کریں گے۔
(3) افغانستان کی تعمیرنو کے لیے معاشی روابط قائم کرنا ہوں گے، اور مہاجرین کی واپسی کا منصوبہ بنانا ہوگا۔
(4) ہمیں اُن تمام شرپسندوں پر نظر رکھنی ہوگی جو افغان امن عمل کو ناکام بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ امن عمل کی حمایت جاری رکھے، اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان کے لوگ دوبارہ پُرتشدد دور کا سامنا نہ کریں۔ اسی طرح نہ ہی افغانستان کی سرزمین ایسے عناصر استعمال کرسکیں جو اس کی سرحدوں کے باہر دوسروں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے دوحہ میں اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ امریکہ خودمختار، متحد، جمہوری اور پُرامن افغانستان کی حمایت کرتا ہے، افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام کا فیصلہ بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے، اور پُرامن جمہوری اقتدار کی منتقلی ہماری بنیادی ترجیح ہے، ہم افغان طالبان سے یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ مستقبل میں القاعدہ سمیت کسی بھی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ یا تنظیم کی حمایت یا میزبانی نہیں کریں گے۔ اسی طرح نہ ہی ان دہشت گرد تنظیموں کو تربیت دینے، بھرتی کرنے یا فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔ اس کانفرنس میں بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ افغانستان کی خودمختاری اور جغرافیائی سطح پر سرحدوں کی حفاظت سمیت جمہوریت، انسانی حقوق، عورتوں، اقلیتوں کے حقوق کی پاس داری ہونی چاہیے۔ پاکستان کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ خود بھارت کا مجموعی کردار افغان بحران کے حل میں ماضی میں مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور ان مسائل کا براہِ راست اثر پاکستان کی اپنی داخلی سلامتی پر بھی پڑتا تھا۔ خاص طور پر افغان اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان کے مفاد کے خلاف تھا اور اس عمل نے پاکستان کو مشکلات سے بھی دوچار کیا۔
اگرچہ عبداللہ عبداللہ نے افغان طالبان سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا، لیکن افغان طالبان قیادت یا ملا عبدالغنی برادر نے فوری طور پر اس پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ دوحہ کانفرنس میں پاکستان کی طرف سے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق، امریکی مندوب زلمے خلیل زاد، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی، سابق افغان صدر حامد کرزئی، یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل، نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژیس اشٹولٹن برگ، جاپان کے سفیر مستوداکوئی نوری نے بھی افغان امن عمل کے لیے جاری بات چیت میں حصہ لیا۔
پاکستان کے لیے افغان بحران کا حل بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا فائدہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کو ہوگا۔ اسی طرح اہم بات یہ ہے کہ دنیا نے بھی اس پورے عمل میں پاکستان کے سیاسی اور فوجی کردار کو تسلیم کیا۔ ماضی میں عالمی طاقتوں نے پاکستان کو باہر نکال کر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی، اور جب بھی کوئی کوشش پاکستان نے کی تو اسے کئی حوالوں سے ناکام کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان اور جنرل قمر باجوہ بہت عرصے سے افغان بحران کے حل کو فوجی عینک کے بجائے سیاسی عینک کی مدد سے دیکھنے پر زور دے رہے تھے۔ پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی شکل ہمیں ان مذاکرات کی صورت میں دیکھنے کو ملی ہے۔ اس لیے اب ایک بڑا کردار خود افغان فریقین اور امریکہ سمیت عالمی برادری کو ادا کرنا ہے۔ خاص طور پر مذاکرات اگر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو بھی عالمی برادری کی حمایت کا موجود ہونا افغان ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ماضی میں جو غلطی امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے کی تھی، وہ دوبارہ نہیں دہرانی چاہیے۔
افغان حکومت اور افغان قیادت کو بھی اپنے ذاتی مسائل سے اوپر اٹھ کر افغانستان کے اپنے مفاد، یا عوام کے مفاد کے تناظر میں اپنی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔ خاص طور پر جنگ بندی کے حوالے سے دونوں فریق کو ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا۔کیونکہ اگر یہ مذاکرات کسی مفاہمت یا افغان امن کی طرف نہیں بڑھتے تو اس کا نتیجہ شدید سیاسی بدامنی کی صورت میں سامنے آئے گا جو سب فریقوں کے مفاد کے خلاف ہوگا۔ کیونکہ اگر افغان سیکورٹی فورسز پر طالبان کے حملے جاری رہتے ہیں تو اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہوگا کہ عالمی برادری کی حمایت سے طالبان محروم ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ افغان مفاہمت کا مطلب کسی کی جیت یا کسی کی ہار نہیں ہے، اور سب فریقوں کو ایک دوسرے کے لیے سیاسی لچک اور قبولیت پیدا کرنا ہوگی۔ افغان حکومت بھی بہت کمزور ہے، ایسے میں وہ افغان طالبان سے ایسا معاہدہ چاہتی ہے جس سے اُس کی اپنی سیاسی ساکھ بھی متاثر نہ ہو۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان کے بحران کا حل ایک بڑے سیاسی تصفیے سے جڑا ہوا ہے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سب ایک دوسرے کے لیے سیاسی لچک یا قبولیت پیدا کریں گے۔