المیہ یہ ہے کہ حکمران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر بھی سردار پیدا کرکے برادریوں کو تقسیم کرکے علاقوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں
ہمارے ہاں اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی قبائلی اور سرداری نظام نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔ اس حوالے سے معروف کالم نگار نثار کھوکھر نے بروز ہفتہ 12 ستمبر 2020ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کے ادارتی صفحے پر مذکورہ بالاعنوان سے مؤثر خامہ فرسائی کی ہے۔ کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
……٭٭٭……
’’ابھی گھوٹکی کے مہروں کے مابین سرداری پگ (دستار) پر شروع ہونے والے اختلافات ختم نہیں ہوپائے ہیں کہ جیکب آباد کے پنہور کزنز کے درمیان سرداری دستار پر باہم مدمقابل ہونے کی خبریں سامنے آنے لگی ہیں۔ حال ہی میں سرداری پگوں پر منظرعام پر آنے والے اختلافات میں عوامی دلچسپی دیکھ کر مجھے یہ لگتا ہے کہ سندھی سماج صرف ٹک ٹاک کی ویڈیو اور فیس بک کی جعلی آئی ڈیز پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کی حد تک تو ڈیجیٹل دور میں ضرور داخل ہوا ہے، لیکن اپنے اصلی جوہر میں ابھی تک اس بدبودار جاگیردارانہ نظام کے اندر جکڑا ہوا ہے جس سے دنیا کے دیگر معاشرے کئی صدیوں پیشتر ہی اپنی گلوخلاصی کروا چکے ہیں۔ سندھی معاشرے کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے، اس پر سوشل سائنس دانوں کو باہم مل بیٹھ کر اس جاگیردارانہ روش کے حوالے سے چھان بین کرنی چاہیے اور مکمل جائزہ لینا چاہیے۔ کروڑوں کی کرپشن میں ملوث اور ان واقعات کا سامنا کرنے والے بھلا عام پڑھنے والوں کو سماجی تضادات کے بارے میں کیا آگہی دے سکیں گے! ہمارے ہاں کے اسکالرز کی کرپشن کی کہانیوں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ آگے چل کر وہ بھی کسی نہ کسی برادری کے سردار ضرور بن جائیں گے، کیوں کہ اب ہمارے ہاں کا معاشرہ جس نہج پر استوار ہوتا دکھائی دیتا ہے اس میں دولت اور صرف دولت ہی لوگوں کی عزت، احترام اور ذہین ہونے کا فیصلہ کرے گی۔ ویسے بھی روز بروز زوال پذیر ہونے والے ہمارے ہاں کے معاشرے میں اب سردار بن جانا کسی خاندانی پس منظر کا حامل مسئلہ نہیں رہا ہے۔ جس کے پاس جتنی دولت جمع ہے اس کے بل بوتے پر وہ اپنی برادری کی کسی نہ کسی شاخ کا سردار بن سکتا ہے۔ اسی نوع کی لطیفہ نما حقیقی بات ہمارا ایک دوست بتایا کرتا ہے کہ اُس کی برادری کا ایک شخص اچانک امیر کبیر بن گیا، اور یہ امیر یا دولت مند اس طرح سے اچانک بن جانا ہمارے ہاں سندھ میں کوئی مسئلہ بھی نہیں رہا ہے۔ پس اچانک امیر ہوجانے والے مذکورہ شخص نے اپنے قریبی دوستوں، ساتھیوں، ذاتی کم داروں وغیرہ سے صلاح مشورہ کیا کہ مجھے اللہ نے اپنے فضل سے خوب نوازا ہے اور خاصی دولت اکٹھی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے میں بے حد خوشحال ہوگیا ہوں، لیکن اپنے راج (علاقے) میں میرا وہ رعب داب نہیں ہے۔ جس پر اس کے ایک کم دار (کارندے) نے اسے یہ مشورہ دیا کہ اپنی ساری برادری کا اجلاس کرکے خود کو اس میں بہ طور سردار منتخب کرالیں۔ بس پھر کیا تھا، ایک رات علاقے کی برادری کے تمام افراد کو بلایا گیا اور بعینہٖ گوہر پیلس (معمر سرداروں کی حویلی) کی طرح لوگوں کا اجلاس منعقد ہوا۔ سب کو عمدہ کھانا کھلایا گیا۔ اس موقع پر نودولتیے فرد نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم کوئی لاوارث ہرگز نہیں ہیں، ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔ تمام قوموں (برادریوں) کے اپنے اپنے منتخب کردہ سردار ہیں تو کیوں ناں ہماری برادری میں بھی ایک سردار ہو، پھر بھلے سے وہ سردار، لوگ مجھے ہی کیوں ناں منتخب کرلیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اور اس طرح سے مذکورہ نودولتیا شخص اپنے غریب قبیلے یا برادری کا پہلا سردار بن گیا۔
اب تو کئی بھوتار (وڈیرے، سردار) ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کی خاطر یہ بھی کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ابا! سردار بن جانا بالکل آسان ہے جس کے لیے سات وال (گز) بوسکی کے پٹکے (دستار، پگڑی)، پچاس دیگیں بریانی کی اور ایک عدد پینافلیکس ہو تو تم بھی سردار بن سکتے ہو۔ لیکن چند دہائیوں پیشتر کسی بھی برادری کا معتبر رہنما یا سردار بننے کا عمل اتنا آسان نہیں ہوا کرتا تھا۔ سرداروں کی باتیں کرتے ہوئے مجھے مرحوم وڈیرہ شاہنواز جونیجو یاد آرہا ہے جس سے ٹنڈوآدم کے قریب اس کے آبائی گوٹھ سنجر جونیجو میں تفصیلی کچہریاں (ملاقاتیں) ہوئیں۔ نوّے کی دہائی میں ہم نے اخبار کے لیے ایک سلسلہ یوں شروع کیا تھا جس طرح سے آج کل ایک پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ چلتا ہے۔ اس طرح کا انٹرویو کرنے کے لیے میں نے ایک پورا دن وڈیرہ شاہنواز جونیجو کی اوطاق پر گزارا تھا۔ اس نے زمین پر بیٹھ کر لوگوں کے فیصلے کرنے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سرداری مرض سندھ کو بہت خراب لگا ہے۔ اس نے اپنے پلنگ پر سرہانے کے نزدیک پڑی کلاشنکوف ہٹاکر آرام سے وہاں بیٹھتے ہوئے کہاکہ سرداری نظام یا رواج سندھ میں نہیں ہے۔ سندھ میں وڈیرہ لفظ ہے جسے آپ میڈیا والوں نے اتنا خراب اور خجل کرڈالا ہے کہ اب میرے سوا کوئی بھی وڈیرہ کہلوانے کے لیے تیار نہیں۔ اس نے اپنے مخصوص اسٹائل سے اپنی سفید مونچھوں کو بل دیتے ہوئے کہاکہ خدا کی مار پڑے آپ کے ہاں کے اترادی (شمالی علاقہ کے) سرداروں پر، جنہوں نے بلوچستان کی رسمیں سندھ میں لاکر متعارف کروائی ہیں۔ وڈیرہ شاہنواز جونیجو کا کہنا تھا کہ کاروکاری کے فیصلے، سنگ چٹی (جرمانے میں بہ طور سزا کسی خاندان کی بیٹی کا فریقِ مخالف سے بیاہ کردینے کا جابرانہ فیصلہ)، آگ پر حلف اٹھانا، چور کا دورانِ چوری ہلاک ہونے پر اس کا خون بہا مالک سے بھروانے جیسی ساری رسمیں بھلا سندھ کی کہاں ہیں؟ یہ سب رسمیں سندھ میں بلوچستان سے درآمد ہوئی ہیں۔ سندھ میں وڈیرے ہوا کرتے تھے جنہیں بالادست تصور کیا جاتا یا سمجھا جاتا تھا، جو فریقین میں خیر اور عافیت کرانے کی خاطر صلح کرانے کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ جرگے منعقد نہیں ہوا کرتے تھے۔ سرداری نظام میں یہ جرگے دیکھ کر لگتا ہے کہ اب تو نامعلوم ہم کہاں جا پہنچے ہیں۔ اس دوران ہماری اس کچہری میں شامل ہمارے مرحوم دوست اور صحافی صادق ابڑو نے اپنے مخصوص ہنس مکھ انداز میں بات یہ کہہ کر آگے بڑھائی کہ چاچا اب کلر(زمین (خراب ہونا یا بالوں کو رنگنا) اور کنجر کا دور آگیا ہے، اب تو اصل اور بنیادی لوگوں کو کوئی منہ بھی نہیں لگاتا۔ جس پر سارا کمرہ زوردار قہقہوں سے گونج اٹھا۔
موجودہ سندھی معاشرے کا یہ عجیب اتفاق نہیں بلکہ ایک بڑا المیہ ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں بھی ہمارا سماج کسی نہ کسی برادری کا سردار ہونے کو تو ترجیح دیتا ہے لیکن ڈاکٹر ادیب رضوی، نثار احمد صدیقی یا گمس (گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس) کا ڈاکٹر بھٹی (ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی) بننے کے لیے ہمارا بیمار معاشرہ ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ ان کی دستار باندھنا شاید سرداری دستار پہننے سے کہیں مشکل بات ہے۔ اس بدبودار معاشرے میں نہیں لگتا ہے کہ آئندہ آنے والے پچاس برس تک ایسے آئن اسٹائن پیدا ہوں گے یا اسپیس ٹیکنالوجی کے ایسے ماہر، جو دھرتی کے اس بدنصیب گولے (کرۂ ارض) سے لوگوں کو دیگر سیاروں تک پہنچانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوسکیں گے۔ ہمارا معاشرہ روزانہ کی بنیاد پر ناکارہ افراد، ناکارہ اذہان کے ٹرک بھر بھر کر پھینکتا چلا جارہا ہے جو ان سردار زادوں کے بنگلوں پر بیٹھ کر بریانی کی ایک پلیٹ یا آدھا کپ چائے کے آسرے پر یہ فتوے جاری کرتے ہیں کہ سائیں! سرداری پگ فلاں صاحب کا حق ہے، یہ حق اسے ضرور ملنا چاہیے۔ یہ سرداری پگ جس کی انگریز دور میں تو اہمیت ہوا کرتی تھی لیکن اب اس کی کوئی بھی حیثیت یا اہمیت نہیں ہے، قانونی طور پر، لیکن ذہنی غلامی کا ایک سلسلہ ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے اور رکنے کا نام تک نہیں لے رہا۔ انگریز سرکار سرداروں کو کتنی اور کون سی رعایتیں دیا کرتی تھی، ان سرداروں کو ’سر‘ یا ’خان صاحب‘ کے خطاب کس طرح سے ملا کرتے تھے، کس طرح سے انگریزوں کے درباروں میں ان کی کرسیاں لگتی تھیں، یا اگر کسی سردار کی پگ کا وزن کم ہوا کرتا تھا تو اسے کرسی سے نیچے چارپائی پر کس طرح سے بٹھایا جاتا تھا، یہ سب کچھ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے، اس تاریخ کو محض پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ میں انسانی ضمیر ذرہ برابر بھی زندہ ہوگا تو آپ کو اس سارے سرداری نظام سے بالکل اسی طرح سے کراہیت محسوس ہوگی جس طرح سے سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کراہیت آئی تھی اور انہوں نے قانونی طور پر یہ سرداری نظام توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ سرداروں کی تاریخ میں اس بھٹو کو اب بھی یاد رکھا جاتا ہے، جس نے ستّر کی دہائی میں بلوچستان کے خان آف قلات کو کوئٹہ کے جلسہ عام میں سرِعام لوگوں کے سامنے کہا تھا کہ سرداری نظام کے خاتمے کے بعد اب یہ خان آف قلات نہیں بلکہ خادم قلات ہیں۔ لیکن یہاں پر المیہ یہ ہے کہ حکمران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر بھی سردار پیدا کرکے برادریوں کو تقسیم کرکے علاقوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تاریخ کا المیہ نہیں تو اورکیا ہے کہ جس سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور بے زمین ہاریوں کو زمینیں دی تھیں اسی رہنما کی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے لاڑکانہ میں بھٹو قوم کا ایک دوسرا سردار اسی طرح سے سلیکٹ کروایا تھا جس طرح سے خان گڑھ میں اب علی گوہر مہر نے اپنے آپ کو سردار منتخب کروایا ہے۔ اُس وقت بھٹو قبیلے کی سرداری پگ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی مخالف ممتاز علی بھٹو کے پاس تھی، جن کی سرداری رٹ توڑنے کی خاطر محترمہ نے بھٹو خاندان کے ایک کم جانے پہچانے نوجوان واحد بخش بھٹو کو بھٹو قوم کا سردار منتخب کروایا تھا۔
اس سرداری پگ میں ایسی کوئی کشش تو ضرور ہے کہ ہمارے مُردہ سماج میں جب سرداری سسٹم کے بارے میں بات چلتی ہے تو اچھے بھلوں کے منہ میں بھی پانی آجاتا ہے اور ان کے بیمار بدن میں بھی گویا جان سی پڑ جاتی ہے۔ سیاسی بھوتار اور سیاست دانوں کو تو چھوڑیئے، اس سرداری نظام سے تو پڑھے لکھے افراد بھی اتنے زیادہ مرعوب ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک میڈیکل پروفیسر تک نے یہ کوشش کی کہ وہ اپنی برادری کا سردار بن جائے۔ رہے پولیس افسران، تو وہ ریٹائر ہونے کے بعد آٹومیٹک اپنی اپنی برادریوں کے سردار بن جاتے ہیں۔ ایسے پڑھے لکھے افراد کی سردار بننے کی کوششوں کے بارے میں، میں نے ایک مرتبہ ’’دو ڈاکٹر ایک وڈیرہ‘‘ کے زیر عنوان کالم لکھا تھا تو ان بے نام ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر نے مجھے پانچ کروڑ روپے مالیت کا ہرجانے کا نوٹس بذریعہ وکیل بھجوا ڈالا تھا۔ میں نے چھان بین کرنے کے بعد ڈاکٹر موصوف کے ایک پروفیسر دوست کو کہا تھا کہ سائیں! اپنے دوست کو سمجھایئے، اس معاشرے میں کیا پروفیسر ہوکر ریٹائر ہونا اتنا قابلِ فخر کام نہیں ہے کہ وہ خوامخواہ اپنی برادری کی سرداری پگ پہننے کے لیے پریشان ہیں؟ جواباً انہوں نے مجھے انگریزی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نثار صاحب! ہم کسی اصلاح یافتہ یا ترقی یافتہ معاشرے میں نہیں رہ رہے۔ یہ تھیٹر آف ایسرڈ ہے جہاں سابق صدر آصف علی زرداری ملک کے اعلیٰ ترین رتبے یعنی صدرِ مملکت کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد بھی نواب شاہ کے زرداریوں کا سردار بننے کو ترجیح دیتے ہیں، تو وہاں بے چارے پروفیسر کی کیا ذہنی سطح رہ پائی ہوگی۔ اس لیے ریلیکس! یہ تھیٹر سندھی سماج میں ابھی مزید چند دہائیوں تک چلتا رہے گا۔‘‘