قیصر محمود ہم دَم و غم گُسار تھا، نہ رہا

ترجمہ: ابو الحسن اجمیری
قیصر محمود کا انتقال ہوچکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے مگر یقین نہیں آتا، یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے! زندگی بے حد نازک ہے، اس کا تماشا بس یوں ہی، ایک ساعت میں ختم ہوجاتا ہے، مگر حقیقت کا مکمل ادراک ہونے سے قبل میں نے ایک بار پھر خود کو جبلّی طور پر اُس کے انکار پر مائل پایا۔
میں نے قیصر محمود سے اُن کے انتقال سے صرف ایک دن قبل یعنی بدھ (9 ستمبر 2020ء) کو بات کی تھی۔ میں نے اُنہیں کال کی تھی۔ وہ جب لائن پر آئے تو میں اُن کی آواز پہچان نہ سکا۔ وہ بہت مختلف تھی۔ اُن کی آواز میں شکستگی تھی۔ مجھے اپنی شناخت کرانا پڑی اور یہ بھی کہنا پڑا کہ میں قیصر صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر قیصر محمود نے کہا ’’امجد! میں قیصر محمود ہی بات کررہا ہوں‘‘۔ ہم نے چند لمحات ہی گفتگو کی۔ وہ اسپتال میں دوسری بار طویل قیام کے بعد تین دن قبل ہی گھر واپس آئے تھے۔
قیصر صاحب، قیصر بھائی یا صرف قیصر (یہ آزادی وہ بڑے خلوص سے ہم سبھی کو عطا کرچکے تھے) سے میرے تعلق کا آغاز 1990ء میں ہوا جب میں نے نیشنل ڈیسک کے جونیئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے روزنامہ دی نیوز سے وابستگی اختیار کی۔ قیصر محمود دی نیوز کے پہلے بہت ہی کامیاب چیف رپورٹر تھے۔
قیصر محمود نے رسمی نوعیت کے تعلقات کو بہت جلد بالائے طاق رکھتے ہوئے دوستی کی راہ پر گامزن ہونا پسند کیا، اور پھر اس دوستی کو وہ پروان چڑھاتے ہی چلے گئے۔ رپورٹنگ خاصا سنجیدہ اور ذہن پر دباؤ برقرار رکھنے والا کام ہے۔ موضوع کو سمجھنا پڑتا ہے۔ متعلقہ معاملات کے تمام پہلوؤں کی تفہیم بھی لازم ہے۔ موضوع یا معاملات کی حرکیات رپورٹر سے خاصی مہارت کا تقاضا کرتی ہیں، اور یہ سب کچھ کاپی کی ٹائمنگ یعنی ڈیڈلائن سے قبل کرنا ہوتا ہے۔ اُس دور کے نیوز روم اور رپورٹنگ روم میں پُرجوش اور توانا نوجوان بڑی تعداد میں ہوا کرتے تھے جن کے دلوں میں کچھ نہ کچھ کرنے کی تمنا تھی، کچھ نہ کچھ بننا چاہتے تھے۔
ایسے ماحول میں ’’پرانے مکتبِ فکر‘‘ سے قیصر محمود نے انٹری دی اور نئے آنے والوں کو متعلقہ اعداد و شمار اور دیگر تیاریوں کے ساتھ جامع اسٹوری (خبر) لکھنے کی تحریک دی۔ ضرورت پڑنے پر کسی بھی خبر کے پرانے ورژن کو بھی نئے سرے سے پیش کیا جاتا تھا۔ قیصر محمود کی عمدہ کارکردگی نے رپورٹنگ روم کا عمدہ نظم و نسق یقینی بنایا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کے لیے کچھ کدورت تھی نہ کسی کو بے جا طور پر نوازا جاتا تھا۔
قیصر محمود رپورٹرز کو خاص طور پر تاکید کرتے تھے کہ کبھی کسی بھی غیر سنجیدہ سبب سے کسی ایونٹ یا تقریب وغیرہ کی کوریج ترک نہ کریں۔ قیصر محمود کبھی آواز بلند رکھتے تھے نہ غصیلے لہجے میں بات کرتے تھے۔ رپورٹرز کے غصیلے ردعمل کو بھی شائستگی اور احترام کے ساتھ قبول کرتے تھے۔
قیصر محمود ہمارے کام میں رہ جانے والی خامیوں کی نشاندہی کے معاملے میں چُوکتے نہیں تھے، مگر دوسری طرف وہ ادارے کی انتظامیہ سے ہمارے لیے (کنٹریکٹ سے مستقل کرانا ہو یا رپورٹرز کو موٹر سائیکل وغیرہ دلوانی ہوں) بات کرنے میں بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ قیصر محمود صرف دوسروں سے شاندار کارکردگی کی توقع رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے بھی سخت معیارات مقرر کر رکھے تھے۔ جب وہ سٹی ایڈیٹر ہوئے تب اس بات کا خیال رکھا کہ لے آؤٹ اور متن دونوں سے قاری کو اپنائیت کا احساس ہو۔ قیصر محمود کی خبروں کا متن بہت جاندار ہوا کرتا تھا۔ اُن کی خصوصی، تحقیقاتی نوعیت کی خبروں کو صفحۂ اول پر جگہ ملتی تھی۔ وہ سنجیدہ اور اخلاقی معاملات کا خاص خیال رکھنے والے رپورٹر تھے۔ 1970ء کے عشرے کے وسط میں روزنامہ جسارت کے لیے کی جانے والی حاجی چارو اسٹوری (کشتی کا سانحہ) اُن کی شناخت کا حوالہ بنی تھی۔ اُس دور میں لوگوں کو خلیج فارس کے ساحلوں تک لے جانے کے لیے کشتیاں استعمال ہوا کرتی تھی۔ چارو بھی انسانی اسمگلنگ میں ملوث تھا اور اومان کے روٹ پر سرگرم تھا۔ اس نے بڑی تعداد میں کشتی میں لوگوں کو سوار کرایا اور انہیں کئی دن تک کھانا دیا نہ پانی، جس کے نتیجے میں کئی افراد انتقال کرگئے۔ چارو نے انتہائی بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو سمندر میں پھینک دیا۔ بیشتر کا کچھ پتا نہ چلا۔ بعض لاشیں ساحل تک آگئیں تو اس دردناک سانحے کا پتا چلا۔
فی زمانہ کسی بھی رپورٹر کو خبر کی تیاری کے لیے بہت سے ذرائع تک رسائی حاصل ہے۔ اُس دور میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ کسی بھی اسٹوری پر کام کرنے کے لیے رپورٹر کو بہت محنت کرنا پڑتی تھی، جوتیاں گِھسنی پڑتی تھیں۔ قیصر محمود نے اس سانحے کا شکار ہونے والوں، حاجی چارو اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث دیگر افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں خاصی تندہی کا مظاہرہ کیا اور بہت سے سہولت کاروں اور دیگر متعلقین کو بھی بے نقاب کیا۔ مستند معلومات تک اُن کی رسائی تھی اور چند باوثوق ذرائع نے انہیں بالکل درست اور جامع معلومات فراہم کیں۔
1990ء کے عشرے کے وسط میں فوج اور سندھ کی عدلیہ کے درمیان ایک تنازع ابھرا۔ اس معاملے کو نمٹانے کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد نے ایک رکنی ٹربیونل تشکیل دیا۔ ٹربیونل کی سربراہی سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) اختر علی جی قاضی کو سونپی گئی۔ سیاسی تناظر نے قیصر محمود کو مضطرب کردیا، کیونکہ اُن کا یہ خیال تھا کہ کسی خاص جج کا انتخاب اُس کی غیر جانب دارانہ حیثیت کو متاثر کرسکتا ہے۔
تشدد سے بھرے پُرے شہرِ قائد میں قیصر محمود بے باک رپورٹر تھے اور اُنہوں نے اپنی ٹیم میں شامل رپورٹرز میں بھی بے باکی بھردی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ رپورٹرز کو کسی بھی اہم خبر پر کام کرنے کی عادت سی پڑگئی۔ حکومت کی طرف سے ڈالا جانے والا کسی بھی قسم کا دباؤ قیصر محمود کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا تھا کہ اپنے ہی رپورٹرز کی حوصلہ شکنی کریں۔ 1992ء میں ٹنڈو بہاول کا سانحہ رونما ہوا جس میں ایک میجر نے 9 افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر اُنہیں بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کا جاسوس قرار دیا۔ اس میجر کا کورٹ مارشل ہوا جس کے نتیجے میں اُسے سزائے موت سنائی گئی، جبکہ ایک میجر جنرل، دو بریگیڈیئرز اور چھوٹے رینک کے دوسرے متعدد افسران کے کیریئر پٹڑی سے اترگئے۔ یہ پاکستان کو ہلا دینے والا سانحہ تھا۔ قیصر محمود نے حیدرآباد سے (تعلق رکھنے والے) متعلقہ رپورٹر سے کہا کہ وہ اس خبر پر محنت کرکے اصل مجرموں کو بے نقاب کرے۔ جب رپورٹر کی طرف سے چند بنیادی حقائق حاصل ہوگئے تو قیصر محمود نے کاپی خود لکھی یعنی متن تیار کیا اور متعلقہ رپورٹر کو اس کا کریڈٹ بھی دیا، یعنی خبر اُسی کے نام سے شائع ہوئی۔ اس خبر کی اشاعت پر دی نیوز کو بہت کچھ سہنا بھی پڑا، مگر قیصر محمود اور دی نیوز کے ایڈیٹر عمران اسلم کے پائے استقامت میں سرِمُو لغزش نہ آئی۔
قیصر محمود ساتھی صحافیوں کے لیے مجاہد تھے۔ صحافی برادری کے لیے اُن میں ہمدردی اور غم گساری کے جذبات کبھی سرد نہیں پڑے۔ جمعرات کو ایک ساتھی صحافی نے بارش کے دوران لائیو بیپر دینے والے ایک رپورٹر اور کیمرا مین کے بال بال بچنے کے حوالے سے قیصر محمود کے ردِعمل پر مبنی ویڈیو کلپ بھیجا۔ یہ رپورٹر گھٹنوں گھٹنوں پانی میں کھڑا ہوکر بیپر دے رہا تھا کہ بجلی کا تار ٹوٹا اور عین اُس کے سامنے آکر گرا۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ دونوں بچ گئے۔ اس واقعے نے قیصر محمود کو اس قدر مشتعل کیا کہ انہوں نے شدید علالت کے باوجود ایک ویڈیو پیغام تیار کیا جس میں نیوز چینلز کی انتظامیہ اور صحافیوں پر زور دیا کہ وہ انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنے سے متعلق دباؤ پر مزاحمت کریں۔
قیصر محمود کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، چہرے سے کمزوری کا مکمل اظہار، آکسیجن ٹیوب سے بھی دقت سے سانس لینا … یہ سب کچھ دیکھنا انتہائی تکلیف دہ تھا، مگر ایسی حالت میں بھی قیصر محمود اسپتال کے بستر سے ساتھی صحافیوں کو یہی مشورہ دیتے رہے کہ وہ انتہائی خطرناک حالات میں کام کرکے اپنی زندگی داؤ پر نہ لگائیں۔ اللہ کرے کہ آپ ابدی راحت پائیں۔ قیصر محمود! آپ سے شناسائی ایک اعزاز تھی اور آپ کا جدا ہو جانا لامتناہی دُکھ ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز)