المیۂ فلسطین ماضی، حال اور مستقل کے آئینے میں
(پانچواں حصہ)
ناقابلِ تردید
اسرائیلی، امریکی اور برطانوی ملی بھگت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خود اسرائیل نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اس کے پاس تقریباً 125 جنگی ہوائی جہاز ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے فوجی ماہرین کھلم کھلا اس بیان کی تصدیق کرتے رہے ہیں، لیکن 5 جون کو صبح 9 بجے اسرائیل کے ہوائی جہازوں نے مصر کے گیارہ ہوائی اڈوں اور فوجی اہمیت کے دوسرے 9 مقامات پر بیک وقت بمباری کی۔ اسی کے ساتھ شام کے دو اور عراق کے ایک ہوائی اڈے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ اسرائیل نے بیک وقت 23 مقامات پر حملے کیے، ایسے شدید ایک ہی حملے کے لیے کم از کم 24 ہوائی جہازوں کی ضرورت ہوتی ہے، گویا اسرائیل کو پہلے ہی حملے کے لیے کم از کم 552 جنگی ہوائی جہازوں کی ضرورت تھی، اسرائیل کے اپنے بچائو، فوجیوں کی نقل و حرکت اور عام دیکھ بھال کے لیے جو جہاز درکار ہوں گے وہ ان کے علاوہ تھے، یہی نہیں بلکہ مصری ہوائی اڈوں پر چار بار حملے کیے گئے، یہ حملے آدھے آدھے گھنٹے بعد ہوئے۔ گویا پہلے اور چوتھے حملے میں صرف 120 منٹ کا وقفہ تھا۔ اتنے کم عرصے میں حملہ کرنے والے جہاز اسرائیلی ہوائی اڈوں سے تازہ دم ہوکر واپس نہیں آسکتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اوّل تو کچھ ہوائی جہازوں نے قریب ہی کھڑے امریکی طیارہ بردار جہازوں کو اڑانوں کے لیے استعمال کیا ہوگا، لیکن زیادہ تر اڑان ہر ہوائی جہاز نے ایک ہی بار کی۔ گویا پہلے دن کے ہوائی حملوں کے لیے اسرائیل کو کم از کم دو ہزار جنگی ہوائی جہازوں کی ضرورت تھی۔ ان ہوائی حملوں کے علاوہ 5 جون ہی کو اسرائیل نے اردن کے شہری اور فوجی ٹھکانوں پر بھی وسیع پیمانے پر بمباری کی اور صحرائے سینائی میں بھی زبردست طریقے پر اپنی ہوائی فوج کو استعمال کیا۔ ایسے حملوں کے لیے بھی کم از کم تین چار سو ہوائی جہازوں کی ضرورت ضرور ہوگی۔ اگر اس میں اسرائیل کے اپنے دفاع کے لیے استعمال کیے جانے والے ہوائی جہاز بھی شامل کردیئے جائیں تو 5 جون کو اسرائیل کے پاس لگ بھگ 3ہزار ہوائی جہاز موجود ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے سواسو جہازوں کے مقابلے میں اتنی بڑی تعداد میں اُس کے پاس یہ ہوائی جہاز کہاں سے آئے؟ ان کی پرواز کہاں سے ہوئی اور ان کی دیکھ بھال اور ان میں استعمال ہونے والا پیٹرول اور اسلحہ کس نے فراہم کیا؟ اور اسرائیل کے پاس اتنی بڑی تعداد میں اتنے زیادہ پائلٹ، نیوی گیٹر (راستہ دکھانے والا) اور عام دیکھ بھال کرنے والے لوگ کہاں سے آگئے؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک جنگی ہوائی جہاز کو اڑانے، ہوائی اڈے پر اس کی دیکھ بھال کرنے اور اسے مناسب سامان سے لیس کرنے کے لیے اوسطاً کم از کم 25 آدمی درکار ہوتے ہیں۔ اسرائیل نے اتنی بڑی ہوائی فوج کہاں سے حاصل کی؟ جواب صاف ہے کہ اپنے سرپرستوں یعنی امریکہ اور برطانیہ سے۔
منہ میں رام
اسرائیل نے کس طرح مکاری اور عیاری کے ساتھ ساری دنیا کو دھوکا دیا اس کے چند اور ثبوت ملاحظہ ہوں۔ عرب اسرائیل تنائو کے دوران مئی کے آخری ہفتے میں سوویت وزیراعظم الیکسی کوسیجن نے ایک خط میں اسرائیلی وزیراعظم سے اپیل کی تھی کہ وہ کسی جارحانہ قدم سے باز رہیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہم آپ سے اپیل کرتے ہیںکہ آپ پوری کوشش کریں کہ فوجی تنازع کی نوبت نہ آئے کیونکہ اس طرح سے ساری دنیا کے امن پر خاصا برا اثر ہوسکتا ہے، ہمیں امید ہے کہ آپ اس اپیل پر دھیان دیتے ہوئے کسی ایسے قدم سے باز رہیں گے جوکہ متعلقہ اقوام کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ایشکول نے انتہائی عیاری کے ساتھ اس اپیل کا جواب دیا، اس نے لکھا کہ اسرائیل صرف یہی چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کے اصولوں کی تہِ دل کے ساتھ پیروی کرتا رہے، یہ اصول ہیں:
’’سب ہی ملکوں کی علاقائی سالمیت کا احترام، طاقت کے ذریعے سرحدوں میں کسی قسم کی تبدیلی کی مخالفت، برّی اور بحری ناکہ بندیوں سے احتراز، اور دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملوں میں عدم مداخلت‘‘۔
(یروشلم پوسٹ، 5جون 1967ء)
28مئی کو ایشکول نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وزیر خارجہ نے اپنے غیر ملکی دورے کے بعد ہمیں مطلع کیا ہے کہ سب ہی ملک یہ چاہتے ہیں کہ وسط مشرق کی علاقائی سالمیت قائم رہے۔ صدرِ امریکہ اور برطانوی وزیراعظم تو اس سوال پر خاصے سخت بیانات بھی جاری کرچکے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف اسرائیل کی فوجیں جارحانہ حملے کی تیاریاں کررہی تھیں، دوسری طرف اس کے لیڈر امن اور علاقائی سالمیت قائم رکھنے کی دہائی دے رہے تھے، یہاں تک کہ موشے دایان نے بھی جسے چند ہی روز پہلے کابینہ میں شامل کیا گیا تھا، یہی کہاکہ اسے پورا یقین ہے کہ اقوام متحدہ کی کوششوں سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ فوجی نامہ نگاروں سے 3 جون کو بات چیت کرتے ہوئے اس نے زور دیا کہ جھگڑے کو ڈپلومیسی کے پُرامن طریقوں سے ہی حل کرنا چاہیے۔
ایک نامہ نگار نے پوچھا کہ اگر ابھی لڑائی کی نوبت آجائے یا اگر ایک مہینے بعد آپ کو لڑنا پڑے تو کیا آپ جیت سکتے ہیں؟ دایان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہم جیت سکتے ہیں، لیکن مجھے حیرت ہے کہ آپ نے یہ سوال پوچھا ہی کیوں؟ میرا خیال ہے کہ ایک مہینہ تو کیا اگلے دو تین بلکہ چھ مہینوں تک جنگ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
(یروشلم پوسٹ، 5جون 1967ء)
ظاہر ہے کہ عین اسی وقت دایان اپنی فوجوں کو عربوں پر حملہ کرنے کا حکم دے چکا ہوگا۔ یہ بات اب سب ہی جانتے ہیں کہ حملے کے وقت کا فیصلہ اسرائیلی کابینہ نے 36 گھنٹے پہلے کرلیا تھا، واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار برناڈنوستار نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ یہ نامہ نگار جنگ ہوتے وقت تل ابیب میں ہی تھا۔
(واشنگٹن پوسٹ، 16 جون 1967ء)
’’فتح‘‘ کی حقیقت
یہ تھا وہ پس منظر، جبکہ 5جون کی صبح کو جب سلامتی کونسل میں اسرائیلی نمائندہ بار بار یقین دلارہا تھا کہ اس کا ملک کبھی حملہ نہیں کرے گا، تو اسرائیل نے حالیہ تاریخ کے بدترین جارحانہ حملے کا آغاز کرکے متحدہ عرب جمہوریہ، اردن اور شام پر ہوائی حملے شروع کردیئے۔ اس کے ساتھ ہی صحرائے سینائی میں متحدہ عرب جمہوریہ کے خلاف اور یروشلم پر اردن کے خلاف چڑھائی کردی گئی۔ پانچ دن بعد اسرائیل اس بات پر یقیناً خوشیاں منا سکتا تھا کہ اس کا حملہ تقریباً لامثال طور پر کامیاب رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ جنگ کا فیصلہ پہلے ہی دو گھنٹے میں ہوگیا تھا جس کے دوران مصری اور اردنی ہوائی فوج کی کمر ٹوٹ گئی۔ فوجی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صحرائے سینائی جیسے علاقے میں لڑائی کے لیے ہوائی طاقت کو واضح برتری حاصل ہوتی ہے۔ ایسے علاقوں میں چونکہ ہوائی حملوں سے بچائو کی کوئی اوٹ نہیں ہوتی اس لیے زمینی فوج لاکھ کوشش کرے وہ ہوائی حملوں کی تاب نہیں لاسکتی۔
اس جنگ میں اسرائیل کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ تو وہ سیاسی، سفارتی اور فوجی امداد ہی تھی جو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی ازلی ملی بھگت کے طفیل اسرائیلی حملہ آوروں کو ملی۔ اس کا کچھ ذکر ہم کرچکے ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کو جتنی غیر ملکی مدد ملی ہے اس کا فی کس اوسط کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ اسرائیل کو ملنے والی فوجی، غیر فوجی، سرکاری اور غیر سرکاری، غیر ملکی امداد کا روزانہ اوسط اب تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے بیٹھتا ہے۔ یہ امداد اسے امریکہ، برطانیہ، مغربی جرمنی کی سرکاروں اور یورپ کے کئی ملکوں کے یہودی اداروں کی معرفت ملتی ہے۔ خود اسرائیل کو اس کا اعتراف ہے۔ اس کے مقابلے میں عربوں کو اس کا بیسواں حصہ غیر ملکی امداد بھی نہیں ملی۔ اسرائیل کی فوجی کامیابی کا اہم ترین راز یہ مدد ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کی تقریباً 26 لاکھ آبادی میں سے لگ بھگ 40 فی صدی آبادی امریکن اور یورپین نسل کے سفید فام آبادکاروں کی ہے۔ ان لوگوں کی ٹیکنیکل ٹریننگ کا معیار عربوں کے مقابلے میں یوں بھی خاصا بلند ہے، اور پھر جب انہیں غیر ملکی مدد اس قدر دل کھول کر ملی ہو تو پھر ان کی طاقت کا پوچھنا ہی کیا!
اس کے علاوہ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل کو حملے میں پہل کرنے کی سہولت حاصل تھی، اسی سہولت کے سہارے دوسری جنگ عظیم میں ’’چھوٹے سے‘‘ جرمنی نے اتحادیوں کو پانچ سال تک ناکوں چنے چبوائے تھے۔ جو انگریز اور امریکن اس وقت اسرائیل کو شاباشی دیتے پھولے نہیں سماتے وہ شاید بھول گئے ہیں کہ آناً فاناً حملہ کرکے جرمنی اور جاپان نے ان کی کیا گت بنائی تھی۔ اتحادیوں کا ڈنکرک کی بندرگاہ پر جرمنوں کے ہاتھوں، امریکنوں کا پرل ہاربر پر جاپان کے ہوائی حملے سے، اور انگریزوں کا سنگاپور میں جاپان کے سامنے جو حشر ہوا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ تباہ کن تھا جو اسرائیلی حملہ آوروں کے ہاتھوں عربوں کا ہوا۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے تو اپنے سے ساڑھے تین گنا رقبے پر قبضہ کیا ہے، مگر جرمنی تو اپنے سے سو گنا زیادہ اور جاپان ایک سو دس گنا زیادہ رقبے پر دیکھتے ہی دیکھتے قابض ہوگیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے میدانی لڑائی لڑی ہی نہیں۔ اُس نے ہر جگہ پر آگ پھیلانے والے نیپام بموں کا استعمال کیا، جو عالمی قانون کے خلاف تھا۔
عربوں نے مشکلوں کے باوجود جس جی داری کے ساتھ مقابلہ کیا اس کا ثبوت یہی ہے کہ اکیلے یروشلم ہی میں 15 ہزار اردنی سپاہی بیت المقدس کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ہے کہ آخری وقت کی کوششوں کے باوجود مختلف عرب ملکوں میں اچھا فوجی تال میل قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کی تیاری برسوں سے تھی۔ اب تو خیر یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ عرب کوئی جوابی تیاری نہ بھی کرتے تو اسرائیل حملہ ضرور کرتا۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا حملہ آناً فاناً اور بغیر کسی مدد کے نہیں ہوسکتا تھا۔ حیرت انگیز اور شرمناک بات یہ ہے کہ یہ مدد اب بھی جاری ہے۔ اسرائیل کے مغربی سرپرستوں کا اصرار ہے کہ اُس سے عرب مقبوضہ علاقہ خالی کرنے کو نہ کہا جائے، اور اگر اسے خالی کرنا ہی پڑے تو پہلے اسرائیل کی شرطیں مانی جائیں، مثال کے طور پر عرب بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ مان لیں۔ عرب اسرائیل کے وجود کو بھی تسلیم کریں۔ عرب اس بات کی بھی گارنٹی دیں کہ نہر سوئز اور خلیج عقبہ کے استعمال کی اجازت اسرائیل کو ہوگی۔
ظاہر ہے کہ کوئی بھی خوددار اور آزادی پسند ملک ایسی شرطیں نہیں مان سکتا۔ عرب ملک اسی لیے وہی کہہ رہے ہیں جس کی مانگ ہندوستان مسلسل کرتا رہا ہے، یعنی پہلے اسرائیل غصب کیے ہوئے علاقے سے ہٹے اور بعد میں کسی اور سوال پر بات چیت کی جائے۔
پھیلتی ہوئی ’’سرحدیں‘‘
عرب ملکوں پر اسرائیلی حملے کے بعد جو کچھ ہوا وہ اتنی سامنے کی بات ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ برطانیہ اور امریکہ کی پُرزور حوصلہ افزائی کے بغیر اسرائیل کو عالمی رائے عامہ کو پائوں تلے روندنے کی ہمت ہرگز نہ ہوتی۔ برطانیہ اور امریکہ ہی کی بدولت اسرائیل کو موقع ملاکہ وہ جنگ بندی کے بعد بھی شام کے بہت بڑے علاقے پر قابض ہوجائے۔ سلامتی کونسل میں امریکی اور برطانوی نمائندوں نے پوری کوشش کی کہ جنگ بندی کے بعد سلامتی کونسل کا اجلاس تیس گھنٹے تک نہ ہونے پائے۔ اسی دوران اسرائیلی فوجوں نے گیلیلی کی پہاڑیوں سے اترکر شام کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ شام 11جون کی رات ہی کو جنگ بندی قبول کرنے کا اعلان کرچکا تھا، مگر شامی اسرائیلی سرحد پر جنگ بندی کے فیصلے پر 13 جون کی رات تک عمل نہیں کیا گیا۔ یہی صورت جنگ بندی کے بعد کی ان جارحانہ کارروائیوں کی ہے جو اسرائیل نہر سویز کے علاقے کے آس پاس مسلسل کرتا رہا ہے۔ سامراجیوں کی پوری کوشش ہے کہ اسرائیل سویز کے مغربی کنارے کو بھی ہتھیالے۔
امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کو جتنی ڈھٹائی کے ساتھ مدد دی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت سلامتی کونسل کی بحثوں میں ملا۔ امریکی اور برطانوی نمائندوں نے نہ صرف انصاف بلکہ امن کے تقاضوں کے دھجیاں بھی اڑا کر رکھ دیں۔ برطانیہ اور امریکہ ہی کی شرارتوں اور سازشوں کی بدولت سلامتی کونسل مفلوج بن کر رہ گئی۔ یہ لوگ ایسا کوئی ریزولیوشن منظور ہی نہیں ہونے دیتے تھے جو اسرائیل کو مجبور کرتا کہ وہ حالیہ حملے کے دوران ہتھیائے ہوئے عرب علاقوں کو واپس کردے۔
اس کے بعد جون کے آخر میں جب جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تو امریکہ اور برطانیہ کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی کہ یوگوسلاویہ اور ہندوستان کی طرف سے پیش کردہ یہ ریزولیوشن دو تہائی اکثریت سے پاس نہ ہونے پائے۔ اس ریزولیوشن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل 4 جون سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلا جائے اور اس کے بعد متنازع مسئلے طے کیے جائیں۔ اس ریزولیوشن کو اقوام متحدہ کے اراکین کی اکثریت تو حاصل ہوگئی مگر دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی، اس لیے یہ ریزولیوشن اقوام متحدہ کے عملی فیصلے کی حیثیت اختیار کرنے میں ناکام رہا۔ 4 جولائی ہی کو ہنگامی اجلاس نے لاطینی امریکی ملکوں کی طرف سے پیش کیا گیا ریزولیوشن بھی نامنظور کردیا جس میں عرب علاقے خالی کرنے سے پہلے عربوں سے کئی شرطیں منوانے پر زور دیا گیا۔ یہ ریزولیوشن امریکہ ہی کی درپردہ پشت پناہی اور سرگرم رہنمائی کا نتیجہ تھا۔ گو امریکہ اسے پیش کرنے والوں میں شامل نہیں تھا۔
چور بھی، چتر بھی
اس وقت اسرائیل کی جارحیت ہی کی بدولت یو۔این۔او ایک اپاہج ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ اسرائیل نے اپنی توسیع پسند اور عرب دشمن سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اسرائیل کے سامراجی عزائم کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اسرائیل کی ’’سرحد‘‘ مسلسل پھیلتی ہی جارہی ہے، کبھی اسے فلسطین کا 55 فیصدی علاقہ دیا گیا تھا، اس نے 77 فیصدی پر قبضہ کرلیا۔ اب اس کے پاس اس سے بھی چار گنا زیادہ رقبہ ہے۔ اسے بھی وہ خالی کرنا نہیں چاہتا۔ حالیہ جنگ کے بعد اس کی علاقائی بھوک جس طرح سے بڑھی ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے، خود اسرائیلی حکمران بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعتراف کررہے ہیں۔
مثال کے طور پر امریکہ کے ایک مشہور صحافی جوزف السوپ نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور کئی اسرائیلی لیڈروں سے اس نے اسرائیلی حملے کے بعد اسرائیلی سامراج کی توسیع پسندی کی پالیسی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں بات چیت کی۔ اسرائیلی وزیراعظم لیوی ایشکول نے ایک انٹرویو کے دوران اس سے کہا: ’’آپ مجھ سے جو کچھ پوچھ رہے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو جو خطرے درپیش ہیں وہ ہمیں اپنے قومی بچائو کے تقاضوں کو نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بچائو کے نقطہ نظر سے اسرائیل کی سرحد دریائے اردن ہی ہوسکتی ہے۔
(ہیرلڈ ٹریبیون پیرس ایڈیشن، 13 ستمبر 1967ء)
اس سے چند روز پہلے شرم الشیخ پر قابض اسرائیلی سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایشکول نے کہا تھا کہ ’’اسرائیل کو ہر قیمت پر نہر سویز کو ایک سرحد کے طور پر قائم رکھنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر عرب پڑوسیوں سے وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا‘‘۔
(یروشلم پوسٹ ستمبر 1967ء)
اسرائیل کو اقوام متحدہ کا کتنا پاس ہے اور اس کے ایشیائی افریقی اراکین کی کتنی قدر ہے اس کا جواب اسرائیلی وزیر خارجہ اباایبن نے یروشلم پوسٹ کے ایک نمائندے کو انٹرویو کے دوران دیا، بڑی ہیکڑی سے اس نے کہا کہ ’’اگر عالمی ادارے کے 122 اراکین میں سے 121 بھی یہ کہنے لگیں کہ اسرائیل 5 جون سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے تو وہ اس حکم کو ماننے سے انکار کردے گا‘‘۔
السوپ نے مذکورہ بالا مضمون ہی کے دوران لکھا ہے کہ اسرائیلی کبھی یہ کہتے تھے کہ انہیں کوئی نیا علاقہ نہیں چاہیے۔ کچھ ہی دن بعد انہوں نے کہا کہ یروشلم کے سوا وہ کچھ نہیں چاہتے۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اردن کے مغربی کنارے پر تھوڑے بہت ردوبدل کی ضرورت ہے۔ اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آبنائے طیران اور نہر سویز میں جہازرانی کی گارنٹی سے بھی ان کی تسلی نہیں ہوسکتی، اسی لیے وہ اردن اور سویز کو اپنی سرحدیں بنانا چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جتنی تیزی سے سرحدوں کے بارے میں اسرائیل نظریہ بدلتا جارہا ہے اس کی انتہا کہاں پر ہوگی‘‘۔
(ہیرلڈ ٹریبیون، 13 ستمبر 1967ء)
اسی مضمون میں آگے چل کر السوپ نے لکھا ہے کہ ’’اسرائیلی لیڈر اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ تازہ مقبوضہ علاقوں کے دس لاکھ عربوں کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کے علاوہ تین لاکھ عرب پہلے ہی اسرائیل میں ہیں۔ السوپ کا خیال ہے کہ اسرائیل کی بنیاد چونکہ مذہبی تنگ نظری کے بدترین نظریوں پر ہے اس لیے اس کی کوشش ہوگی کہ وہ جلدی سے جلدی ان عربوں کو وہاں سے نکال دے‘‘۔
اسرائیلی ماہرینِ اقتصادیات نے ابھی سے اس کے لیے میدان تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ اسرائیل کے اعداد و شمار کے ادارے کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اگر تمام عرب آبادی اسرائیل ہی کے قبضے میں رہی تو اگلے دس برسوں میں سارے اسرائیل میں عربوں کی اکثریت ہوجائے گی، کیونکہ عربوں میں شرح پیدائش یہودیوں کے مقابلے میں تقریباً ڈیوڑھی ہے۔ اس وقت عرب آبادی کا تناسب 40 فیصدی ہوگیا ہے اور اس بات کی کوئی امید نظر نہیں آتی کہ نئے امریکی اور یورپین یہودی آبادکار اتنی بڑی تعداد میں آئیں گے کہ اس خطرے کا ازالہ ہوسکے‘‘۔
(ہیرلڈ ٹریبیون 9 ستمبر 1967ء)
موشے دایان کو عربوں کو دبائے رکھنے کا مسئلہ خاصا آسان بھی معلوم ہوتا ہے اور سیدھا بھی۔ السوپ سے اس نے ایک بات چیت کے دوران کہاکہ ’’ان علاقوں پر قابو رکھنا ہمارے لیے قطعاً مشکل نہیں ہے۔ ہمیں اس کی پروا نہیں ہے کہ عرب آبادی ہمارے ساتھ تعاون کرتی ہے یا نہیں۔ میں مقبوضہ علاقے کے عربوں کو ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہمیں انگریزوں کی طرح نہ سمجھنا۔ انگریزوں کو جن قانونی نزاکتوں کی فکر رہتی تھی، ان کی ہم قطعاً پروا نہیں کرتے۔ وہ جتنا چاہیں احتجاج کرلیں، اپنی دکانیں بند کرلیں اور اسکول بند رکھیں، ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا‘‘۔ السوپ نے پوچھا کہ ’’کیا اس طرح سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوسکے گا؟‘‘ دایان نے جواب دیا ’’نہیں۔ مگر اس کے بغیر ہمارا عظیم مقصد یعنی امن کا قیام پورا بھی نہیں ہوسکتا‘‘۔
(ہیرلڈ ٹریبیون 13 ستمبر 1967ء)
نئی جارحیت
اسرائیلی حکمرانوں نے اپنے شیطانی منصوبے پر عمل بھی شروع کردیا ہے۔ تل ابیب ہی سے 24 ستمبر کو رائٹر اور دوسرے غیر ملکی نامہ نگاروں نے سرکاری حوالوں سے یہ خبر دی تھی کہ اسرائیلیوں نے شام اور اردن سے ہتھیائے ہوئے عرب علاقوں کی نئی ’’سرحدوں‘‘ کے ساتھ یہودی بستیاں بسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ان علاقوں کو کسی قیمت پر خالی کرنا نہیں چاہتا، وہ ان پر اسی طرح قابض رہنا چاہتا ہے جس طرح کہ اس نے 1948ء میں اپنے قیام کے بعد ایلات کی بندرگاہ اور ایسے کئی عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا جو اقوام متحدہ کے ریزولیوشن کے مطابق عربوں کو دیئے گئے تھے۔ غزہ کی پٹی میں بھی یہودیوں نے آبادکاری شروع کردی ہے، یہ آبادیاں دراصل فوجی قلعہ بندیاں ہوتی ہیں جن کا بڑا مقصد یہ ہے کہ وہاں پر مستقل طور پر دہشت پسند یہودی آبادکار بیٹھے رہیں تاکہ عربوں کو اپنے حقوق واپس لینے کی ہمت کبھی نہ ہو۔ اس فیصلے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اب اسرائیل یہ کہہ سکے گا کہ ان علاقوں کو خالی کرنے کا مطلب ہزاروں بلکہ لاکھوں یہودیوں کو تباہ و برباد کرنا ہوگا اور یہ کام وہ کبھی نہیں کرسکتا۔
عین اسی قسم کے ’’مشینی فارم‘‘ اور ’’کوآپریٹو بستیاں‘‘ اسرائیل حالیہ لڑائی سے پہلے شام اور اردن کے ایسے کئی علاقوں میں قائم کرچکا تھا جو 1949ء کے جنگ بندی کے معاہدوں کے مطابق یا تو غیر فوجی علاقے قرار دیئے گئے تھے اور ان پر کسی بھی فریق کا اختیار تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور انہیں اسی لیے کھلا چھوڑا گیا تھا کہ مخالف فوجوں کے درمیان مناسب فاصلہ رہے، مگر اسرائیل نے وہاں پر نیم فوجی بستیاں بسا کر باقاعدہ قلعہ بندیاں کرلیں، اقوام متحدہ کے مبصروں کے بار بار احتجاج کے باوجود انہیں اپنے ’’ملک‘‘ کا حصہ قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کیے گئے جنگ بندی کمیشن کے فوجی مبصروں کے ایک سابق اعلیٰ کمانڈر جنرل (کارل وان ہارن) نے اپنی کتاب امن کا سپاہی (Soldiering For Peace) میں لکھا ہے کہ اسرائیلیوں کا عام قاعدہ ہے کہ وہ پہلے کسی سرحدی علاقے میں محض معمولی اور غیر فوجی قسم کی کوئی سرگرمی شروع کرتے ہیں، پھر وہاں پر کاشت شروع کرتے ہیں اور پھر اس کے گرد فوجی قلعہ بندی کرکے اسے اپنے ملک کا حصہ قرار دے دیتے ہیں‘‘ (صفحہ 276)۔ عین یہی حربے اسرائیل اپنے تازہ ہتھیائے ہوئے علاقوں میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس فیصلے کا ایک تیسرا پہلو یہ ہے کہ ان علاقوں میں کوئی بھی زمین بنجر اور غیر آباد نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کے باعث ان عربوں کو بہ نوکِ سنگین عین اسی طرح اپنے گھر بار سے باہر نکال کر رفیوجی بنایا جائے گا جس طرح کہ دس لاکھ عربوں کو 1948ء میں بنایا گیا تھا۔
عربوں کو ان کے پرانے گھر بار سے نکالنے کی ناپاک مہم کا آغاز اسرائیلی حملہ آوروں نے بیت المقدس یروشلم ہی سے کیا تھا، یروشلم پر اسرائیلی قبضے کے بعد اس تمام راستے میں آنے والے مکانات بارود سے اڑا دیئے گئے جو یہودیوں کے مقدس مقام دیوار گریہ اور اسرائیلی مقبوضہ نئے یروشلم کے درمیان حائل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ علاقہ خاصا گنجان آباد تھا اور اسے ’’صاف‘‘ کرتے وقت سینکڑوں عربوں کو بے گھر بار ہونا پڑا ہوگا۔ یروشلم میں اسرائیلی سفاکی کی سب سے شرمناک مثال وہ حملہ ہے جو انہوں نے ہند سرکار کی مدد سے قائم ہندوستانی سرائے پر کیا۔ مسجد اقصیٰ کے قریب واقع اس سرائے میں کبھی دنیا بھر سے ہر مذہب کے ماننے والے آکر ٹھیرتے تھے۔ اسرائیلی توپوں نے نہ صرف اس سرائے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، بلکہ اسے چلانے والے ایک ہندوستانی شہری جناب اے۔آر۔ صدیقی کے خاندان کے تین افراد ان کے والد، رفیقۂ حیات اور ہمشیرہ کو بھی اپنی درندگی کا شکار بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
امریکی اخباروں میں آئے دن یہ خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ یہودی یروشلم کے مقدس مقامات کو پکنک سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ مسجد اقصیٰ کے صحن کے اندر اسرائیلی سپاہیوں نے شراب تک پینے کے علاوہ اور بھی کئی بدتمیزیاں کیں جس پر مظلوم عربوں اور ان کے درمیان خاصا جھگڑا ہوگیا۔ اخبار اسٹیٹسمین کے نمائندے جی۔ ایچ جینسن نے اسرائیلی قبضے کے بعد یروشلم کا دورہ کرنے کے بعد اپنے اخبار کی 29 جون کی اشاعت میں لکھا ہے کہ ’’یہودی یروشلم کے مقدس مقامات پر عبادت یا تعظیم کے خیال سے نہیں آتے بلکہ یہودی مذہب کے تمام احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوجوان عورتیں اور مرد یوں خرمستیاں کرتے رہتے ہیں جیسے وہ کسی عجوبے کو دیکھنے تفریح پر آئے ہوں‘‘۔ یہ ہے ’’مقدس یہودی مقامات‘‘ کے لیے اسرائیلی آہ و زاری کا اصلی روپ‘‘۔
(جاری ہے)