امریکہ میں عورت کی تاریخ

امریکہ کے ابتدائی دور میں، جن غلام عورتوں سے ناجائز اولادیں پیدا ہوتی تھیں، انھیں عدالتوں میں بھی گھسیٹا جاتا تھا، جبکہ گورے آقاؤں سے کوئی بازپرس نہ ہوتی تھی۔ ایسی ہی ایک عورت، جس کا تعلق نیو انگلینڈ سے تھا، پانچویں بار ناجائز بچے کی ماں بننے پر سزاوار قرار دی گئی، اُس نے عدالت سے کچھ کہنے کی استدعا کی، جسے منظور کیا گیا، اُس نے عرض کیا: ’’میں ایک غریب ہوں، ناخوش عورت ہوں، جس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ کوئی وکیل کرسکے اور مقدمے کی پیروی کرسکے۔ یہ پانچویں بار ہے معزز حضرات، کہ مجھے ایک ہی الزام پرکٹہرے میں لاکھڑا کیا گیا ہے، دو بار مجھے بھاری جرمانے بھرنے پڑے تھے، اور دو مرتبہ جرمانے نہ بھرنے پر سرِعام ذلیل کیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے ان اقدامات سے کوئی قانونی ضرورت پوری ہوتی ہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم جب کچھ قوانین واضح طور پر نامعقول ہوتے ہیں، انھیں ختم کردیا جاتا ہے، یوں بہت سارے لوگوں کو اس تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔ میں یہاں یہ کہنے کی آزادی چاہتی ہوں کہ جس قانون کے تحت مجھے بار بار سزا دی گئی، یہ نامعقول ہے، اور انتہائی سخت ہے۔ قانون سے قطع نظر، میں اس سزا کی فطرت سمجھنے سے قاصر ہوں… (کہ جس میں امریکی آقا جنسی استحصال کا نشانہ بنائے اور ناجائز اولاد کی بازپُرس بھی اُس عورت سے کی جائے جو محض شکاری کا ’شکار‘ ہو‘‘۔ مترجم)
ایک بیسٹ سیلنگ جیبی کتاب، جو اُن دنوں لندن سے شائع ہوئی اور امریکی نوآبادیوں میں بہت زیادہ پڑھی گئی۔ یہ 1700ء کی دہائی کا زمانہ تھا۔ کتاب کا عنوان تھا Advice to a Daughter (ایک بیٹی کے لیے مشورہ)۔ یہ کہتی تھی: ’’تمھیں لازماً معاشرے کی بنیاد سازی کے لیے خود کو پیش کردینا چاہیے، جنسوں میں عدم مساوات ہے، اور یہ دنیا کی بہتر معیشت کے لیے ضروری ہے۔ مرد، جو قانون تشکیل دیتے ہیں، اُن کا ذہانت میں بڑا حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ساری ذمے داریوں کے لیے خود کو مناسب طور پر تیار کرو، کیونکہ تمہاری جنس رہنمائی کے لیے مردانہ ذہانت کی محتاج ہے، اور مرد کی طاقت تمہارے تحفظ کے لیے ہے۔‘‘
اس طاقت ور تعلیم کے باوجود عورتوں نے ہمیشہ بغاوت کی، تاہم ان بغاوتوں کو چند کمزوریوں کا سامنا رہا: وہ ہر وقت اپنے آقاؤں کی نظروں میں رہتی تھیں، ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھی جاتی تھیں، اور یوں دیگر مظلوم عورتوں کے ساتھ منظم نہیں ہوپاتی تھیں۔
این ہچنسن ایک مذہبی عورت تھی، 13 بچوں کی ماں تھی، اور جڑی بوٹیوں سے علاج کی ماہر تھی۔ اُس نے میسا چیوسٹس بے کالونی کے ابتدائی ایام میں پادریوں سے بغاوت کی، اُس کا کہنا تھا کہ وہ اور دیگر عام لوگ خود انجیل کی تشریح کرسکتے ہیں۔ وہ بہت اچھی مقرر تھی، اُس نے عورتوں کے کئی اجلاس منعقد کیے، جن میں خواتین کی شرکت بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ بہت سے مرد بھی ان اجتماعات میں شریک ہوئے۔ بوسٹن میں اُس کے گھر پر باقاعدہ اجتماعات ہونے لگے تھے، جن میں وہ مقامی حکام پر کڑی تنقید کرتی تھی۔ گورنر جان ون تھراپ نے اُسے سرکش اور غصیلا، اور مرد وں سے زیادہ منہ زور قرار دیا، اور ساتھ ہی عقل وفہم میں عام عورتوں سے بھی کمتر کہا۔ این ہچنسن پر دوبار مقدمہ چلایا گیا، چرچ نے توہینِ مذہب کا الزام لگایا، اور حکومت نے رٹ چیلنج کرنے کا الزام تھوپا۔ سول مقدمے کے دوران وہ حاملہ اور بیمار تھی، مگر اسے کٹہرے میں بیٹھنے تک کی اجازت نہ دی گئی، یہاں تک کہ وہ گرنے جیسی ہوگئی تھی۔کئی ہفتے اُس کے مذہبی عقائد کی تفتیش ہوئی، جس کے بلیغ جوابات اُس نے انجیل کے مستند حوالوں سے دیے۔ تھک ہار کر خاتون نے تحریری طور پر اظہارِ شرمندگی کیا، مگر عدالت پھر بھی مطمئن نہ ہوئی۔ عدالت کا مؤقف تھا کہ خاتون کے چہرے پر ’’شرمندگی‘‘ کے آثار نظر نہیں آئے۔
خاتون کوکالونی سے نکال دیا گیا، اور جب 1638ء میں وہ رہوڈ آئی لینڈ چلی گئی، پینتیس خاندان اُس کے ساتھ روانہ ہوئے۔ بعد ازاں وہ لانگ آئی لینڈ کی ساحلی پٹی میں جا بسی، جہاں مقیم سرخ ہندیوں نے اُسے دشمن سمجھا، اور اُسے اہلِ خاندان سمیت مار ڈالا۔
ان برسوں میں عوامی امور میں خواتین کی شراکت داری نہ ہونے جیسی ہی رہی۔ Julia Spruill جارجیا کے ابتدائی ریکارڈ سے ایک کہانی سناتی ہے، کہ ہندی ماں اور انگریز باپ کی بیٹی میری میتھیوز، جوکریک (ہندی امریکیوں کی زبان) بول سکتی تھی، سرخ ہندیوں کے امور پر انگریز گورنر جیمس اولے تھروپ کی مشیر بن گئی تھی۔ اسپروئیل کہتی ہے کہ جوں جوں آبادکاری بڑھتی گئی، عوامی زندگی میں خواتین کی شراکت کم ہوتی چلی گئی۔ تاہم امریکی انقلاب کے دوران، اسپروئیل لکھتی ہے کہ عوامی امور میں خواتین کی ضرورت بڑھ گئی تھی۔ عورتوں نے وطن پرست گروہ تشکیل دیے، برطانیہ مخالف تحریک میں عملاً حصہ لیا، اور تحریکِ آزادی کے لیے مضامین لکھے۔ وہ برطانوی tea taxکے خلاف مہم کا حصہ بنیں۔ انھوں نے Daughters of Liberty منظم کی، برٹش تجارتی سامان کا بائیکاٹ کیا، اپنی بہنوں پر زوردیا کہ اپنے کپڑے خود تیار کریں اور صرف امریکی سامانِ تجارت استعمال کریں۔ سن 1777ء میں، بوسٹن میں خواتین کی ٹی پارٹی اور کافی پارٹی خاصی مشہور ہوئیں، ایبی گیلز ایڈمس نے شوہرکے نام خط میں ان کا ذکر کچھ یوں کیا: ’’ایک بہت نمایاں، دولت مند، کامیاب تاجر، جس نے چھے شلنگ فی پاؤنڈ کافی بیچنے سے انکار کردیا تھا۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد، چھکڑے اور ٹرنک لے کر روانہ ہوئی، اور کافی کے گودام پہنچ گئی، اور تاجر سے چابیاں طلب کیں، اُس نے چابیاں دینے سے انکار کیا، جس پر ایک عورت نے اُسے گردن سے دبوچ کر چھکڑے کی جانب گھسیٹا۔ جب گودام مالک کوکوئی راہِ فرار نہ ملی تو چابیاں عورتوں کو تھمادیں۔ عورتوں نے گودام کھولا اور کافی ٹرنکوں میں بھرکر روانہ ہوگئیں… وہاں موجود مرد ہکا بکا یہ سب دیکھتے رہ گئے۔‘‘
مؤرخین نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ امریکی انقلاب میں عام خواتین کا اہم کردار ہے، مگر اس کردار سے بڑے پیمانے پر صرفِ نظر کیا گیا ہے، جبکہ بانیانِ امریکہ کی بیویوں ڈولی میڈیسن، مارتھا واشنگٹن، ایبی گیل ایڈمز وغیرہ کی بڑی تعریف و توصیف ہوئی ہے۔ غریب خواتین لڑائی کے آخری برسوں میں بھرپور مددگار ثابت ہوئیں، مگر انھیں بعد میں ’’جسم فروش‘‘ کے طور پر تاریخ میں جگہ دی گئی، جبکہ مارتھا واشنگٹن کو تاریخ میں خاص مقام ملا، خاص طور پر جب وہ ویلے فورج میں شوہر سے ملنے گئی تھی۔
امریکی انقلاب کے بعد، ریاست کے کسی آئین میں عورت کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، سوائے نیوجرسی کے۔ نیوجرسی نے بھی پھر1807ء میں یہ قانون منسوخ کردیا تھا۔ نیویارک کے آئین میں خواتین کو واضح طور پر ’’مرد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے، ووٹ کے حق سے محروم کیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب نوّے فیصد مرد اور چالیس فیصد خواتین خواندہ تھیں۔ یہ خواتین گھرداری بھی کرتی تھیں، دکانیں بھی چلاتی تھیں، دیگر چھوٹے موٹے کاروبار میں بھی حصہ لیتی تھیں۔
امریکی انقلاب کے بعد، عورت کی برابری کا خیال فضا میں گردش کرنے لگا تھا۔ ٹام پین نے عورت کے لیے یکساں حقوق کی بات کی۔ انگلینڈ میں Mary Wollstonecraftکی کتاب اس بارے میں رہنما ثابت ہوئی، اس میں خواتین کے حقوق پر زوردیا گیا تھا۔ وول اسٹون کرافٹ دراصل انگریز قدامت پرستوں اور انقلابِ فرانس کے مخالفین کو ردعمل دے رہی تھیں۔ جیسا کہ ایڈمنڈ برک نےReflections on the Revolution in France میں کہا تھا کہ عورت محض ایک جانور ہے، اور وہ بھی کم درجے کا۔ جس پر وول اسٹون کرافٹ نے لکھا کہ ’’میری خواہش ہے کہ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ طاقت مجتمع کرنی چاہیے، کیونکہ ان کی نازک صفات کو کمزوری باور کیا جاتا ہے، اور جنھیں محض ترس یا محبت والی کوئی مخلوق سمجھا جاتا ہے، اور جلد ہی یہ جذبہ حقارت میں ڈھل جاتا ہے… میری تمنا ہے کہ عورتوں کو سمجھاؤں کہ، جنسی امتیاز سے قطع نظر، ’’انسان‘‘ کا کردار اُن کے لیے کس قدر اہم ہے(1)۔
کئی سمتوں سے ایک پیچیدہ سی مہم چل پڑی تھی۔ اب خواتین گھروں سے نکل رہی تھیں، صنعتی زندگی میں داخل ہورہی تھیں۔ باہر کی دنیا، جوگھر کی مضبوط روایات پارہ پارہ کردیتی ہے، خدشات اورتناؤ جنم دینے لگی تھی۔ مردوں کی اس دنیا میں اکثر خواتین بھی مجبور زندگی ہی بسر کررہی تھیں۔ جیسے جیسے معیشت نے ترقی کی، مرد بطور مکینک اور تاجر زیادہ سے زیادہ جارح ہوتے چلے گئے تھے۔ گھر سے نکلنے والی عورت باہر کی دنیا کے خطرات میں گھرتی چلی گئی۔ اُسے کہا گیا کہ ’’اپنا منہ بند رکھے‘‘۔
باہر کی دنیا دن بہ دن زیادہ مشکل، زیادہ کمرشل، اور توجہ طلب ہورہی تھی۔ خاندان والے ماضی کا ’جنت‘ جیسا گھر بھی چاہتے تھے، اور باہر والے معاشی ترقی میں زیادہ سے زیادہ محنت اور قربانی مانگ رہے تھے۔ اب عورت دوپاٹوں میں پس رہی تھی۔ سن 1819ء میں، ایک نیک اطوار بیوی لکھتی ہے: ’’باہر کی دنیا کی فضا زہریلی ہے۔ تمھیں لازماً اپنے ساتھ تریاق رکھنا چاہیے، ورنہ اس دنیا کا زخم جان لیوا ثابت ہوگا۔‘‘
اس سب کے باوجود عورت کا ماتحت اسٹیٹس ختم نہیں کیا گیا تھا، وہ ووٹ نہیں دے سکتی تھی، اپنی جائداد نہیں بنا سکتی تھی، مردوں کے مقابلے میں آدھی اجرت پاتی تھی، ’قانون‘ اور ’دواسازی‘ کا پیشہ اختیار نہیں کرسکتی تھی، کالجوں میں نہیں پڑھاسکتی تھی، وزارتیں نہیں سنبھال سکتی تھی(2)۔
نیو انگلینڈ میں، Samuel Slater نے سن 1789ء میں صنعتی اسپننگ مشین متعارف کروائی، اور نوجوان لڑکیوں کی مانگ بہت بڑھ گئی، تاکہ فیکٹریوں میں اسپننگ مشین پر کام کی کھپت پوری کی جاسکے۔ سن 1814ء میں میساچیوسٹس میں پاور لوم متعارف کروائی گئی۔ کپاس سے کپڑا بنانے کے لیے مزدوروں کی شدید ضرورت پیدا ہوئی۔ اب ٹیکسٹائل فیکٹریاں تیزی سے بڑھتی جارہی تھیں، اور اسّی سے نوّے فیصد عملہ خواتین پر مشتمل ہوتا تھا، ان کی اکثریت پندرہ سے تیس سال کے درمیان تھی۔ ان کی یومیہ اجرت 371.2 سینٹ سے بھی کم تھی، جبکہ ہزاروں خواتین کی دہاڑی صرف 25 سینٹ تھی، اورکام کا دورانیہ بارہ سے سولہ گھنٹے تھا۔ اس ظالمانہ سلوک کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ ہڑتالوں کی ابتدا ان ہی خواتین سے ہوئی۔ سن 1824ء میں، رہوڈ آئی لینڈ کی ایک فیکٹری میں خواتین مزدوروں نے پہلی ہڑتال کی۔ یہ تاریخ کی پہلی معلوم ہڑتال تھی۔ عورتوں نے مرد وں کے ساتھ مل کر احتجاج کیا، تنخواہوں میں کٹوتی اور کام کے طویل دورانیے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ چار سال بعد، نیو ہیمپشائرمیں بھی فیکٹری خواتین نے ہڑتال کی۔ لوویل میساچیوسٹس میں ایک لڑکی کو فیکٹری سے نکال دیا گیا، جس پر دیگر خواتین نے کام چھوڑ ہڑتال کی، ایک لڑکی ٹاؤن پمپ پر چڑھ گئی، اور خواتین کے حقوق پر لمبی چوڑی تقریر کی (3)۔ 1840ء کی دہائی میں کئی شہروں میں خواتین کی یہ ہڑتالیں سامنے آئیں، تاہم اکثر ناکام ہوئیں۔ ان ہڑتالوں میں خواتین عموماً چھڑیوں اور پتھروں سے مسلح ہوا کرتی تھیں۔ لکڑی کے دروازے توڑ کر، ملوں میں گھس کر لومز بند کردیتی تھیں۔
کیتھرین بیچر اُس دور کی ایک اصلاح پسند عورت تھی، فیکٹری سسٹم کی بابت لکھتی ہے: ’’مجھے اجازت دیجیے کہ وہ چند حقائق آپ کے سامنے رکھ دوں، جن کا میں نے براہِ راست مشاہدہ کیا ہے۔ میں جاڑے کے موسم میں وہاں کام کررہی تھی، ہر صبح پانچ بجے گھنٹیاں بجاکر سارے مزدوروں کو بیدار کیا جاتا، تیاری اور ناشتے کا وقت بہت مختصر ہوتا تھا، اور پو پھٹنے سے قبل ہی فیکٹری کا کام شروع ہوجاتا تھا۔ دوپہر بارہ بجے تک بغیر رُکے مشقت لی جاتی تھی، اس دوران ہم مسلسل کھڑے رہتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے لیے صرف آدھا گھنٹہ دیا جاتا تھا، اور اُس میں بھی آنے جانے کا وقت شامل ہوتا تھا۔ ملوں میں واپس پہنچ کر سات بجے تک مسلسل کام کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ہمارا سارا وقت اُن کمروں میں گزرتا تھا، جہاں صرف تیل کے لیمپ جل رہے ہوتے تھے، اور چالیس سے اسّی محنت کش کام کررہے ہوتے تھے۔ انتہائی گھٹن ہوتی تھی۔ کمرے کی ہوا میں کپاس، گتے اور لومز کے بے شمار ننھے ذرات اڑ رہے ہوتے تھے۔‘‘
نینسی کوٹس نے کتاب The Bonds of Womanhood میں عورت کی دوہری مشکل تفصیل سے بیان کی ہے: ’’انیسویں صدی کی عورت کو اس فلسفہ ٔحیات میں پھنسایا گیا کہ گھر میں بھی ذمے داریاں نبھائے، اور اگر باہر کارخانوں میں کام پر مجبور کردیا جائے، تو وہاں بھی بہترین کارکردگی دکھائے۔ اس صورت حال نے خواتین میں اجتماعی طور پر استحصال کا شعور بیدار کیا، یکجہتی پیدا ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے کئی تحریکیں اور تنظیمیں وجود میں آئیں، بتدریج کئی قانونی حقوق حاصل ہوئے۔
حواشی
1)’’خواتین کے حقوق‘‘ کی اصطلاح کے تناظر میں یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ اصطلاح ازخود ’’امتیاز‘‘ ظاہر کرتی ہے۔ کیا ’’انسانی حقوق‘‘کی موجودگی میں ’’عورتوں کے حقوق‘‘کی بات امتیازی سلوک نہیں؟ خاتون نے بڑی دانش مندی سے عورتوں کو بطور ’’انسان‘‘ اہمیت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
2)آج تک عورت امریکہ کی صدر بھی نہیں بن سکی ہے۔ خواتین کے حقوق پر اپنے مبینہ نظریات کے برخلاف، بانیانِ امریکہ سے لے کر تاریخِ جدید تک کانگریس اور وائٹ ہاؤس کہیں بھی عورت کو یکساں مقام نہیں دیا گیا۔ آج بھی عورت کے جنسی استحصال کی کہانیاں امریکہ ہی سے برآمد ہورہی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جنسی استحصال بھی کسی گھریلو خاندانی عفیفہ کا نہیں ہورہا، بلکہ وہ خواتین جو جنسی ہراسانی کی روحِ رواں ہیں، وہی شکوہ کناں ہیں۔
3)یہ بڑی قابلِ توجہ حقیقت ہے کہ عورت کو پہلی بار ناانصافی کا شدید ترین احساس مغربی دنیا میں ہوا۔ انسانی تہذیب پر صنعتی انقلاب کی پہلی چوٹ عورت پر پڑی تھی۔ مسلم دنیا میں خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے اس سچائی سے واقف نہیں کہ عورت کے حقوق کا سوال پہلی بار صنعتی دنیا سے اٹھا تھا، اگر عورت اپنے فطری کردار، اور خاندانی تحفظ و تقدس سے محروم نہ کی جاتی، اور کارخانوں کی نذر نہ کی جاتی، تو یہ سوال کہیں موجود نہ ہوتا۔ اپنی اصل میں ’خواتین کے حقوق‘ کا سوال گھریلو خاندانی عورت کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ سوال فطری اور غیر فطری دوہری زندگی، متصادم کردار، اور متناقص صورت حال سے دوچار عورت کا تھا اور ہے۔ یقیناً یہ سوال اَن پڑھ دیہی معاشروں میں بھی سنگین ہے، لیکن اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ جاگیردارانہ نظام سے ہے، جسے ختم ہونا چاہیے۔
)تلخیص و ترجمہ: ناصر فاروق(