یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب متحدہ ہندوستان پر سلطان غیاث الدین تغلق حکمران تھا۔ دہلی اس کا دارالحکومت تھا۔ وہیں ایک محلے میں ایک غریب بیوہ رہا کرتی تھی۔ یہ بڑی نیک اور عبادت گزار عورت تھی۔ اس کی ایک لڑکی تھی جو نابینا تھی اور ایک لڑکا تھا جس کا نام حسن تھا۔
پندرہ سالہ حسن اپنی بیوہ ماں اور نابینا بہن کا واحد سہارا تھا۔ وہ دن بھر محنت مزدوری کرتا اور شام کو جو کچھ حاصل ہوتا اس سے ان دونوں کا پیٹ پالتا۔ ایک روز حسن دن بھر مزدوری کی تلاش میں پھرتا رہا، لیکن اسے کہیں بھی کوئی کام نہ ملا۔ اس کی ماں، بہن اور وہ خود تین دن کے فاقے سے تھے۔ شام کو جب وہ مایوس گھر لوٹا تو ماں کے سامنے بیٹھ کر رونے لگا۔ نیک دل ماں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:
’’بیٹا! رونے دھونے سے کیا حاصل؟ اگر آج تمہیں مزدوری نہیں ملی، تو کل سہی، اللہ کی مرضی، ہم ایک روز اور فاقہ کرلیں گے‘‘۔
سخت سردیوں کا موسم تھا۔ رات کو زور کی بارش ہوئی اور ٹھنڈی یخ ہوا چلنے لگی۔ ان غریبوں کے پاس گرم کپڑے اور لحاف کہاں تھے! آدھی رات کے وقت اس کی نابینا بہن کو پسلی میں شدید درد اٹھا، بے چاری رات بھر تڑپتی رہی اور صبح ہوتے ہی چل بسی۔ موت کی خبر سن کر محلے والے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے مل جل کر اس کے کفن دفن کا انتظام کیا۔
اُن دنوں دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی بڑی شہرت تھی۔ خلقت دور دور سے چل کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتی اور حضرت کی دعا اور برکت سے فیض یاب ہوتی۔ جب حسن کو اگلے روز بھی کہیں مزدوری نہ ملی تو وہ شام کے وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ ان کے ہاں لنگر سے کھانا بھی لائے اور اپنے لیے دعا بھی کرائے۔
تاریخ فرشتہ (جلد اوّل) میں ہے کہ جس شام حسن اپنے لیے دعا کرانے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اسی شام شہزادہ محمد تغلق بھی حضرت سے دعا کی غرض سے حاضر ہوا تھا۔ اتفاق سے جب حسن حضرت خواجہؒ کی خانقاہ فلک پائیگاہ میں پہنچا تو محمد تغلق اس وقت خانقاہ کے دروازے سے نکل رہا تھا۔
حضرت خواجہؒ اس وقت لوگوں کے ہجوم میں بیٹھے تھے۔ خادم سے فرمایا: ایک سلطان گیا اور دوسرا سلطان آگیا۔ پھر فرمایا: جائو، باہر جو سلطان کھڑا ہے، اسے میرے پاس لے آئو۔ خادم اسے دیکھ کر واپس آگیا اور حضرتؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ باہر کوئی بادشاہ نہیں ہے، صرف ایک مفلوک الحال نوجوان کھڑا ہے۔ حضرت خواجہؒ نے فرمایا: ہاں، وہی تو مستقبل کا بادشاہ ہے، جائو اسے میرے پاس لے آئو۔
جب حسن حاضر ہوا، تو حضرتؒ نے بڑی شفقت سے فرمایا:۔
’’بادشاہ سلامت! بیٹھ جایئے‘‘۔
حسن بولا:۔
’’حضور! میں تو قسمت کا مارا، بہت ہی غریب آدمی ہوں۔ دین اور دنیا کے بادشاہ تو آپ ہیں۔ البتہ اس وقت میں بادشاہوں سے بڑھ کر ہوں، کیونکہ آپ کے قدموں میں ہوں‘‘۔
حضرت خواجہؒ نے خادم سے کہا:۔
’’کچھ کھانا ہے، تو لائو‘‘۔
خادم نے کہا: ’’اس وقت تو کچھ نہیں، سب ختم ہوچکا ہے‘‘۔ حضرت نے فرمایا:۔
’’اچھا، میری افطاری کا کھانا لے آئو‘‘۔
کھانا لایا گیا، تو حضرت خواجہؒ نے وہ حسن کو عطا فرمایا اور کہا:۔
’’اسے کھالو، یہ دکن کی بادشاہی کا تاج ہے‘‘۔
حسن کئی روز سے بھوکا تھا۔ جلدی جلدی کھانے لگا۔ جب کھا چکا، تو حضرت نے ہاتھ اٹھا کر اس کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
چند روز نہ گزرے تھے کہ حسن کو ایک شاہی منجم کانگو بہمن کے کھیت میں ہل چلانے کی ملازمت مل گئی۔ ایک روز حسن ہل چلا رہا تھا کہ ہل کی پھالی کسی چیز سے اٹک گئی۔ اس نے وہ جگہ کھودی تو زمین کے اندر سے ایک دیگ نکلی جس میں علائی عہد کے سونے کے سکے اور اشرفیاں بھری تھیں۔ حسن نے پسند نہ کیا کہ آقا کی زمین سے ملنے والے مال میں خیانت کرے۔ وہ اشرفیوں سے بھری ہوئی دیگ اٹھوا کر کانگو بہمن کے پاس آیا اور اسے تمام واقعہ کہہ سنایا۔ بہمن حسن کی ایمانداری سے بے حد متاثر ہوا۔ کانگو بہمن مشہور آدمی تھا، شاہی دربار میں اس کی بڑی عزت تھی۔ اگلے روز وہ دربار میں گیا، تو اس نے شہزادہ محمد تغلق سے حسن کی ایمانداری کا سب واقعہ کہہ سنایا۔ شہزادہ بھی اس قصے سے بڑا متاثر ہوا اور فوراً حسن کو بلوا کر اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔ شاہی محل میں رہ کر حسن نے اپنی ذہانت اور خداداد قابلیت سے بہت جلد ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دربارِ شاہی کے خاص امرا میں شامل ہوگیا۔
سلطان غیاث الدین تغلق کے بعد اس کا بڑا بیٹا محمد تغلق ہندوستان کا بادشاہ بنا، تو حسن اُس وقت دکن میں تھا۔ دکن کے امرا نے اتفاقِ رائے سے حسن کو اپنا بادشاہ بنالیا۔ بادشاہ بننے کے بعد حسن نے آس پاس کے تمام علاقے فتح کرلیے اور پورے دکن کا حکمران بن گیا اور حسن بہمنی کے نام سے حکومت کرنے لگا۔ اپنے نام کے ساتھ بہمنی اس نے اس لیے لگایا کہ بہمن زمیندار کی وجہ سے اسے شاہی دربار تک رسائی حاصل ہوئی تھی۔ حسن بہمنی کے بعد بہمنی تاجداروں نے اٹھارہ پشتوں تک دکن پر حکمرانی کی۔ حسن بہمنی اکثر کہا کرتا تھا کہ ’’مجھے گدائی سے شاہی تک حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی دعا نے پہنچایا ہے، ورنہ میں تو ایک مفلوک الحال انسان تھا‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ستمبر2020ء)