چاند کو زنگ لگ رہا ہے!۔

امریکی سائنس دانوں نے چاند پر زنگ (rust) دریافت کیا ہے جو اس کے قطبین پر نسبتاً زیادہ، جبکہ دیگر مقامات پر قدرے کم مقدار میں موجود ہے۔ یہ دریافت اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ چاند پر زنگ بنانے والے دو اہم ترین اجزاء پانی اور آکسیجن میں سے کوئی ایک بھی موجود نہیں لیکن پھر بھی وہاں زنگ دریافت ہوا ہے۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری ناسا کی سربراہی میں یہ تحقیق پانچ امریکی تحقیقی اداروں کے ماہرین نے مشترکہ طور پر انجام دی ہے جس میں ہندوستان کے چندرایان مشن پر نصب خصوصی آلات سے مدد لی گئی ہے جو ناسا نے نصب کیے تھے۔ اس تحقیق کی تفصیلات ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ نامی تحقیقی مجلے میں گزشتہ روز آن لائن شائع ہوئی ہیں۔ ان آلات سے کیے گئے طیفی تجزیوں سے چاند کے قطبین پر آئرن آکسائیڈ کی ایک خاص قسم ’’ہیماٹائٹ‘‘ کی موجودگی کا انکشاف ہوا، جسے آسان الفاظ میں ’’زنگ کا جڑواں بھائی“ بھی کہا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کا بنیادی کیمیائی فارمولا وہی ہے جو زنگ کا ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ چاند پر یہ زنگ دراصل ’’ہیماٹائٹ‘‘ نامی ایک معدن کی شکل میں ہے جو زمین پر لوہے کی قدرتی کچ دھات میں بکثرت پائی جاتی ہے۔ آکسیجن اور پانی نہ ہوتے ہوئے بھی چاند پر زنگ کیوں موجود ہے؟ اس کی ایک ممکنہ وجہ بتاتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند تک پہنچنے والی ہائیڈروجن (جو پانی کا اہم جزو بھی ہے) غالباً سورج سے آنے والی ’’شمسی ہواؤں‘‘ کے ساتھ وہاں پہنچی ہوگی، جبکہ چاند پر آکسیجن کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ زمین کے بالائی کرہ ہوائی میں موجود تھی جسے زمینی مقناطیسی میدان نے دھکیل کر چاند تک پہنچا دیا۔ یہ خیال اس لیے بھی خاصا معقول دکھائی دیتا ہے کیونکہ چاند کا وہ حصہ جو ہمیشہ زمین سے مخالف سمت میں رہتا ہے، اس پر زنگ موجود نہیں، جبکہ صرف اُسی حصے میں زنگ دریافت ہوا ہے جو اپنا رُخ زمین کی طرف رکھتا ہے۔ معقول ہونے کے باوجود یہ باتیں ابھی مفروضہ ہیں جن کی تصدیق یا تردید کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

اب ٹشو پیپر کو بھی کی بورڈ یا کی پیڈ بنانا بہت آسان

اب سادہ کاغذ، گتے، یہاں تک کہ ٹشوپیپر کو بھی کی بورڈ یا کی پیڈ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ اہم کام پوردوا یونیورسٹی کے ماہرین نے کیا ہے۔
اس ایجاد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے کی پیڈ بنانے اور چلانے کے لیے کسی اضافی بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی، اور یہ خود سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح عام اشیا کی پیکنگ کو بھی انٹرایکٹو بنایا جاسکتا ہے۔
”پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ خود سے بجلی بنانے والے کسی برقی آلے کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے“۔ یہ بات رامسِس مارٹنیز نے بتائی جو پوردوا یونیورسٹی کے ویلڈن اسکول آف بایومیڈیکل انجینئرنگ کے نائب پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر فلورینیٹڈ سالمات کی ایک تہ چڑھائی گئی ہے جو اسے پانی، گرد اور چکنائی سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس طرح ہم کاغذ پر سرکٹ کی کئی پرتیں لگاسکتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی بٹن دباتا ہے پریشر سینسر اس دباؤ سے بجلی بنانے لگتا ہے۔

مکھی کے پیروں میں ’انتہائی چپکو‘ گوند کا راز

جاپانی سائنس دانوں نے عام گھریلو مکھی کے پیروں سے متاثر ہوکر ایک ایسا گوند بنا لیا ہے جو بہت کم خرچ ہونے کے علاوہ چپکنے کی زبردست صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اسے بار بار استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
جاپان کی مختلف جامعات سے وابستہ ماہرین کی اس ٹیم کو ایک نئے قسم کے مادّے کی تلاش تھی جس میں چپکنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہو۔ چونکہ گھریلو مکھیاں کسی بھی سطح پر بہت آرام سے بیٹھ جاتی ہیں اور گرتی بھی نہیں، تو انہوں نے یہ راز جاننے کی ٹھان لی۔ جب طاقتور الیکٹرون خردبین سے مکھی کے ’پیروں‘ کا مشاہدہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں باریک باریک آنکڑوں جیسی ساختیں نکلی ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ سطح چاہے کیسی ہی ہموار اور چکنی کیوں نہ ہو، اس پر انتہائی مختصر اور خردبینی ابھار ضرور موجود ہوتے ہیں جو نہ تو خالی انسانی آنکھ سے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی انسان انہیں محسوس کرسکتا ہے۔ البتہ ننھی منی مکھیوں کےلیے یہی ابھار کسی سہارے کا کام کرتے ہیں اور ان کے پیروں پر نکلے ہوئے ’آنکڑے‘ ان ابھاروں کو جکڑ لیتے ہیں، اور یوں ایک مکھی ہر قسم کی سطح پر آسانی سے جم کر بیٹھ جاتی ہے، چاہے وہ ٹیڑھی، الٹی اور چکنی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ راز جاننے کے بعد ان سائنس دانوں نے عام نائلون کے باریک ریشوں کے کناروں پر اسی طرح کے خردبینی آنکڑے بنائے۔ تجربات کے دوران ایسے ایک باریک ریشے کی مدد سے 52.8 گرام وزنی سلیکان ویفر کو بہ آسانی لٹکا لیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایسے 756 ریشے صرف 1.3مربع انچ (9 مربع سینٹی میٹر) کے مختصر رقبے پر سمو دیئے جائیں تو وہ 60 کلوگرام تک وزنی کسی شے کو آسانی سے سنبھال سکیں گے۔ ایسی کوئی بھی پٹی ایک ٹیپ جیسی ہوگی لیکن عام ٹیپ کے برعکس اسے ہزاروں مرتبہ استعمال کیا جاسکے گا۔ اسے ایجاد کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایسی ’چپکو پٹیاں‘ روبوٹس کےلیے بنائی جائیں گی۔ تاہم بعد ازاں انہیں دیگر مقاصد کےلیے بھی تیار کیا جائے گا۔ اس عجیب و غریب مادّے کی تفصیلات ’’کمیونی کیشنز بائیولوجی‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔