امیر المومنین محمد امین کو کس چیز نے بھیانک انجام سے دوچار کیا۔۔۔؟ کثرت کی خواہش نے۔ خدا کی آخری کتاب کہتی ہے ’’الھکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر‘‘ کثرت کی خواہش نے تمہیں برباد کرڈالا، حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ جب گردنیں کاٹی جا چکیں، لاشیں دفن کی جا چکیں اور اہلِ بغداد مامون الرشید کے لیے بیعتِ عام کرچکے تو ابوعیسیٰ نے امیرالمومنین محمد امین کا مرثیہ لکھا: میں نے جود و کرم سے سوال کیا
میں دیکھتا ہوں کہ تم نے اپنی تکریم ہمیشہ کی تحقیر سے بدل لی
میں دیکھتا ہوں کہ عزت کی عمارت منہدم ہوگئی
ان دونوں (عزت اور سخاوت) نے جواب دیا
ہم پر امین کے مرنے کی مصیبت آپڑی
اس پر میں نے کہا
تم بھی مرنے والے کے ساتھ کیوں نہ مر گئے
؎تم تو اس کے دائمی ندیم تھے
دونوں نے جواب دیا
ہم اس لیے ٹھہر گئے کہ ہمیں امین کی موت کا پرسا دیا جائے
کل ہم بھی اس سے جا ملیں گے
امیر المومنین محمد امین صاحبِ جلال ہارون الرشید کے جانشین تھے۔ ہارون کے بس میں ہوتا تو وہ مامون الرشید کو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کی ذمہ داری سونپتا۔ خود اس نے کہا تھا ’’میں مامون میں منصور کا عزم، مہدی کی متانت اور ہادی کی شوکت دیکھتا ہوں۔‘‘ مامون فقہ، ادب، تاریخ، ایامِ عرب، طب اور فلسفے کا عالم تھا۔ حلیم، حاضر جواب، سیر چشم اور وضع دار۔ پھر اسے سلطنت کیوں نہ سونپی گئی؟ اس لیے کہ دربار کے امرا اور طاقتور عرب قبائل نجیب الطرفین امین کے حامی تھے۔ سب سے زیادہ مزاحمت زرو جواہر لٹانے والی سلیقہ مند ملکہ زبیدہ کی طرف سے برپا تھی۔۔۔’’تم میرے بیٹے پر ایک کنیز کے فرزند کو ترجیح دیتے ہو۔‘‘ مورخ کہتے ہیں کہ امین نہایت ذکی اور اپنے عرب اجداد کی طرح فصیح اور خوش تقریر تھا۔ بانکا اور سجیلا، خوش لباس اور مہربان، لیکن وہ فضول خرچ، حریص اور عیاش بھی تھا۔ عورتیں اس کے گرد و پیش گھومتی رہتیں اور بعض اوقات تو ان سے مشورہ کرتا پایا جاتا۔ اقتدار کا وہ دیوانہ تھا۔ امیر المومنین جانتے تھے کہ اگر انہوں نے مامون کو نامزد کردیا تو دربار اور فوج میں بے چینی پھیل جائے گی، لیکن وہ امین کی طرف سے مطمئن نہ تھے اور مامون کے لیے ان کا دل پگھلتا رہتا۔ آخرکار انہوں نے ایک حل ڈھونڈ نکالا۔ خراسان اور بعض دوسرے علاقوں کا اقتدار مامون کو سونپنے کا فیصلہ کیا۔ دو مفصل دستاویزات لکھی گئیں۔ ایک امین اور دوسری مامون کی طرف سے۔ نامزد علاقوں پر مامون کا اقتدار حتمی تھا لیکن اسے امین کو خلیفہ تسلیم کرنا تھا، اور اس کے بعد امین کے نامزد کردہ ولی عہد کو۔ اس نے اقرار کیا کہ جنگ کی صورت میں وہ تمام تر قوت اور پوری خوش دلی کے ساتھ امیر المومنین کی مدد کو آئے گا۔ امین نے تسلیم کیا کہ وہ مامون کے معاملات میں کبھی مداخلت نہ کرے گا۔ اسے کامل خودمختاری حاصل رہے گی۔۔۔ دونوں دستاویزات خانہ کعبہ پر آویزاں کردی گئیں۔ تمام اہم امرا کو گواہ بنایا گیا اور خلقِ خدا کے لیے منادی کردی گئی۔ خلیفہ نے مامون کے لیے ہر وہ انتظام کرڈالا جو ان کے بس میں تھا اور امین کو وہ سب کچھ دے دیا، جس کا وہ آرزومند تھا۔ ہارون الرشید کی آنکھیں بند ہوتے ہی مگر سب کچھ درہم برہم ہونے لگا۔ وزیرِاعظم فضل بن الربیع نے جو ہمیشہ امین کے ساتھ جڑا رہتا، چند ہی روز میں اسے آمادہ کرلیا کہ مامون کو معزول کردیا جائے۔ دربار میں رائے طلب کی گئی تو امین کے دردمند اور لائق مشیر عبداللہ بن حازم نے عہد شکنی کے نتائج سے ڈرانے کی کوشش کی لیکن، اس نے ڈانٹ کر خاموش کرا دیا ’’چپ رہ۔ عبدالملک تجھ سے زیادہ دانا تھا، جس نے کہا تھا کہ جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ مکہ مکرمہ سے دستاویزات منگوا کر چاک کردی گئیں۔ سپہ سالار عیسیٰ علی بن عیسیٰ مرعوب کردینے والے لشکر کے ساتھ رے کی طرف روانہ ہوا لیکن اس کا سامنا مامون کے میرِ سپاہ طاہر سے تھا۔ چشمِ فلک نے طاہر جیسے جرنیل کم دیکھے تھے۔ صدیوں بعد فرانس کے نپولین نے کہا تھا ’’گیدڑوں کا لشکر، جس کی کمان شیر کے ہاتھ میں ہو، شیروں کے لشکر کو شکست سے دوچار کرسکتا ہے اگر ان کی کمان گیدڑوں کے پاس ہو‘‘۔ طاہر کو اپنے قائد اور موقف پر یقین تھا اور اس نے اپنے سپاہیوں کے دلوں میں آگ بھر دی تھی۔ شکست کی خبر بغداد پہنچی تو امین محل کے حوض پر اپنے غلام کوثر سے مچھلیاں پکڑنے کا مقابلہ کررہا تھا۔ اس نے پیغامبر سے جھلّا کر کہا ’’چپ رہ، کوثر دو مچھلیاں پکڑچکا اور مجھے ایک بھی نہیں ملی۔‘‘ ان مچھلیوں کو سونے کی نتھنیوں میں موتی پہنائے جاتے تھے۔ امین مچھلیاں پکڑتا، لونڈیوں کو ساتھ لیے شکار کھیلتا، درباریوں اور لشکریوں پر عنایات کرتا اور اپنی شامیں دجلہ کے کنارے گزارتا رہا۔ طاہر کی افواج بغداد کی طرف پیش قدمی کرتی رہیں، حتیٰ کہ زمین تنگ ہونے لگی۔ امین اس حال میں دارالحکومت سے فرار ہوا کہ اس کے وزرا، جرنیل اور درباری ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کررہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ امین کی گردن طاہر کے حوالے کرکے اس کے بدلے میں امان حاصل کرے۔ امین بھیس بدل کر دجلہ پار کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ پکڑا گیا۔ اس نے عورتوں کا لباس پہن رکھا تھا اور اس کے پاس شمشیر تک نہ تھی، حالانکہ اُس زمانے میں بغداد کے گویّے تک تلوار لٹکائے بغیر گھر سے نہ نکلتے تھے۔ طاہر کے تین عجمی سپاہیوں نے امین کو اسیری میں ہلاک کیا۔ وہ اس حال میں تھا کہ اس نے ایک تکیہ اٹھا رکھا تھا اور برابر چلّا رہا تھا ’’میں تمہارے نبی کا ابن عم ہوں۔ ہارون الرشید کا فرزند، مامون کا بھائی، میرا خون تم پہ ہرگز حلال نہیں۔‘‘ بادشاہوں میں کثرت کی خواہش مفلسوں اور محتاجوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کیا ہمیشہ دوسروں کی شکایت کرنے اور الزام دھرنے والے ہمارے لیڈر کثرت کی خواہش میں اندھے نہیں ہوچکے؟ آخر وہ کون سی چیز ہے، جو انہیں حاصل نہیں! بے پناہ دولت، بے پناہ اختیارات، لاتعداد مواقع۔ پھر وہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص اور ادارہ ہر قوت اور اختیار سے محروم ہوجائے۔ وہ تو اس ڈرائیور کی طرح ہوگئے،جو مطالبہ کرے کہ جب وہ نمودار ہو تو سب لوگ اس کے لیے راستہ خالی کردیں۔ امیرالمومنین محمد امین کو کس چیز نے بھیانک انجام سے دوچار کیا۔۔۔؟ کثرت کی خواہش نے۔ خدا کی آخری کتاب کہتی ہے ’’الھکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر‘‘ کثرت کی خواہش نے تمہیں برباد کرڈالا، حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔
(ہارون رشید،روزنامہ 92، بدھ 09 ستمبر 2020ء)
رحم کرو رحم
ہمارے ہاں جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے اس ملک کے شہریوں کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ ایک بار میں نے غور کیا، صبح فجر کے وقت آپ کسی ٹی وی چینل کا پانچ بجے یا چھ بجے کا بلیٹن سن لیں۔ سوائے اس خبر کے اور کوئی بات نہ ہوگی کہ کس جگہ عصمت دری ہوئی، کہاں عمارت گری، کہاں ایک لڑکی نے خودکشی کرلی، اب پتا نہیں چلتا کہ یہ خودکشی تھی یا قتل؟ سب دل دہلا دینے والی خبریں۔ عمارت بھی گری تو چائنا کٹنگ تھی، بنانے کی اجازت دینے والوں نے غفلت کی تھی۔ ایک دن میں نے صبح کے بلیٹن کا ایک ہفتے تک جائزہ لیا، لگتا تھا کوئی تو ہے جو اس قوم کے اعصاب صبح صبح شل کردینا چاہتا ہے۔ آٹھ بجے کا بلیٹن آتا ہے تو حالات بدلے ہوتے ہیں اور عالمی خبروں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ کوئی تو ہے جو یہ نظام چلا رہا ہے، کوئی تو ہے۔ میں نہیں کہتا کوئی ایجنڈا ہے۔ نادانستگی ہی میں سہی، ہم قوم سے ہر قسم کا عزم و ارادہ اور قوتِ عمل چھین لینا چاہتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں ان بچوں پر کیا گزرے گی جن کی ماں کے ساتھ اُن کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوا- اس ماں کی باقی ماندہ زندگی پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ اس کا پورا خاندان کس طرح متاثر ہوگا؟ شاید ہم یہ بھی سوچتے ہوں کہ اسی نوع کے واقعات یا دوسرے دردناک واقعات کا طومار دیکھ کر ہم کسی کام کے رہیں گے بھی یا نہیں۔ میں عرض کررہا ہوں پوری قوم کے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ ہم بے حس ہوگئے ہیں۔ بحیثیت قوم ہمارے احساسات کچل دیئے گئے ہیں۔ جتنے آسمان ہم پر گرے ہیں، ان دنوں ہم پر جو بیت گیا ہے، اس میں کوئی غیرت مند ذمہ دار ہوتا تو چلّو بھر پانی میں ڈوب جاتا۔ ہم کچھ نہیں کررہے، بس خود کو مارے چلے جارہے ہیں، خود کو کچلے چلے جارہے ہیں۔ اس عورت سے ہمدردی جتا کر بڑا تیر مار رہے ہیں۔ مجھے تو اپنے آپ پر ترس آتا ہے۔ پوری قوم پر ترس آتا ہے۔ رحم کرو، رحم، بہت ہوگئی، رحم کرو۔
(سجاد میر۔ 92، پیر 14ستمبر 2020ء)