نازک مزاج ہے یہ برق النساء ہماری
جاتے ہی اس کے چلنے لگتی ہے دل پہ آری
ہم فون پر برس لیں یا دیں کہیں پہ دھرنا
بے سُود ہے ہماری جتنی ہو آہ و زاری
کر لیجیے خوشامد یا منت و سماجت
اک بے حسی ہے رکھتی خود پر سدا یہ طاری
اس کے ہی دَم سے جاری ہے کاروبارِ دنیا
اور اس کا روٹھ جانا، پڑتا ہے سب کو بھاری
کوشش تو کی بہت ہے دل اس کا جیتنے کی
لیکن کسی بھی حیلے سے ہو سکی نہ یاری
طوفان ہو یا آندھی یا خوشگوار موسم
رکھتی ہے سلسلہ یہ ناز و ادا کا جاری
اس سے بنا کے رکھنے کا ہے بس اک طریقہ
ہو برق کے محکمے میں اپنی رشتہ داری
بل اس کا ہے بظاہر کاغذ کا ایک ٹکڑا
کر جاتا یہ ہڑپ ہے تن خواہ اب تو ساری
ہے یوں تو نور افشاں، کام اس کا ہے مبارک
لیکن ہے یہ عفیفہ فطرت میں اپنی ناری